• صفحہ اول
  • /
  • رپورٹ
  • /
  • اکابرینِ دارالعلوم کراچی سے ملاقاتیں(2،آخری قسط)۔۔محمود احمد ظفر

اکابرینِ دارالعلوم کراچی سے ملاقاتیں(2،آخری قسط)۔۔محمود احمد ظفر

مفتی سید حسین احمد صاحب سے ملاقات:
مولانا مفتی عبد الرؤف سکھروی صاحب سے ملاقات کے بعد دارالافتاء کی دوسری منزل پر آگئے، جہاں تخصص فی الافتاء کے طلبہ کے لیے جدید طرز کی کلاسز بھی بنائی گئی ہیں۔
مفتی سید حسین احمد صاحب سے ملاقات کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوگئے، مختصر تعارف کے بعد مولانا انیس صاحب نے صاحب ان کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا کہ ہم اپنے ادارے کی طرف سے بدیہی اور ضروری مسائل پر مشتمل پمفلیٹ شائع کروا کر شہر بھر میں تقسیم کرتے ہیں۔ اگر آپ مہربانی فرما کر ان پر نظر ثانی فرما لیا کریں، ہمارے لیے اطمینان کا باعث رہے گا۔ مفتی صاحب نے فرمایا بھائی مصروفیت تو بہت رہتی ہے لیکن آپ لے کر آیا کرو، دیکھ لیں گے۔ جزاھم اللہ خیراً ۔
مفتی محمد یعقوب صاحب سے ملاقات:
اس کے بعد ہماری ملاقات استاذ محترم مفتی یعقوب صاحب سے ہوئی۔ استاذجی کو ہم نے ادارہ “جامعۃالحسنین شکارپور” کی جانب سے شائع کردہ پمفلیٹ دکھائے اور رہنمائی طلب کی۔
استاذجی نے بہت اہم باتیں ہمارے سامنے رکھیں۔
فرمایا دیکھو بھئی! جو بھی بات کرو اپنے بڑوں کا حوالہ دے کر کیا کرو، ہم ابھی اتنے مرجع الخلائق نہیں بنے کہ مستقل بالذات ہو کر بات کریں۔ ہم جو کچھ بھی ہیں اپنے بڑوں کی برکت سے ہیں۔ مجھے جو کال آرہی ہے مسئلہ پوچھنے کے لیے، یہ میرے اکابر کی وجہ سے آرہی ہے، ان کا نام ہے۔
پھر آج کا نوجوان بہت بدل گیا ہے، وہ پہلے ہی سرچ کر لیتا ہے لیکن اسے صحیح اور غلط کی تمییز نہیں ہوتی، وہ اپنی معلومات میں تمییز کے لئے آپ سے مسئلہ پوچھتا ہے۔ کبھی کبھار لوگ امتحان کے طور پر بھی پوچھ لیتے ہیں۔ اس لئے جو بھی بات کرو تحقیق کے ساتھ کرو اور بڑوں کا حوالہ دے کر کیا کرو، اس سے لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھے گا۔
مولانا عبداللہ برمی صاحب زید مجدھم سے ملاقات:
اسی دوران ہماری ملاقات مولانا مفتی عبداللہ برمی صاحب زید مجدھم سے ہوگئی۔ اپنا تعارف کرایا۔ حضرت بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ فرمایا ختم بخاری کل پرسوں ہے آئے ہی ہو تو اس میں شرکت کرکے پھر جانا.
اساتذہ کرام / مفتیان کرام سے ملاقاتیں کرنے کے بعد دارالافتاء سے نکلنے لگے تو ظہر کی اذان آرہی تھی، نمازِ ظہر کے بعد ہمیں مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات کرنا تھی ، یہ ملاقات بہت اہم تھی.
حضرت مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب سے ملاقات کرنے کے لیے نماز ظہر کے بعد ان کے دفتر کی جانب چل دیے،
دفتر پہنچے تو باہر، حضرت کے سیکریٹری اور گارڈ بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے انہیں بتایا کہ ہم دار العلوم کے فضلاء ہیں ، شکارپور سے حضرت سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ آپ استقبالیہ میں انتظار کریں، حضرت ابھی دفتر میں موجود نہیں، آجائیں تو آپ کو بلا لیتے ہیں۔
قریب 15 ، 20 منٹ کے انتظار کے بعد حضرت کے دفتر کے باہر سے اشارہ ملا کہ آجائیں حضرت تشریف لا رہے ہیں۔ سکریٹری نے ہمارے ملنے سے پہلے ہی حضرت کو ہمارا بتادیا تھا(اکابرینِ دارالعلوم کراچی سے تفصیلی ملاقات و بات چیت کرنی ہو تو پہلے سے ٹائم لے لیں، ورنہ کم از کم درجہ یہ کہ اگر تفصیلی بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو براہ راست نہ ملیں بلکہ متعلقہ لوگوں، سکریٹری وغیرہ کو پہلے سے بتادیں، وہ آپکو تفصیل سے آگاہ کردیں گے، اسی پر عمل کریں)
سلام و مصافحہ کے بعد ہم نے مختصراً تعارف کرایا اور اپنا مدعا بھی حضرت کے سامنے رکھا :
“ہم دارالعلوم کے فضلاء ہیں اور شکارپور میں درس و تدریس، سیکھنے سکھانے کا کام کر رہے ہیں، آپ کے علم میں ہوگا کہ شکارپور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ علاقہ ہے، مگر ماضی میں علم و عمل کا گہوارہ رہ چکا ہے، حضرت تھانوی رح کے خلیفہ حکیم مولوی فضل اللہ سومرو رح کا تعلق شکارپور ہی سے تھا، جامعہ کے صدر(مولانا فرحان احمد صاحب) ان ہی کے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ہماری خواہش ہے کہ حضرت ہماری راہنمائی فرمائیں تاکہ حضرت کے زیرِ سرپرستی، اکابرین کے مزاج ومذاق کے مطابق وہاں کام کریں۔
ساتھ ہی میں وہ خط بھی پیش کردیا جس میں دونوں اداروں(جامعۃ الحسنین و جامعہ معارف الوحی شکارپور) کی تفصیلات، نظام تعلیم، طلبہ و طالبات اور معلمین و معلمات کی تعداد درج تھی۔
حضرت نے فرمایا بھئی ابھی تو بہت مصروفیت ہے، سال کا آخر ہے، کل پرسوں ختمِ بخاری ہے۔ آپ لوگ میرا نمبر لے لیں اور ختم بخاری کے بعد مجھ سے رابطہ کریں۔ یہ خط میں بعد میں پڑھ لوں گا اور ان شاءاللہ میں شکارپور بھی آؤں گا، وہاں آپ لوگوں کا کام دیکھوں گا، پھر میں اپنی بات آپ لوگوں کے سامنے رکھوں گا۔
حضرت معذرت بھی فرما رہے تھے کہ آپ لوگ اتنی دور سے آئے ہو، میں زیادہ ٹائم نہیں دے سکا مصروفیت کی وجہ سے۔ ابھی بھی دورہ حدیث میں سبق پڑھانے جارہا ہوں۔
حضرت نے اپنے سکریٹری سے فرمایا کہ بھئی! مہمانوں کو دوپہر کا کھانا کھلاؤ، ہم نے بھی سعادت سمجھ کر منع نہیں کیا ، سو حضرت کی جانب سے دار العلوم کے مطعم میں ہمیں ظہرانہ پیش کیا گیا۔ فجزاھم اللہ خیرا۔
ایک بات رہ گئی کہ جب ہم استقبالیہ میں مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب کا انتظار کر رہے تھے تو اسی دوران حضرت ناظم صاحب (مولانا راحت علی ہاشمی صاحب،ناظم تعلیمات دارالعلوم کراچی) بھی رجسٹر پر دستخط کرنے آگئے تھے، حضرت نے ہمیں سلام کیا، ہم نے بھی موقعہ فرصت دیکھ کر مصافحہ کیا ، حضرت نے خیر خیریت دریافت کی اور پوچھا کیسے آنا ہوا ہے؟ ہم نے اپنا مدعا سامنے رکھا۔ حضرت بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply