بدلتے جنسی و اخلاقی روئیے

تربیت…
عورتوں ا ور بچوں سےآئے دن جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کے واقعات معمول کے مسائل کا حصہ بن رہے ہیں۔ کبھی اس ظلم کا شکار سات سالہ محمد حنیف بنتا ہے جسے ہوس کا نشانہ بناکر درد ناک طر یقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے کبھی چھ سالہ طیبہ اس ظلم و بر بریت کا شکار ہو جاتی ہے کبھی سات سالہ طیبہ کو مار پیٹ کر اپنے عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے حتی کہ قبر کے اندر سے عورتوں اور بچوں کی لاشیں نکال کر انکی بے حر متی کی جاتی ہے ۔یہ ایسےمظالم ہیں جن پر زمین اور آسمان کانپ اٹھتے ہیں۔ ان گناہوں میں ملوث اقوام کو ماضی میں خدا ئےبزرگ و بر تر نے صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا تھا،آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا ڈالا، آج ہماری قوم سے وابستہ بہت سے افراد اس قسم کی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہے ہیں سوچ سوچ کر دماغ شل ہو نے لگتا ہے،پتہ نہیں کب مہلت تمام ہوجائے اور عذاب آکر ہمیں جکڑ لے۔
ہماری پڑوسن ایک دن بڑی پر یشانی کے عالم میں آئی کہنے لگی میں رات بھر سو نہیں سکی وجہ دریافت کر نے پر جو بات انہوں نے بتائی وہ سن کر نیند ہماری آنکھوں سے بھی اوجھل ہو گئی۔ کہنے لگی “کل رات میں سونے ہی لگی تھی کہ باہر سے کتوں کے زور زور سے بھو نکنے کی آواز آنے لگی۔ باہر روڈ پر واقع کچرا کنڈی کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے جھانکا کہ آخر ماجرا کیا ہے ؟رات کے اس پہر کتے کیوں چلا رہے ہیں؟ آواز کا تعاقب کر تے ہو ئے سامنے کا منظر کچھ یوں تھا کہ ایک شخص بکری کے مردہ بچے کے ساتھ بد فعلی کر نے میں مصروف تھا اور ارد گرد کتے کھڑے بھو نک رہے تھے یقیناََ وہ بھی اس منظر کی تاب نہیں لا پا رہے تھے جو ایک اشرف المخلوقات کہلانے والا شخص کر رہاتھا.
انتہائی افسوس کا مقام ہے انسان انسانیت سے گری ہوئی حرکات بڑے آرام سے کر رہے ہیں، اس اخلاقی گراوٹ کی وجو ہات بہت سی ہیں اصل بات ان وجو ہات کو سامنے لا کر ان کے حل کی کو شش ہے۔آج کے تیزی سے ترقی کر تے دور میں تعلیم کی اہمیت کی بات تو جاتی ہے عملی طور پر بھی اس پر ہر جگہ کام ہو تا نظر آرہا ہے مگر افسوس تر بیت کا بہت بڑا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹین ایجرز کی توجہ تعلیم سے ہٹ کر نام نہاد عشق کی جانب بڑھ رہی ہے حالانکہ اس عمر کے کیا میچور لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد عشق کے ع تک سے واقف نہیں بس جنس مخالف کی جانب معمولی سی اٹریکشن کو عشق و محبت کا نام دے کر اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں تباہی سے دو چار کیا جارہا ہے.
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیکس اورسیکسوئل ایجو کیشن پر بات کر نا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے ۔گھر اور تعلیمی اداروں میں اس پر کھل کر بات نہیں کی جاتی، حالانکہ دین حق بات کہنے سے نہیں شرماتا اگر جنسی مسائل پر والدین یا اساتذہ سے بات کر یں تو وہ یقینا بہتر انداز میں مستقبل کے معماروں کے دهیان کو ان باتوں سے ہٹا کر مثبت سر گر میوں کی جانب موڑ سکتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو صحیح طریقے سے یہ کام سر انجام دے سکتے ہیں وہ اسے نظر انداز کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب میڈیا، انٹرنیٹ کی کھه فحش ویب سائٹس، غیر اخلاقی فلمیں اور موادان مسائل کو مزید ہوا دینے کا کام کر رہی ہیں.
جنسی ہیجان سے بھر پور فلمیں اور تحاریر نے نو جوان نسل کو تباہی کے جس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے وہاں سے تباہی کے نئے در وا ہو رہے ہیں. پندرہ سولہ سال کی عمر کے لڑکے لڑکیوں کے دلوں میں جلد سے جلد شادی کر لینے کی دهن سوار ہو نے لگی ہے جسکا اصل مقصد گھر بسانا ہر گز نہیں ہوتا کیو نکہ شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے جو اس عمر کے لو گوں کےلیے مہنگائی اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے اعلی تعلیم کے حصول اور ملازمت مل جانے تک مو جودہ دور میں بہت مشکل ہے ۔ایسے میں کچی عمر کے لڑکوں میں جنسی بے راہ روی انتہائی حد تک بڑھ رہی ہے جبکہ بڑی عمر کے مردوں کے لیے ناپختہ ذہن کی ناسمجھ لڑکیاں آسان ہدف بن رہی ہیں.ان حالات میں ایک اہم ضرورت کر ئیر کا ؤنسلنگ بھی ہےجو معاشرے میں رہنے والے ہر با شعور اور ذی عقل شخص کی اخلاقی ، معاشرتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے طر یقے سے نو جوانوں کی درست رہنمائی کریں، انهیں زمانے کی اونچ نیچ سے آگاہ کر نے کے ساتھ ساتھ دودستانہ رویہ اختیار کریں تاکہ اس طر ح کے مسائل کا شکار نوجوان کھل کر اپنے مسائل ڈسکس کر سکیں.قرآن اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں انسان کی معاشرتی زندگی کے اصول، مسائل اور حل کی جانب رہمنائی کی جائے انهیں سکھایا جائے،شادی ایک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو اچھے طر یقے سے نبھاہنے کے لیے اچھی تعلیم، بہترین ملازمت اہم ہے تاکہ ایک پر سکون زندگی اچھے انداز میں بسر کی جاسکے.ایک انسان ہو نے کی حثیت سے دین اور دنیا کے ہم پر کیا فرائض ہیں اور کیوں انسان کو اشرف المخلوقات کی حثیت سے تخلیق کیا گیا ہے ان تمام باتوں کی جانب درست اور مکمل معلومات دے کر ہی ہم اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کی زندگی کو گناہ آلود ہونے سے بچا سکتے ہیں ساتھ ساتھ ان کی جانب سے متوقع بد فعلیوں سے دیگر لوگوں کو محفوظ کر سکتے ہیں.
زر مینہ زر.

Facebook Comments

زرمینہ زر
feminist, journalist, writer, student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply