اہلِ سیاست کی آئین فہمی۔۔آصف محمود

کیا حکومت ، کیا اپوزیشن ، تازہ بحران کے جو آئینی حل یہ سب اہل سیاست مل کر پیش کر رہے ہیں وہ سن کر آدمی سوچتا ہے کیا ان شخصیات نے زندگی میں کبھی آئین کا مطالعہ نہیں کیا ؟ سپیکر قومی اسمبلی کا دعوی ہے کہ وہ اس بات کا اختیار رکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر پھر اسے جب تک چاہیں ملتوی کر دیں۔

سوال یہ ہے کیا واقعی سپیکر کو نہیں معلوم کہ ان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے؟ آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق جب اسمبلی کا اجلاس نہ چل رہا ہو اور ایک چوتھائی اراکین دستخطوں سے اجلاس بلانے کی درخواست کریں تو سپیکر 14 دنوں کے اندر اندر اجلاس بلا نے کا پابند ہوتا ہے ۔ اسی آرٹیکل میں اگر چہ یہ بھی لکھا ہے کہ ایسے بلائے گئے اجلاس کو سپیکر ہی ملتوی کر سکتا ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عدم اعتماد کے لیے بلائے گئے اجلاس کو سپیکر ووٹنگ کے بغیر ملتوی کر دے؟

ایسا ہر گز نہیں۔ آرٹیکل 54کا تعلق قومی اسمبلی کے اجلاس کی عمومی طلبی اور التوا کے بارے میں ہے۔ عدم اعتماد کا معاملہ الگ ہے اور مختلف ہے ۔ عدم اعتماد کے معاملے میں اجلاس بلانے کے بعد اسے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ملتوی کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وزیر اعظم عام حالات میں اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے سکتے ہیں لیکن عدم اعتماد آ جانے کے بعد وہ یہ مشورہ نہیں دے سکتے۔یاد رہے کہ اس وقت عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی جا چکی ہے، اس لیے اس اجلاس کا تعلق اب آرٹیکل 95 سے ہے اور اب سپیکر اسی آرٹیکل 95 کے تحت کارروائی کے پابند ہیں۔ آرٹیکل 95کیا کہتا ہے؟

آئیے ذرا یہ دیکھ لیتے ہیں۔

اس آرٹیکل کے مطابق عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سپیکر پابند ہیں کہ اس پر ووٹنگ کرائیں۔ ووٹنگ کرانے کے لیے مدت کا تعین بھی آئین نے کر دیا ہے۔ یہ ووٹنگ تین دن سے پہلے نہیں ہو سکتی ، یعنی اجلاس بلا کر قرارداد پیش کرنے کے پہلے تین دن اس پر ووٹنگ نہیں کرائی جا سکتی۔ اسی طرح یہ بھی آئینی تقاضاہے کہ ووٹنگ کا عمل سات دن کے اندر اندر ہو۔گویا لازم ہے کہ سپیکر چوتھے ، پانچویں ، چھٹے یا ساتویں دن اس پر ووٹنگ کروائیں۔ آٹھواں دن نہیں ہو سکتا۔سپیکر کا اختیار بس اتنا ہی ہے۔اور یاد رہے کہ یہاں آئین نے May کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ Shall کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سپیکر چاہیں تو May اور Shallکے فرق اور معانی کو سمجھنے کے لیے وزارت قانون سے رجوع کر سکتے ہیں۔

ایک دعویٰ وزیر اطلاعات کا ہے کہ اگر سپیکر کو لگے کسی رکن نے پارٹی چھوڑ دی ہے تو وہ ایسے رکن کا ووٹ نہ گننے کی ہدایت دے سکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آئین میں ایسا کوئی اختیار سپیکر کے پاس موجود نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں سپیکر کا اختیار شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب ڈیفیکشن ہو جائے اور کوئی رکن اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے بر عکس ووٹ دے ڈالے۔ آئین نے سپیکر کو ایسا کوئی اختیار نہیں دے رکھا کہ وہ کسی کو ووٹ ڈالنے سے روکے یا کسی کا ووٹ گننے سے انکار کر دے۔ شیخ رشید وزیر داخلہ ہیں اور وہ وزیر اعظم کو سندھ میں گورنر راج لگانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے وزیر داخلہ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد گورنر راج لگانے کے اختیارات میں کتنی غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔

اب وہ زمانے گئے کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر صدر محترم نے دو منٹ میں ایمر جنسی نافذ کر دی اور کسی بھی صوبے میں گورنر راج لگا دیا۔ آئین کے آرٹیکل 232 کے مطابق صدر کے پاس جنگ ، بیرونی جارحیت اور داخلی خلفشار کی صورت میں ایمر جنسی نافذ کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن اگر یہ ایمر جنسی داخلی خلفشار کی بنیاد پر لگائی جا رہی ہے تو پھر آئین میں دو شرائط دی گئی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے متعلقہ صوبے کی صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی جائے اور اس صوبے کی اسمبلی خود یہ کہے کہ حالات اتنے خطرناک ہو گئے ہیں جن پر قابو پانا صوبائی حکومت کے بس کی بات نہیں اس لیے ازرہ کرم ایمر جنسی نافذ کر دی جائے۔تو کیا شیخ رشید کا یہ خیال ہے کہ سندھ اسمبلی یہ قرارداد منظور کر کے ان کی خدمت میں پیش کر دے گی؟

دوسری شرط یہ ہے کہ اگر صدر اس اسمبلی سے قرارداد آنے کے بغیر ہی ایمر جنسی نافذ کر دیتے ہیں تو اسے دس دن کے اندر اندر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے رکھا جائے گا اور اس حکم نامے کی منظوری لی جائے گی۔تو کیا وزیر داخلہ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ایوان ان کے حکم کی تعمیل کریں گے؟ جس ایڈ ونچر کی مدت ہی مبلغ دس دن ہے اس ایڈ ونچر کا مشورہ دے کر وزیر داخلہ اپنے وزیر اعظم سے خیر خواہی کر رہے ہیں یا انہیں ایک نئی دلدل میں دھکا دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔

یہ سوال البتہ سیاسی ہے ، قانونی نہیں۔ اس لیے یہ ہمارا موضوع نہیں۔تحریک انصاف چاہے تو اس سوال پر غور کر سکتی ہے کہ ان کی میمنہ میسرہ کے سالار کس کے پیادے ہیں؟ خود وزیر اعظم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کی صورت حال پر جواب دے۔سوال یہ ہے کیا وزیر اعظم کو خبر ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت الیکشن کمیشن کے اختیارات کیا ہیں؟ آئینی صورت حال یہ ہے کہ عدم اعتماد کے اس انتخاب سے الیکشن کمیشن کا کچھ لینا دینا نہیں۔ آئین نے الیکشن کمیشن کا کردار واضح کر رکھا ہے کہ ڈیفیکشن کی صورت میں اگر اس کے پاس سپیکر کی طرف سے نا اہلی کا ریفرنس آتا ہے تو وہ اس ریفرنس کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ جہاں الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار ہی نہیں و ہاں تو وزیر اعظم اس سے جواب طلب کر رہے ہیں اور پارلیمان سے باہر جہاں الیکشن کمیشن کا اختیار ہے وہاں وزیر اعظم اس اختیار کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے انہیں لوئر دیر میں جلسے سے روکا لیکن وہ نہیں رکے اور جا کر خطاب فرما آئے۔یہی رویہ ان کے وزراء کا بھی رہا ۔ یہی حال شہباز شریف کا ہے۔وہ ایک قومی حکومت کا فارمولا پیش کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ آئین کی کس شق کے تحت وہ ایک قومی حکومت بنانا چاہتے ہیں۔کل تک ہارس ٹریڈنگ ان کے نزدیک بری تھی لیکن آج گھوڑوں کی خریدو فروخت ان کے نزدیک بالکل جائز قرار پائی ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کل یہ تجارت تحریک انصاف کے ہاں جائز تھی اور اس پر رجز پڑھے جاتے تھے کہ اتنی وکٹیں گر گئیں اور آج جب خود پر آن پڑی ہے تو اس سے ناجائز اور برا کوئی عمل ہی نہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply