صوبہ بنانے کی لسّانی تحریک

اولیاء و صوفیاء اکرام کی سرزمین سرائیکی وسیب پاکستان کا وہ خطہ ہے جہاں کی آب و ہوا کے لہجے میں بھی نرمی ہے شام ہوتے ہی وسیب کے صحرا میں چلنے والی ہوائیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ یہ خطہ دنیا کا وہ واحد حصہ ہے جہاں صدیوں سے صرف عشقِ حقیقی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔اور جہاں عشق و مستی ہو وہاں صرف رمز ہوتا ہے.یہاں کے سادہ لوح باسی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وسیب کے انگ انگ میں سرور ہے، چاہے اس کے شہر ہوں یا شہروں سے باہر صحرا کی اڑتی ریت میں بسی کچی بستیاں.یہاں موجود پتھریلے راستوں سے لیکر کچے گھروں کی اُن بستیوں میں بسنے والوں کے دل محبت اور صرف محبت سے گندھے ہوئے ہیں۔
یہ سادہ لوح صرف دو باتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اوّل یہ کہ ان سے کسی کا برا نہ ہو اور یہ تعلیم انہیں انکے پیرو مرشد حضرت خواجہ غلام فرید رح سے ملی ہے اور دوسرا یہ کہ یہاں کے باسی پیٹ بھر کھانے کیلیے حق حلال کی محنت مزدوری پر یقین رکھتے ہیں.صحراؤں کی بستیوں والا یہ خطہ مجھے اس لیے بھی جی جان سے عزیز ہے کہ میرے پُرکھوں نے وسیب کو خیرباد کہتے وقت اپنے بزرگوں کی چند قبروں کے نشانات اس مٹی پر چھوڑ دیئے تھے۔حالیہ کچھ عرصے سے لگاتار جنوبی پنجاب میں چلنے والی چند ایک تحریکوں و تنظیموں کے بارے میں کچھ اخبارات و رسائل میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
چونکہ میں وسیب کےحوالے سے اتنا ہی فکرمند رہتا ہوں جتنا یہاں کا ایک مستقل باسی۔قارئین میری اس بات سے متفق ہوں گے کہ پاکستان میں چلائی گئی متعدد تحریکوں میں بیرونی ہاتھ واضح طور پر ملوث رہے ہیں اور ایسے کئی بیرونی ہاتھ کراچی سے لیکر گلگت تک کام کرتے آئے ہیں جن کے لیے بدقسمتی سے ہمارے ہی لوگ آلہ کار بن کر مدد کو آگے بڑھتے رہے۔میں ایک بات جانتا ہوں کہ گھر میں چاہے کتنے ہی مسائل کیوں نہ ہوں، انہیں گھر میں ہی مل بیٹھ کر حل کیا جاتا ہے اس کے لیے چوک چوراہوں پر اپنے ہی گھر کے خلاف نعرے نہیں لگائے جا سکتے۔اس میں یقیناً کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کے فی الوقت جنوبی پنجاب معاشی بدحالی کا شکار ہے۔
مگر اس بات سے بھی قارئین متفق ہوں گے کہ پاکستان اور خصوصاً پنجاب پر حکومت کرنے والے اکثر سیاستدانوں کا تعلق بھی اس ہی خطے سے رہا ہے اور جتنے سیاستدان اس خطے سے ابھرے ہیں میرا نہیں خیال کے اپر پنجاب نے پاکستان کو اتنے سیاستدان دیئے ہوں گے ۔بہرحال اس معاملے میں تو ہم جنوبی پنجاب کے عوام کے بھی ممنون ہیں کہ انہوں نے ہر موقع پر اپنے سرداروں، جاگیرداروں، نوابین سمیت لاتعداد پیروں سجادہ نشینوں کی ایک بڑی کھیپ پاکستان کے ایوانوں میں بھیج کر اسمبلی میں انگریز بہادر کی نشانی یعنی”فیوڈل لارڈز “کو برقرار رکھا ہوا ہے۔یہ ہی وہ فیوڈل لارڈز طبقہ ہے جس نے آج تک جنوبی پنجاب کو اپنے آہنی شکنجے میں مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے اور اس ہی طبقے کی سب سے بڑی خواہش جنوبی پنجاب پر ہمیشہ حکمرانی کرتے رہنا ہے۔میں یہاں یہ بات واضح کردوں کہ میں کسی بھی طرح سے صوبوں کے بننے کا مخالف نہیں ہوں ،بلکہ اس بات کا حامی ہوں کہ جہاں صوبوں کے بننے کی ضرورت نکلتی ہے وہاں عوامی رائے عامہ کا احترام کرتے ہوئے بغیر کسی لسانیت و قومیت کے انتظامی طور پر نئے صوبے تشکیل دینے میں کوئی حرج نہیں مگر میں جس چیز کا مخالف ہوں وہ ہے لسّانیت کی بنیاد پر تقسیم ہے۔
کچھ عرصہ قبل جنوبی پنجاب کے حوالے سے ایک تحریک کے بارے پتہ چلا اور پھر رسائل و جرائد میں اس بابت پڑھا بھی تو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ جنوبی پنجاب کے باسیوں کو کس خوبی سے آج کے دور میں لسانیت کی جانب موڑا جا رہا ہے۔کسی بھی تحریک کا مقصد اگر حاصلات کے حصول کی جانب ہو تو بات سمجھ بھی آتی ہے پر اگر کسی تحریک کا مقصد صرف مخالفت برائے مخالفت ہو تو وہ تیزی سے پستی کی جانب چلی جاتی ہے۔جس طرح سے سرائیکی صوبے کو لیکر ایک تحریک جنوبی پنجاب میں شروع کی گئی ہے ہم اسکا عملی تجربہ 1970 کی دہائی میں سندھ بالخصوص کراچی میں دیکھتے رہے ہیں۔کراچی جیسے مضبوط معاشی حب میں پروان چڑھنے والی صوبے کی تحریک ماضی کا قصہ بن چکی ہے جس میں مخصوص زبان کو لیکر صوبہ بنانے کی تحریک عوامی حلقوں میں بڑی تیزی سے پروان چڑھائی گئی اور وہ تحریک کچھ سال قبل تک تھوڑی بہت تو شاید زندہ تھی مگر حالیہ دنوں میں اسکا اب کوئی اتا پتہ بھی نہیں۔اس ہی طرح زبان اور قومیت کے نعروں تلے بلوچستان میں جو کچھ ہوتا رہا وہ بھی ہمارے سامنے ہی ہے مگر اس کے باوجود آج بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
آج اگر کوئی جنوبی پنجاب میں کسی مخصوص زبان کو لیکر صوبہ بنانے کی بات کرے تو یہ ایک حیران کن بات ہوگی جبکہ اس کے سامنے سندھ خصوصاً کراچی اور بلوچستان کی مثالیں بھی موجود ہوں۔
اسی طرح اگر لسّانیت کے نام پر صوبے بنانے کی تحریکوں کی حمایت کو پروان چڑھایا گیا تو پھر کئی آوازیں اٹھیں گی ۔کئی زبانیں بولے جانے والے اس خوبصورت ملک میں آپ پھر کتنے صوبے بنائیں گے۔ اس ہی طرح صوبہ بنانے کی کوئی بھی تحریک اگر لسانیت کا شکار ہوتی ہے تو یقیناً اپنے مقصد سے ہٹ جائے گی۔میں اس بات کا بھی یہاں ذکر کروں گا کہ یہ بات زور و شور سے کہی جاتی ہے کہ اپر پنجاب نے ہمیشہ جنوبی پنجاب کا استحصال کیا ہے۔
یہ بات کچھ حد تک درست بھی ہے کہ جتنا بجٹ لاہور کی سڑکوں پر لگتا ہے اس کا آدھا بھی کبھی جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں میں نہیں لگا اور یہاں تک کہ نہ ہی کبھی وہاں کےعوام کے لیے بنیادی سہولیات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت کبھی سنجیدہ دکھائی دی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر اپر پنجاب کے سیاستدانوں کے خلاف کافی حد تک بے چینی بھی پائی جاتی ہے جس کا سدِ باب کرنا موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے. مگر اس سے پہلے یہ بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ خود سرائیکی خطے کی محرومی کا تذکرہ اسکے منتخب نمائندوں نے اسمبلی میں کتنی بار کیا…؟
سرائیکی عوام نے خود کتنی بار اپنے سرائیکی نمائندوں کا احتساب کیا ؟کیا سرائیکی خطے میں تحریکیں چلانے والوں نے کبھی الیکشن کے دنوں میں ان ہی سیاستدانوں کو ذات، برادری اور قومیت کے نام پر ووٹ نہیں دیا..؟
کیا جنوبی پنجاب کے عوامی حلقوں باالشمول لسانی بنیادوں پر صوبہ بنانے والوں نے جنوبی پنجاب کے نام پر ملنے والے سرکاری بجٹ اور پیسے کا فائدہ اٹھانے والے سیاسی گھرانوں کا کبھی احتساب کیا ؟
اس خطہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میں وفاقی وزراء کی بڑی تعداد سمیت گورنر پنجاب وزیر اعلٰی پنجاب سے لیکر وزیرِاعظم پاکستان تک تمام ہی بڑے عہدوں پر رہنے والوں سے کبھی پوچھا گیا کہ انہوں نے سرائیکی وسیب اور روہی کے صحراؤں کے باسیوں کو آج تک کیا دیا..؟
میرا سوال ہے کہ آج سرائیکی وسیب کے استحصال کی بات تو زور و شور سے کی جاتی ہے کیا وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے منتخب افراد نے کسی بھی فورم پر اس حوالے سے کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھائی…سوال اہم یہ ہے کہ ان افراد نے کبھی کسی فورم پر آواز کیوں نہیں اٹھائی.؟
لسّانیت کے نام پر در پردہ اپنے ہی مقاصد کے لیے کوشش کرنے والوں نے کیا کبھی جنوبی پنجاب سے منتخب وزراء اور مشیروں کی فوجِ ظفرموج کے لاتعداد بیرونی ممالک کے مفت دورے، سفر، لاتعداد سہولیات اور عیاشیوں کا کبھی حساب کتاب کیا ..؟جنوبی پنجاب کے استحصال کی بات کرنے والوں نے کیا کبھی سرائیکی وسیب میں انصاف کو سستا ارزاں غیرجانبدار اور فوری طور پر مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ سرائیکی عوام کی خاطر اقربا پروری رشوت سفارش کرپشن کے خاتمے سمیت بےایمانی لوٹ مار چوربازاری اور آبروریزی کرنے والوں کے خلاف کبھی کسی محاظ پر کوئی عملی کام کیا..؟ہماری ایک اجتماعی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمیں آج تک ووٹ دینے کا شعور نہیں آیا اس ہی طرح جنوبی پنجاب کی عوام نے بھی ہمیشہ شخصیات کو ووٹ دیا ہے اور شخصیات کے اپنے ایجنڈا ہوا کرتے ہیں وہ اس پر ہی عمل پیرا رہتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں لسانیت کی بنیاد ڈالنے والوں سے گزارش ہے کہ پاکستان میں ہر سو ڈیڑھ سو کلومیٹر کے بعد زبان لہجہ بدل جاتا ہے. تو کیا پھر ہر سو کلو میٹر بعد ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے.؟جنوبی پنجاب کے باسی سادہ لوح ضرور ہیں مگر وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ صوبہ بنانے کی آڑ میں انہیں لسانیت کا پاٹ پڑھانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے جسے وہ رد کر چکے ہیں.وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ لسانی تقسیم نہ پہلے کسی معاملے کا حل رہی ہے اور نہ ہی آج کسی معاملے کا حل ہے۔ اگر جنوبی پنجاب کےعوام صوبہ بنانے کے حق میں ہیں تو یہ کام ان کے ہی منتخب کردہ عوامی نمائندوں کا ہے جنہیں وہ اپنا قیمتی ووٹ دیکر ایوانوں میں بھیجتے ہیں نہ کہ کسی ایسی تنظیم یا تحریک کا جس کا کوئی نمائندہ ایوانوں میں تو کیا بلکہ مقامی سطح کی لوکل گورنمنٹ کا بھی حصہ نہ ہو۔
لسّانیت کے نام پر عوام کے بیچ صرف نفرتیں ہی پروان چڑھ سکتی ہیں اور یہ نفرتیں آگے بڑھ کر قوموں کے لیے اجتماعی خودکشی کا سبب بن جاتی ہیں۔

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply