پیپلز پارٹی کی حکومت مخالف ریلی

پیپلز پارٹی کی حکومت مخالف ریلی
طاہر یاسین طاہر
پانامہ لیکس میں پھنسی ہوئی وفاقی حکومت پر چاروں جانب سے دباو بڑھتا چلا جا رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کہ جسے فرینڈلی اپوزیشن اور بالخصوص محترمہ کی شہادت اور آصف علی زرداری کے صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بننے کے بعداسے مفاہمتی پارٹی بھی کہا جانے لگا تھا اس نے حقیقی اپوزیشن کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔پیپلز پارٹی اس وقت ایوان میں اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعت ہے،جبکہ اپوزیشن لیڈر بھی پیپلز پارٹی سے ہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کہتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے، ترقی ملک میں نہیں ہورہی صرف ٹی وی اسکرین کے اشتہاروں میں ترقی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ یاد رہے کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے خاتمے کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے لاہور سے فیصل آباد تک حکومت مخالف ریلیکا آغاز کیا۔ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کسی ملک میں ترقی اُس وقت ہوتی ہے جب ملک کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے مگر شریفوں کی حکومت میں برآمدات کم ہوگئی ہیں۔عوامی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ملک میں نہ گیس ہے اور نہ ہی بجلی، جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
انہوں نے اپنے والد آصف علی زرداری کے دور صدارت میں شروع ہونے والے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس منصوبے پر عمل کرلیا جاتا تو گیس کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔بلاول کا کہنا تھا کہ صنعتوں کو گیس کی فراہمی، لوگوں کو روزگار دینا اور ملک سے غربت ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر یہ حکومت کسان دشمن اور مزدور دشمن حکومت ہے اور ان کا مقصد غربت مٹانا نہیں بلکہ غریب مٹانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تختِ جاتی امراء کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ان کو بھگانا ہوگا ، اگر عوام ان کا ساتھ دیتے ہیں تو وہ ان حکمرانوں کو بھگادیں گے۔بلاول کا مزید کہنا تھا کہ جس ملک میں روزگار کے ذرائع محدود ہوں، نوجوان ڈگری لے کر دربدر پھرتے ہوں وہاں ترقی نہیں ہوسکتی۔
بلاول بھٹو زرداری کی یہ ریلی پنجاب میں جماعت کی تنظیم نو اور اور پارٹی کارکنان کا مورال بہتر بنانے کا حصہ ہے۔یاد رہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں کو لاہور منتقل کرنے اور پنجاب میں جیالوں کو فعال کرنے کے لیے بلاول ہاؤس لاہور کو اپنا بیس کیمپ بنانے کا اعلان کیا تھا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہمیں پی پی پی کو نئے انداز میں پیش کرنا ہوگا تاکہ موجودہ چیلنجز کا سامنا کیا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی نسبت بینظیر کے نظریئے کی موجودہ صورتحال میں زیادہ ضرورت ہے۔
یہ امر درست ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران ہے،سیاسی عدم استحکام کی سی کیفیت ہے ،مگر یہ سب آج کا نہیں نہ ہی موجودہ حکومت کا سب کیا دھرا ہے بلکہ یہ عشروں کا مسئلہ ہے جسے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی موجودہ حکومت حل نہ کر سکی۔الزامات کی سیاست اگرچہ ہمارے معاشرے کا لازمی جزو ہے۔ہمیں یہ امر بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ پی پی پی کے دور حکومت میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی جبکہ صنعتوں کو اس دور میں بھی گیس نہیں ملتی تھی نہ سی این جی اسٹیشنز پر۔بلاول بھٹو کی البتہ سیاسی سرگرمیاں اور مزاحمتی سیاسی رویہ پیپلز پارٹی کی بقا اور اس میں جان ڈالنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ لاہور سے فیصل آباد تک نکالی جانے والی حکومت مخالف ریلی اس امر کا اظہار ہے کہ بلاول چار مطالبات کو لے کر آمدہ انتخابات کے لیے اپنے ورکرز اور ووٹرز کو چارج کر رہے ہیں۔اگرچہ انھوں نے اسی سال موجودہ حکومت سے جان چھڑانے کا کہا ہے مگر وہ اپنی جماعت کی جانب سے مستقبل کا کوئی منشور نہیں دے سکے۔پیپلز پارٹی کا پرانا منشور روٹی کپڑا اور مکان،اب اس قدر کشش نہیں رکھتا۔ کیونکہ یہ ہر انسان کی ضرورت تو ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے وعدے کے مطابق یہ ضرورت پوری نہ کر سکی۔بلاول بھٹو کو چاہیے کہ وہ پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں منشور دیں کہ وہ کسانوں، نوجوانوں،بیروزگاروں کے لیے کیا کریں گے اور نوکریوں کیسے پیدا کریں گے۔وہ کس طرح تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری لائیں گے اور کیسے ٹیکنالوجی کے عالمی انقلاب سے پاکستان کو ثمر بار کریں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply