• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اقلیتوں کیلئے کشادگی کی ضرورت۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

اقلیتوں کیلئے کشادگی کی ضرورت۔۔ڈاکٹر صغریٰ صدف

جب بھی اقلیتوں کے حقوق، ان پر روا رکھے جانے والے جبر، امتیازی اور غیر انسانی سلوک کی بات کی جاتی ہے تو مسجدِ نبوی اور رسول اللہؐ کے اسوہ کی مثال دے کر اسلام کو اقلیتوں کے حقوق کا علمبردار قرار دے کر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے، مطلب مذہب تو اقلیتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے باقی ظلم وجبر انفرادی مسائل ہیں جو ہوتے رہتے ہیں۔ یہ وہ ظالمانہ رویہ ہے جو اقلیتوں پر خوف کے ہالے کی طرح مسلط ہے۔ پاکستان کی حالیہ مردم شماری کے مطابق، ملک میں اس وقت 1.9 فیصد مسیحی، 1.6 فیصد ہندو، 0.22 فیصد احمدی، 96.28 فیصد مسلمان اور 0.25 فیصد شیڈولڈ کاسٹ کے لوگ بستے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان مذہبی حوالے سے ایک خوبصورت گلدستے کی مانند ہے۔ ذکر اور فکر کا تنوع اسے کشادگی بخشتا ہے۔ مذاہب سے جڑے رنگا رنگ تہوار یہاں کی ثقافت کو منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ تنوع کو طاقت ور بنایا جاتا اور معاشرے میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دیا جاتا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہم نے تنوع کو ختم کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ وہ صوبائی اکائیوں کے کلچر کی بات ہو یا مذہبی رسومات کی، ہرجگہ اور ہر سطح پر ہمارا رویہ نفرت نہیں تو تعصب پر ضرور قائم ہے۔ معاشرتی سطح پر شایدابھی ہم یہ تک قبول کرنے کو تیار نہیں کہ کسی اور مذہب کا پیروکار ہمیں پاکستان میں نظر آئے۔ ہمارے بچپن میں زمانہ مختلف تھا۔ ہمارے ابا زندگی کے آخری ایام تک اپنے سِکھ اور ہندو دوستوں کو یاد کرتے رہے اور ان کی باتیں ہمیں سناتے رہے۔ ان باتوں میں اسکول کے زمانے کی شرارتیں اور محبتیں شامل تھیں۔ پاکستان کے بعد اقلیتوں کی تعداد میں جس قدر کمی آئی ہے اس سے ہمارا رویہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے ہر فرد خود کو ٹھیکیدار اور حاکم تصور کرتا ہے اسلئے غلام بن کر نہ رہنے اور جنسی خواہش پوری نہ کرنے پر ان کی موت کا بندوبست کرنے کیلئے ایک اعلان کی ضرورت ہوتی ہے پھر کسی بھی اسلامی ضابطے پر عمل نہ کرنے والا اس نیک کام میں شریک ہونا باعثِ فخر سمجھتا ہے۔ ہم میں کچھ لوگ اتنے جابر ہیں کہ حاملہ خاتون کو خاوند سمیت آگ کے شعلوں میں پھینک دیتے ہیں اور سامنے کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کسی کو (زبردستی) مسلمان کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس رویے کے باوجود ہم خواہشمند ہیں کہ ہماری اقلیتیں خاموش رہیں، نہ ملک کے اندر انصاف کا در کھٹکھٹائیں اور عالمی برادری کو بھی سب اچھا کے پیغامات بھیجیں۔
پاکستان کا آئین جسے ہم نے مقدس کتاب کی طرح چوم کر رکھا ہوا ہے، میں اقلیتوں کے یکساں حقوق کا تذکرہ سنہری حروف میں لکھا ہوا ہے جس کے تحت ریاست ہر شہری کو کسی تقسیم کے بغیر تعلیم، صحت، ملازمت، شخصی و مذہبی آزادی کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ ریاست قوانین تو بنا لیتی ہے لیکن لاگو کرتے وقت عقیدے کے نام پر سیاست کرنے والوں کے سامنے سرنڈر کر دیتی ہے۔پاکستان بین الاقوامی سطح پر اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے معاہدوں پر دستخط کرنےکے باوجود پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کے یکساں حقوق، مذہبی و شخصی آزادیاں اور تحفظ کو ممکن نہیں بنا سکا تاہم ایک اچھی کاوش یہ ہے کہ اقلیتوں کے لئے تمام صوبوں میں نوکری کا پانچ فیصد کوٹہ مختص کیا گیا ہے اور اس میں بھی اچھی بات یہ ہےکہ اگر کسی سال اس کوٹے کے تحت تمام نشستیں پُر نہ کی جا سکیں تو ان کو اگلے سال میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ 2020ء کے تحت بھی اقلیتوں کے لئے سیٹ رکھی گئی ہے جو خوش آئند عمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعلیم کے ذریعے ہی پیچھے رہ جانے والی اقلیتوں کو مساوی حقوق کا شعور اور ترقی کاموقع دیا جا سکتا ہے۔ 18 مئی 2020ء میں حکومتِ پاکستان نے مائنورٹی ایمپاورمنٹ پیکیج کے تحت اقلیتوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 2 فیصد کوٹہ مختص کیا جس کا اطلاق تمام سرکاری یونیورسٹیوں پہ ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں کو بھی اس کا پابند بنایا جائے۔ پنجاب میں اقلیتوں کے لئے تعلیمی وظیفے، اقلیتی مستحق طالبعلموں کی معاونت، ضلعی سطح پر انسانی حقوق کی کمیٹیاں اور اقلیتوں کی ترقی کے پیکیج کے علاوہ پنجاب انٹر فیتھ پالیسی 2020ء اور پنجاب سِکھ آنند کرج میرج ایکٹ 2018ء حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اصل مسئلہ لوگوں تک ان اقدامات کی آگاہی پہنچانا ہے۔ ریاست یقیناً اپنا کام کر رہی ہے لیکن معاشرے کو ڈنڈے سے نہیں سدھارا جا سکتا۔ مکالمے اور انفرادی عمل سے بہتری لانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ میں مشکور ہوں اپنے رب کی اور محکمہ اطلاعات وثقافت کی، جن کی معاونت سے میں نے کئی سینیٹری ورکرز کو گریڈ گیارہ میں ترقی دے کر کلرک بنایا اور دو مسلمان سینیٹری ورکرز کو بھرتی کیا تاکہ کسی طرح کی تفریق اور تضحیک نہ روا رکھی جا ئے۔ آئیے ہم سب اپنے دلوں میں اتنی وسعت پیدا کریں کہ پوری خلقت کا احترام اس میں سما سکے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply