ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ ۔کرنل ضیاء شہزاد/قسط 17

چاچا کمپس
رات کا وقت فوجی کارروائیوں کے لئے انتہائی موزوں تصور کیا جاتا ہے کیونکہ رات کی تاریکی میں دشمن کے خلاف سرپرائز حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر فوجی تربیت میں رات کے وقت آپریٹ کرنے پرخصوصی توجہ دی جاتی ہے اور عسکری مشقوں کے دوران بھی فوجی دستوں کی نقل و حرکت کے لئے زیادہ تر رات کے وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔آج کل تو ایک سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے جی پی ایس اورگوگل میپ وغیرہ کی مدد لی جاتی ہے جنہیں ایک بچہ بھی بخوبی استعمال کر سکتا ہے لیکن گزرے وقتوں میں یہ معاملہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لئے نقشے اور کمپاس کے ساتھ ساتھ ستاروں کی چالوں سے بھی مدد لی جاتی تھی۔ دن کے وقت تو ’’چاچا کمپس‘‘یعنی راہ چلتے سیانے بندوں سے پوچھ پاچھ کر بھی کام چلا لیا جاتا تھا لیکن رات کو صورتحال اکثر قابو سے باہر ہو جایا کرتی تھی ۔ عموماً ایسا ہوتا کہ فوجی قافلے ایسے بھٹکتے کہ ڈھونڈے سے بھی نہ ملتے اورصبح ہونے کے بعد احساس ہوتاکہ جس جگہ پہنچنا تھا اس سے بالکل 180 ڈگری الٹ سمت میں جا نکلے ہیں۔ ۔

ایک مرتبہ کچھ یوں ہوا کہ ہم صحرا میں جنگی مشقوں کے لئے پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ ایک روز ہمیں تیرہ گاڑیوں کے ایک کانوائے کے ساتھ پندرہ کلومیٹر دور ایک کمپنی پوزیشن پر پہنچنے کا ٹاسک ملا۔ہم نے نقشے پر روٹ مارک کیا ، تمام گاڑیوں کی فٹنس چیک کی اور رات ہوتے ہی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ صحرا میں پکی سڑکیں تو ہوتی نہیں بس گاڑیوں کے چلنے کی وجہ سے کچھ ٹریک بن جاتے ہیں۔ دوسری مشکل یہ ہوتی ہے کہ تمام علاقہ تقریباً ایک سا ہی ہوتا ہے۔ کوئی ایک بھی نشانی ایسی نہیں مل پاتی جس کے ریفرنس سے اپنی پوزیشن معلوم کی جاسکے۔ کچھ دور چلنے کے بعد ہم اسی مشکل کا شکار ہوئے۔ نقشے کی مدد سے اپنی پوزیشن معلوم کرنا چاہی تو کامیابی نہ ہوئی۔بہرحال اندازے سے سفر جار ی رکھا۔

سفر شروع کئے ہوئے پانچ گھنٹے سے زائدگزر چکے تھے اور اب تک ہمیں اپنی منزل پرپہنچ جاناچاہیے تھا لیکن دور دور تک منزل کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آ رہا تھا۔ وائرلیس پر کال کر کے ہم نے اپنی خیریت کی اطلاع دی اور اپنے کھو جانے کے بارے میں بھی آگاہ کر دیا۔ہمیں موومنٹ روک دینے کا حکم دیاگیا اور ہماری تلاش میں ٹیمیں روانہ کی گئیں جو کچھ دیر بعد تھک ہار کر واپس آ گئیں۔ہم نے خود بھی بہتیری بھاگ دوڑ کی لیکن راہ راست پرواپس آنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر مجبور ہو کر ہمیں اپنے کانوائے کے ہمراہ وہ شب تاروں کی چھاؤں میں بسر کرناپڑی۔صبح اٹھ کر فضا میں لنگر کے تازہ کھانوں کی مہک محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ ہم نے جس کمپنی میں پہنچناتھا وہ ٹیلے کے عین دوسری جانب خیمہ زن تھی۔

پنوں پاگل
یہ ان دنوں کا ذکرہے جب آتش جوان تھا اور بحیثیت کیپٹن آرٹلری سکول نوشہرہ میں عسکری خدمات سرانجام دے رہا تھا۔دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ اچانک ہماری پرسکون زندگی کو پنوں عاقل پوسٹنگ کی صورت میں ایک بھونچال کا سامناکرنا پڑا ۔ لوگوں سے طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں ۔ کسی نے کہا کہ وہاں سال کے گیارہ مہینے سخت گرمی پڑتی ہے اور دسمبر کے مہینے میں ذرا سی کم۔ کوئی بولا کہ پنوں عاقل پہنچ کر اور واپسی پر، دونوں مرتبہ رونا آتا ہے۔ ہم بھی یہ باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑاتے رہے۔ بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب ہمیں نوشہرہ کو الوداع کہہ کر پنوں عاقل کے لئے روانہ ہونا تھا۔ ہم نے سامان ٹرک پر روانہ کیا اور خود اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے فیملی کے ہمراہ پنوں عاقل پہنچ گئے۔ اگست کا مہینہ تھا، رات ہو چکی تھی اور ہم تمام دن ڈرائیونگ کر نے کے بعد تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے۔ غسل کے لئے واش روم کا رخ کیا۔ ٹونٹی کھولی تو اس سے کھولتا ہوا بھاپ نما پانی برآمد ہوا۔غلطی سے پانی کی حدت کا اندازہ لگانے کے لئے ہم نے ایک ڈونگا اپنے ہاتھ پر انڈیل لیا جس کے فوراً  بعد ہماری آنکھوں سے آنسو اور حلق سے ایک فلک شگاف چیخ برآمد ہوئی ۔ اس طرح بزرگوں کی کہی ہوئی بات کا پہلا حصہ درست ثابت ہوگیا جو پنوں عاقل پہنچ کر رونے سے متعلق تھا۔

 

 

ہم نے سوچا کہ سارا دن تیز دھوپ پڑتی رہی ہے تھوڑی دیر میں گرم پانی بہہ جائے گا اور نسبتاً ٹھنڈا پانی آنا شروع ہو جائے گا جو نہانے کے لئے موزوں ہو گا۔اسی امیدمیں انتظار کرنا شروع کیا لیکن پانی کی تپش میں کمی واقع ہونا تھی نہ ہوئی۔ آدھ گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد ہم غسل کا ارادہ ترک کر نے پر مجبور ہو گئے۔ گیسٹ روم کے انچارج حوالدار کو بلا کر اسے اپنی داستانِ غم سنائی تو وہ بولا ’’سر! اچھا ہوا آپ نے مجھے بلا لیا اگر آپ پوری ٹینکی بھی خالی کردیتے تو بھی ٹونٹی سے کھولتا ہوا پانی ہی باہر آتا۔ اس کا واحدحل یہ ہے کہ نہانے سے پہلے پانی کی بالٹی میں برف ڈال کر اسے ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘

چند دن گیسٹ روم میں رہنے کے بعد ہم نے گھر الاٹ کروانے کے لئے سنجیدگی اختیار کی۔ڈ ی کیو سے رابطہ کیا تو بولے کہ پنوں عاقل میں گھروں کے بارے میں فکرمند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ واحد کینٹ ہے جہاں پر گھر وافر تعداد میں موجود ہیں ۔ چونکہ افسر کم اور گھر زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ہر نئے آنے والے افسر کو تین چار گھروں میں سے ایک کے انتخاب کا موقع دیا جاتا ہے۔ یہ سن کر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حسبِ روایت ہمیں بھی چار گھروں میں سے ایک گھر منتخب کرنے کا آپشن دیا گیا۔ ہم نے شام ہوتے ہی فیملی کے ہمراہ گھروں کی ریکی سٹارٹ کی اور چاروں گھروں میں سے جو ایک ہمیں زیادہ بہتر محسوس ہوا‘ اگلے دن اس میں شفٹ ہوگئے۔ کچھ عرصے کے بعد سننے میں آیا کہ ہر نئے افسر کو یہ چاروں گھر ضرور آفر کئے جاتے ہیں ۔مشہور تھا کہ ان گھروں میں بھوت پریت کا بسیرا ہے۔ وہاں رہتے ہوئے ہمارا سانپوں سے تو اکثر آمنا سامنا ہوجایا کرتا لیکن بھوتوں سے ملاقات کی حسرت ہی رہی۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ عرصے تک باقی تین گھر بھی آباد ہو گئے۔ اب یار لوگوں نے ان گھروں کو تو بھوتوں سے کلئیر قرار دے دیا البتہ بھوتوں کو خالی ہونے والے دیگر گھروں میں شفٹ کردیا۔

ان دنوں ہمارا برخوردار عظیم صرف تین سال کاتھا اور اپنی توتلی زبان میں پنوں عاقل کو پنوں پاگل کہا کرتاتھا جسے سن کر سب یونٹ افسر بہت محظوظ ہوتے تھے۔موسم کی سختیوں اور دوسری مشکلات کے باوجود کچھ ہی دنوں میں پنوں عاقل میں ہمارا دل لگ گیا۔بیگم نے بھی وقت گزاری کے لئے لیڈیز کلب جوائن کر لیا اورٹی ایف ڈبلیو سی میں بھی باقاعدہ حاضری دینا شروع کر دی۔ پنوں عاقل میں ڈیڑھ سال گزار کر ہم پروموٹ بھی ہوگئے۔

اب دل میں نئی پوسٹنگ کے ارمان جنم لینے لگے۔ ایک روز دوپہر کو یونہی دل لگی سوجھی اور بیٹھے بٹھائے ایم ایس برانچ میں فون کر دیا۔ خوش قسمتی سے متعلقہ افسر سے بات ہوگئی۔ ان سے اپنی پوسٹنگ کے بارے میں دریافت کیا۔ کہنے لگے کہ سکردو میں ایک پوسٹ خالی ہے، لیکن ہم وہاں آپ کو پوسٹ نہیں کر سکتے کیونکہ آپ پہلے ہی سیاچین میں کافی وقت گزارچکے ہیں۔ البتہ اگر آپ کو ایک مرتبہ پھر وہاں جانے میں دلچسپی ہے تو اپنے سی او سے ایک سرٹیفیکیٹ سائن کروا کر ہمیں فیکس کر دیں۔ ہم نے فوراً سے پہلے سی او سے سرٹیفیکیٹ سائن کروا کرایم ایس برانچ میں فیکس کر دیا اور آدھے گھنٹے کے بعد جوابی فیکس کے ذریعے ہمیں سکردو کی پوسٹنگ موصول ہو گئی۔ایم ایس برانچ سے اتنی پھرتی کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی تھی اس لئے آج تک ہم اس بات کو معجزے کے خانے میں ہی شمار کرتے ہیں۔

شام کو گھر پہنچ کر یہ خوش خبری بیگم کے گوش گزار کی تو گھر میں بجائے خوشی کے الٹا کہرا م مچ گیا۔ بیگم نے جھٹ سے ہمیں اپنی خوشیوں کا قاتل قرار دے دیا۔ ان کی دانست میں ان کے جمے جمائے آشیانے پر ایم ایس برانچ نے نہیں بلکہ ہم نے کلہاڑیاں چلائی تھیں۔ان دنوں اتفاق سے والد صاحب بھی ہمارے پاس مقیم تھے۔ انہوں نے کوئی پندرہ بیس سال قبل دوستوں کے ہمراہ اپنی ذاتی جیپ پر شمالی علاقوں کا تفریحی دورہ فرمایا تھا۔ اپنی معلومات و مشاہدات کی روشنی میں انہوں نے سکردو کو ایک انتہائی ہیبت ناک جگہ ثابت کیا اور حسب روایت ہمیں انتہائی سخت سست قرار دیا۔ہر چند کہ ہم نے لاکھ صفائیاں پیش کیں کہ سکردو ایک فیملی سٹیشن ہے اور وہاں پہنچ کراور کچھ ہو نہ ہو لیکن پنوں عاقل کی گرمی سے ضرور نجات مل جائے گی لیکن ہماری ایک نہ سنی گئی۔ غرض وہ رات بیگم نے روتے ہوئے بسر کی اور ہم رات بھر ان کے آنسو پونچھنے کا نیک کام سر انجام دیتے رہے۔
سکردو جا کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ تو ایک علیحدہ موضوع ہے البتہ اپنے تجربے کی روشنی میں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ پنوں عاقل جاتے ہوئے تو رونا لازم ہے البتہ وہاں سے واپسی پر رونا اس صورت میں آتا ہے اگر آپ کی پوسٹنگ سکردو ہو جائے۔

خوبیاں خامیاں
فوج میں قدم رنجہ فرمانے کے لئے ہر افسر کو آئی ایس ایس بی کے گیٹ سے گزرنا لازمی ہے۔آئی ایس ایس بی میں کیا کچھ دیکھا اور پرکھا جاتا ہے اس کے بارے میں تو واقفانِ حال ہی کچھ بہتر بتا سکتے ہیں۔ ہم تو صرف اتنا کہیں گے کہ اس گورکھ دھندے کی سمجھ نہ تو سیلیکٹ ہونے والوں کو آتی ہے اور نہ ہی ریجیکٹ ہونے والوں کو۔ ہر امیدوار کو آئی ایس ایس بی کے لئے دو مواقع دیئے جاتے ہیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک امیدوار جو کہ پہلی دفعہ میں ریجیکٹ ہو جاتا ہے دوسری بار سیلیکٹ ہو کر گوہر مراد حاصل کر لیتا ہے۔ ہمارے ایک کورس میٹ بھی اسی زمرے میں شامل تھے۔ وہ پہلی کوشش میں سیلیکٹ ہونے میں ناکام رہے تھے لیکن دوسری بار ان کی کوئی ادا آئی ایس ایس بی والوں کو ایسی بھائی کہ انہیں کامیابی کاپروانہ عطا کر کے سیدھا پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول روانہ کر دیا گیا۔

موصوف ایک دن موڈمیں تھے کہ موقع غنیمت جان کر ہم نے ان سے آئی ایس ایس بی کی سیلیکشن پر روشنی ڈالنے کی درخواست کی۔ یہ سن کر انہوں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی ،سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور گویا ہوئے ’’آپ تو جانتے ہیں کہ آئی ایس ایس بی میں امیدواروں کو اپنی پانچ خوبیاں اور خامیاں لکھنے کے لئے کہا جاتا ہے۔خوبیاں تو ہر کوئی بڑھا چڑھا کر بیان کر دیتا ہے لیکن خامیوں تک پہنچ کر فہم اورقلم دونوں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ پہلی مرتبہ جب ہم آئی ایس ایس بی گئے تو مذکورہ کالم میں اپنی تمام خامیاں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایس ایس بی والوں نے ہمیں ناٹ ریکمینڈ کر کے گھر کی راہ دکھا دی۔(ہم معذرت چاہتے ہیں کہ ان کی بیان کی گئی خامیوں کو احاطہ تحریر میں لانا بوجہ خوف فساد خلق ہمارے لئے ممکن نہیں۔) دوسری بار چونکہ ہم تمام کشتیاں جلا کر آئی ایس ایس بی پہنچے تھے لہٰذا غلطی کی گنجائش بالکل بھی نہیں تھی۔ چنانچہ اس بار ہم نے پانچ خامیاں کچھ اس طرح تحریر کیں۔ ’’غلط کام ہوتا دیکھ کر شدیدغصہ آ جاتا ہے، کتاب لیٹ کر پڑھتا ہوں، سائیکل تیز چلاتا ہوں، گانے اونچی آواز میں سنتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔۔ کبھی کبھار عصر کی سنتیں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ اب آپ ہی بتائیں کہ اس مومنانہ جواب کے بعد کون کافر ہوگا جو انہیں سیلیکٹ نہ کرتا۔

جاری ہے!

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply