اسلام آباد پر قبضے کی جنگ۔۔۔عبید چوہدری

 گذشتہ 3 ہفتوں سے راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر” پنجابی ظالمان” کے سیاسی ونگ نے دھرنا دے رکھا ہے۔ اس دھرنے سے ’’راولپنڈی‘‘ اور ’’اسلام آباد‘‘ کے درمیان رہے سہے روابط بھی دم توڑ رہے ہیں۔ سول اور ملٹری تعلقات نومبر آتے ہی مزید سرد مہری کا شکار ہو گئے ہیں، ایسے میں ،میاں نواز شریف نے اپنے روایتی مولویانا نظریے کو خیر باد کہتے ہوئے جہاں مریم نواز کی سیاسی چشم کشائی کی ہے وہاں اپنے ’’مائی باپ‘‘ سے  اختلاف کی بھی جسارت کر ڈالی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کی اپنی برسوں سے کمائی جانے والی ’’حلال کمائی‘‘ کی حفاظت کرنا قرار دیا جا رہا ہے وہاں ان کی اقتدار کی لت بھی زیر بحث ہے۔ ایسے میں ملا ملٹری اتحاد کے مخالف لبرلز ایک بند گلی میں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ 1999 میں ایسی ہی وجوہات کو بنیاد بنا کر مشرف کا ساتھ دینے والی ہماری ترقی پسند اشرافیہ کو پچھتاوے کا نشتر اب بھی تکلیف دے رہا ہے۔ اور یہ سوال بھی منہ کھولے کھڑا ہے کہ کہیں نواز شریف کا مشرف کی طرز پر ساتھ دینا 1999 سے زیادہ بڑی غلطی تو نا ہو گی۔

ترقی پسند اشرافیہ کا امتحان اپنی جگہ پر،مگر ایسے میں معاشرے میں ایک بار پھر بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے بھوت کا قد بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اب ایک نظر ان دھرنے والوں پر بھی ڈال لی جائے۔ پاکستانی مسلمان کی اسلام اور حضرت محمدؐ سے محبت کا گراف کسی بھی اور ریاست اور علاقے کےمسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اب محبت کا یہ بنیادی تقاضاہوتا ہے کہ اندھی تقلید کی جائے۔ ایسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سادہ لوح مسلمانوں کو کبھی تو جہاد اور کبھی اسلام کی سربلندی اور کبھی کبھی توہین کا “ڈراوا” دے کر استعمال کر لیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر ایمان کامل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینکڑوں پاکستانی نوجوان اپنی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ اب ایک بار پھر فیض آباد میں بھی ان سے جہاد کشمیر، جہاد افغانستان، لال مسجد، ماڈل ٹاون لاہور جیسے نتائج کی امید لگائی گئی ہے۔ ایک ’’شیریں گو‘‘ مولوی صاحب دن رات نوجوانوں سے پھر ان کی رسولؐ سے محبت کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔

ایک تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ( معذرت کے ساتھ) کئی شیعہ عالم ایسے ہیں کہ اگر ان کی مجلس کا واعظ سن لیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ اس سے بڑھ کر آل رسولؐ کی توہین ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے ہی بریلوی حضرات کی محفل نعت پر تقریر بھی توہین سے لبا لب ہوتی ہے۔ دیو بندی اور اہل حدیث کی زیادہ تر تقاریر بھی دوسرے فرقے کی معزز ہستیوں کی توہین پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ ایسے میں ایک ممکنہ نتیجہ یہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ کسی بھی قسم کی توہین کا ٹھیکہ صرف اور صرف مذہبی راہنماوں کو ہی حاصل ہے اور وہ اس ’’کار خیر‘‘ میں کسی کو شریک جرم کرنے کو تیار نہیں اور اگر کوئی ایسی جرات کا سوچے بھی تو سب اپنے اپنے اختلافات بھلا کر اس سے’’ حساب‘‘ لینے نکل پڑتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ کسی نے توہین نہیں کی اور ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور کوئی ایسا کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا تو ان کو اعتبار ہی نہیں آتا۔ یہ اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لاکھ لاکھ شکر ہے کے توہین نہیں ہوئی۔ یہ تو اس بات پر قائم رہتے ہیں کہ نہیں توہین تو ہوئی ہے۔ اگر یہ ثابت نا کر پائیں کہ توہین ہوئی ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ ان کو چین ہی نہیں آتا،اور تسلی صرف اس وقت ہی ہوتی ہے جب کسی نا کسی طرح سے یہ توہین ثابت کر دیں۔

ان کی ساری جدوجہد توہین کو قائم رکھنے میں ہی نظر آتی ہے۔ 70 سالوں سے جاری جدوجہد میں آج بھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ اسلام آباد عوام کا ہے یا اسلام کا ہے؟ موجودہ دھرنا بھی اسی بات کا تصفیہ کرنے کی ایک اور جدوجہد نظر آتا ہے۔ توہین کے چیمپئن اپنے ’’آقا‘‘ کے اشارے پر رسول پاکﷺ کی تمام تعلیمات اور انسان دوستی کو بھلا کر انسانیت کے لیئے صرف اور صرف زحمت کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کا’’ فاصلہ‘‘ جو زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کا تھا اب بڑھ کر 3 گھنٹے کا ہو چکا ہے۔ اس سب میں جہاں دھرنے والےذمہ دار ہیں وہاں حکومت بھی برابر کی شریک ہے۔ ان تینوںمیں سے کسی کو توہین رسولؐ کی فکر نہیں اگر انہیں فکر ہے تو صرف اور صرف اپنے ووٹوں کی۔ اور یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ۔ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو اس کی پیشگی معذرت۔ اس مضمون کا واحد مقصد توہین رسالتؐ کے معاملے کو سیاست سے الگ کرنا اور چند تلخ حقائق کا ایماندارانہ تجزیہ ہے۔مصنف)

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply