اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ۔۔فاطمہ بنت ِانتظام

کسی بھی معاشرے کی اکائی اس کے افراد ہوتے ہیں اور یہ افراد دو ہی جنس میں منقسم ہوتے ہیں مرد یا عورت ،کسی بھی معاشرے میں توازن اسی صورت باقی رہ سکتا ہے جب اس معاشرے کے ہر رکن  کی حیثیت متعین ہو اور وہ اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو۔دین اسلام نے نہ صرف تمام ہی شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں رہنمائی فرمائی ہے بلکہ کوئی بھی مخلوق ہو پرند   چرنداس کی حیثیت کو متعین کیا گیا ہے ۔تو یہ کیسے ممکن تھا کہ دین اسلام حضرت انسان کو ڈسکس نہ  کرتا ۔اسی طرح دین اسلام میں تمام انسانوں کی حیثیت و درجات بھی مقرر فرمادیے ہیں۔ عورت بہت سے رشتوں سے مربوط ہے مثلا ًوہ ایک بیٹی،  بہن اورپھر وہ ایک بیوی اور ماں ہے۔ اس کےعلاوہ وہ دوسری معاشرتی ذمہ داریاں بھی سنبھالتی ہے۔ہم عورت کا  بحیثیت ماں بہن بیٹی اور بیوی ، حیثیت کا جائزہ لیں گے۔

اگر ہم عورت کا بحیثیت بیٹی  مقام دیکھیں ، تو ہم جانتے ہیں  کہ قرآن کریم میں اس کی پیدائش کو خوش خبری قرار دیا گیا ہے،ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خوش خبری دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے (سور النحل آیت ۵۸)دین اسلام ہی ہے  جس نے عورت کو بیٹی کے روپ میں جینے کاحق دیا ورنہ زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ نبی کریمﷺ بحیثیت باپ اپنی بیٹیوں پر بہت شفیق تھے آپﷺ کی حضرت فاطمہ سے بےپناہ عقیدت و محبت کو کون نہیں جانتا، آپ نے بیٹی کے استقبال میں کھڑے ہوکرپوری امت کو بیٹی کی عزت و محبت سکھائی ،اگر آج بیٹیوں کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں ، تو یہ حضورﷺ کی تعلیمات کا صدقہ ہے اور بیٹیوں کی پرورش کوجنت میں لے جانے کا سبب قرار دیا گیاہے۔ ایک حدیث میں وارد ہوا  ہے کہ “ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں ، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دی ، اور تیسری کھجور کے (بھی )دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی”۔(سنن ابن ماجہ : 3668  ) ۔

اس کے بعد یہی بیٹی جب بہن بنتی ہے توبھائی اس کی عزت کا محافظ ہوتا ہے اور دین اسلام نے بہنوں پر خرچ کرنے کی تر غیب دی ہےاور ان کی پرورش اور تربیت کرنے پر جنت کی بشارت سنائی ہے   ایک حدیث میں  ہے۔” قبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :” جس کے پاس تین لڑکیاں (بیٹی یا بہن )ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے ، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی”ا(بن ماجہ)۔

نبی کریمﷺنبی کریمﷺ کے عمل سے بھی بہن کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک  مرتبہ اپنی رضائی بہن کے لیے آپ ﷺ نے اپنی چادر مبارک ان کے لیے زمین پر بچھادی اور ان کا بہت اکرام کیا۔

عورت کا   بیوی ہونا اپنے شوہر کے ایمان کے تکمیل کا ذریعہ ہے اور دین اسلام نے عورت کو مرد کے گھر کی ملکہ بنایا، اس پر کوئی بھی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ،یہ کس قدرخوش نصیبی اور باعث طمانیت    ہے کہ عورت پردین اسلام نے معاشی بوجھ نہیں ڈالا ،اس کا نان نفقہ اس کے شوہر کے ذمہ ہے اور اسلام نے عورت کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ “تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں  (بیویوں) کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم میں سے سب سے اچھا ہوں  اپنے گھر والو کے ساتھ”۔

اس کے بعد عورت کی زندگی میں جن رشتوں کا کردار آتا ہے وہ ہے اس کی اولاد ۔اسلام نے جتنے بھی رشتے عطا کیے ہیں ان سب میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ماں کا رشتہ ہےاس کی اہمیت و مقام کی کوئی انتہا ہی نہیں، دین اسلام میں قرآن کریم میں والدین کے لیے “اُف” بولنے کو بھی جرم قرار دیا گیا اور والدین کے لیے فرمایا “اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن ِسلوک کرنے کا حکم دیا ہے اس کے بعد  فرمایا کہ  ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے (الأحقاف: 15)۔

اس کے علاوہ ایک دعا بھی تعلیم فرمائی مگر یہ خصوصیت ماں اور باپ دونوں کے لیے ہے مگر دین اسلام نے ماں کا رتبہ باپ سے تین گُنا  افضل رکھا ہوا ہے ،جس کا ہمیں اس حدیث سے پتہ چلتا ہے ۔ اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا:  (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟  تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) بخاری (5626) ،مسلم (2548) ۔

زمانہ جاہلیت میں ایک بُرا رواج یہ بھی تھا کہ  بیٹے    باپ کے مرنے کے بعد باپ کی بیویوں سے شادی کر لیا کرتھے تھے  اسلام نے آکر اس قبیح رسم کو ختم کیا یہ عورت کی توہین تھی جس کو اسلام نے آکر ختم کیا۔ اللہ نے باپ کی بیویوں سے نکاح کوحرام قرار دے کر اس کا رتبہ بلند کیا۔اللہ سبحان و تعالی نے عورت کو بہت نازک تخلیق فرمایا ہے اور یہ  عورت  اسلام میں بہت قیمتی تصور کی جاتی ہے اس کی وضا حت ایک حدیث میں ہوتی ہے ایک مرتبہ تیزی سے ایک غلام اونٹوں کو بھگا رہا تھا جس پر عورتیں سوار تھیں یہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا اے انجشہ آہستہ یہ تو آبگینے ہیں یعنی عورتوں کے ساتھ حسنِ  سلوک کا برتاؤ  کرنے اور ان کی نزاکت کو بیان کیا ۔یہی وجہ ہے کہ خالق نے اس کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام فرمایا ہے اس کو زندگی کے ہر  موڑ پر محرم  رشتے عطا کیے ،جو اس کے محافظ ہوتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں جو انسان قیمتی ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی اہمیت ہوتی ہے وہی انسان اپنے ساتھ محافظ یعنی  باڈی گارڈ رکھتاہے اللہ سبحان و تعالیٰ کے نزدیک عورت کی عزت و جان کی اتنی اہمیت ہے ۔

اللہ سبحان و تعالی نے نہ صرف عورت کی حفاظت مرد کے ذمہ  لگائی ہے بلکہ عورت کی تمام معاشی ذمہ داری عورت کےمحارم پر ڈالی گئی ہے یہ بات اور ہے کہ عورت اس سے خود نابلد ہے  کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پراس پر کمانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اس کا اسےاجر ملے گاعورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں  یعنی تعلیم کا حق،تجارت کا حق ،رائے دینے کا حق ،اپنی مرضی سےشادی کا حق ،جائیداد رکھنے کاحق ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ  تمام ادیان میں عورت کے رتبہ کا جائزہ لیں  تو یہ    حقیقت آپ پر  روزِروشن کی طرح عیاں ہوگی  کہ معاشرے میں عورت کی عزت اور حیثیت کا صحیح تعین صرف اسلام کرتا ہے۔  ویسٹ نے عورت کو آزادی کے نام پر جس تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیاہے اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم نبی کریمﷺ پر نازل کی گئی تعلیمات یعنی قرآن کو اپنا لیں اور اسلام نے جو مقام ومرتبہ عورت کو دیا ہے وہ مقام و مرتبہ عورت کو دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply