وکیل بابو۔۔رعایت اللہ فاروقی

شاہراہ فیس بک پر وکیل بابو سے ہمارا تعارف 2014ء میں تب ہی ہوگیا تھا جب فیس بک پر نئے نئے سرگرم ہوئے تھے۔ ہم نے فیس بک پر اپنی باقاعدہ سرگرمی کا آغاز ان نابالغ مولویوں کی ٹکور سے کیا تھا جنہیں لگتا ہے کہ محض وفاق کی سند سے ہی بندہ “انبیاء کا وارث” بن جاتا ہے۔ سو ایک وکیل بابو ہی کیا ہزاروں “فساق و فجار” ہمارے حلقہ احباب میں شامل ہوتے گئے۔ جن میں کچھ نامی گرامی بھی تھے۔ تین برس تک تو ہم ٹکور پر ہی فوکسڈ رہے۔ اور جب دیکھا کہ ٹکور سے ہم نابالغانِ امت کو ادھ موا کرچکے اور ان کی “فیس بک کلوزڈ گروپ” والی تمام اجتماعی سکیمیں فیل ہونے کے بعد اب نوبت “ربی انی مغلوب فانتصر” کے ورد پر آچکی۔ تو سمجھ گئے کہ وہ مرحلہ آچکا کہ اب خبط عظمت کے مریض کی زیتون کے تیل سے مالش کی جائے اور شہد کی خوراک شروع کرائی جائے۔یہ دیکھ کر ہمارے چاہنے والوں میں سے وہ تو پتلی گلی سے نکل لئے جو یہ سوچ کر ہم سے جڑے تھے کہ ہم کوئی حسن نثار ٹائپ مولوی دشمن مخلوق ہیں۔ ویسے بھی اب ہم نے کھل کر کہنا شروع کردیا تھا کہ ہم پہلے مولوی بعد میں اور کچھ ہیں۔

یوں جب ہمارے گرد موجود یہ “گرد” چھٹ چکی تو پیچھے جو اصیل رہ گئے ان میں وکیل بابو سر فہرست تھے۔ ہمیں یہ اس قدر عزیز رہیں  کہ ہم نے ان کا ایک خاکہ بھی لکھ ڈالا تھا۔ اور اس کے باوجود لکھا تھا کہ جانتے یہ انصافیے اور یوتھیے کی سرحد پر مقیم ہیں۔ موقع کی مناسبت سے کبھی یوتھیا تو کبھی انصافیا بن جاتے ہیں۔ مگر اس سے ہمارا کیا لینا دینا تھا؟ کوئی ہمیں بھا جائے تو ہم تو اس کا غیر مسلم ہونا بھی نظر انداز کر دیتے ہیں تو سیاسی وابستگی کیا چیز ہے ؟۔ مگر صاحبو ! تلملانا توہم نے تب شروع کیا جب ہمیں وکیلوں سے متعلق اکبر الہ آبادی کا مشہور زمانہ شعر صحیح معنی میں سمجھ آنا شروع ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ ہماری وال پر تو یوتھیا پر بھی نہیں مار سکتا تھا۔ سو پی ٹی آئی کے خلاف ہماری کوئی بہت زہریلی پوسٹ آتی تو وکیل بابو اسے “مکالمہ” کی زینت بنا کر اپنی وال پر کچھ اس طرح کے کیپشن کے ساتھ ڈال دیتے
“مخالف کی رائے بھی سننی چاہیے۔ استاذی رعایت اللہ فاروقی کی تحریر حاضر ہے۔ اور دیکھو کمنٹس میں انسان کے بچے بن کر رہنا وہ میرے استاد ہیں”۔

یہ کہہ کر وکیل بابو چوبیس گھنٹے کے لئے فیس بک سےکھسک جاتے اور پیچھے ہمیں چوبیس ہزار گالیاں پڑ جاتیں۔ اگلے دن آکر یہ سب کو ڈانٹ دیتے اور چار دن بعد “واردات” دہرا دیتے۔ تنگ آکر ہم نے بلاک والا ہتھوڑا اٹھایا اور ان کے سر میں دے مارا۔ مگر ان کا ایک احسان کبھی نہیں بھولے۔ عامر خاکوانی کی وال پر ہر دوسرے تیسرے دن ایک خود ساختہ دانشور لمبا سا کمنٹ داغ کر اپنی طرف سے گویا علم و عرفان کا دریا بہا کر چلتے بنتے۔ اور عامر لحاظ کرکے برداشت کر جاتے۔ ایک دن اپنے ایسے ہی لمبے چوڑے کمنٹ میں انہوں نے یہ بھی فرما دیا
“سوشل میڈیا پر مذہب کو زیر بحث لانا مکالمے کے عالمگیر مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے”
ہم نے جوابی کمنٹ میں پوچھا
“یہ اصول کون بناتا ہے ؟ اس کا اجلاس کب اور کہاں ہوتا ہے ؟ اور اس کے اعلامیے کی کاپی کہاں سے مل سکتی ہے ؟”
وہاں تو ہمیں جواب کے ہی لائق نہ سمجھا مگر جلد ہی وہ رات آئی جب شاید کسی نے انہیں ولایتی کے بجائے دیسی ٹھرا پیش کردیا۔ نتیجہ اس کا وکیل بابو کی پوسٹ پر کمنٹ کی صورت ظاہر ہوا۔ وکیل بابو نے اپنی ایک پوسٹ میں ہم سے محبت کا اظہار فرما رکھا تھا۔ جو ان پر قیامت بن کر ٹوٹا۔ سو موصوف اس پوسٹ پر آئے اور ہمارا نام لے کر اپنا باطن ظاہر کر گئے۔ جو عین ان کے “ظاہر “جیسا ہی تھا۔ کسی نے ہمیں اس کا سکرین شاٹ بھیج دیا۔ ہم وہاں گئےتو کیا دیکھتے ہیں کہ وکیل بابو جوابی کمنٹ کی صورت صرف ایک سطر میں ہی موصوف کا کل سرمایہ حیات بتی بنا کر ان کے ہاتھ پر رکھ چکے۔ ہمارا ماننا ہے کہ بدترین سے بدترین چیز کا بھی کوئی مثبت پہلو ضرور ہوتا ہے۔ سو شراب کی بھی یہ خوبی ماننی پڑے گی کہ انسان کے باطن کو ظاہر کر دیتی ہے۔ اور اس رات یہی ہوا تھا۔

انبیاء کے سوا ہر انسان خوبیوں اور خامیوں دونوں کا مجموعہ ہے۔ دیکھنا بس یہ ہوتا ہے کہ غلبہ خوبیوں کا ہے یا خامیوں کا ؟ اور یہی تعلق قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا معیار ہے۔ ہمارے حساب سے وکیل بابوبہت سی نمایاں خوبیوں کے مالک ہیں۔ ان میں سے نمایاں تر یہ ہے کہ جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر ہوتا ہے۔ مگر اسی کا ایک سائڈ ایفیکٹ یہ رکھتے ہیں کہ بسا اوقات فیصلہ پہلے دیتے ہیں، تحقیق بعد میں کرتے ہیں۔ گویا جج ہوتے تو پاناما بینچ کے لئے موزوں تر ہوتے۔ ایک اور خوبی یہ ہے کہ متحرک لوگوں میں سے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے والوں میں سے نہیں۔ مگر اس کا بھی ایک سائڈ ایفیکٹ یہ رکھتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں کئی کٹے کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور پھر ماتم کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایک تیسری خوبی یہ ہے کہ یاروں کے یار ہیں۔ مگر یہاں بھی سائڈ ایفیکٹ یہ رکھتے ہیں کہ دوست سے فرمائش کرتے وقت اسے یہ آپشن بالکل نہیں دیتے کہ اگر وہ فرمائش پوری کرنے کی تاب نہ رکھتا ہو تو نہ کرے، تعلق متاثر نہ ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ ان کی بیشتر خوبیاں کوئی سائڈ ایفیکٹ کیوں رکھتی ہیں ؟ ہماری نظر میں اس کی وجہ فقط ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ ماں کے لاڈلے رہے ہیں۔ مائیں اپنے لاڈلوں کو سر چڑھانے کی جو عادت ڈال دیتی ہیں وہ پھر جاتی نہیں۔ چونکہ ماں نے ہر فرمائش پوری کی ہوتی ہے لہذا یہ “نہ ” سننے کے عادی ہی نہیں ہوتے۔ چونکہ ماں نے بعض شرارتوں پر تھپڑ رسید نہیں کیا ہوتا۔ سویہی شرارتی بچہ آگے چل کر عملی زندگی میں متحرک شخص کے طور پر سامنے آتا ہے تو یہاں کئی کٹے کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ چونکہ ماں نے بے تکی بات پر گھورا نہیں ہوتا تو ایسا بچہ بڑا ہوکر فیصلہ پہلے کرتا ہے اور سوچتا بعد میں ہے۔ اس ظالم کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ ہر شخص اس کی ماں نہیں۔

ماں تو اس حد تک ماں ہوتی ہے کہ بس ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ تو محاوروں تک میں “ایک” ہی ہے۔ ہم یہ تو سنتے ہیں کہ تم نے فلاں کو باپ بنا رکھا ہے۔ کبھی سنا کہ تم نے تو فلاں کو ماں بنا رکھا ہے ؟ نہیں ! ماں بس ایک ہی ہے۔ کوئی اس کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ یہ سوتیلی ماں اکثر چڑیل کی خالہ کیوں نکلتی ہے ؟ کیوں جسے ماں کہتے ہیں وہ بس ایک ہی ہستی ہے ۔ یعنی ماں اپنے خالص پن میں بس وہی ایک ہستی ہے جس نے آپ کو 9 ماہ شکم میں سنبھالا۔ جنت ایسے ہی اس کے قدموں تلے تو نہیں رکھ دی گئی۔ اس کی ہمسری ممکن ہوتی تو جنت کا کوئی 120 گز بھر کا پلاٹ سوتیلی کے بھی قدموں تلے نہ رکھ دیا جاتا ؟

اب ایسا بھی نہیں کہ وکیل بابوکی ہر خوبی کوئی سائڈ ایفیکٹ لازماً رکھتی ہے۔ مثلا ًان کی یہی خوبی دیکھ لیجیے  کہ یہ ناراض دوست کو منانے میں پہل کرتے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں، بہت ہی غیر معمولی خوبی ہے۔ یہ صرف انہی میں پائی جاتی ہے جن میں انا نہ ہو۔ جن کی گردن میں سریا نہ ہو۔ جو ہم چوں ما دیگرے نیست کا داغ نہ رکھتا ہو۔ اس معاملے میں وکیل بابو بہت دھیمے قدموں کی حکمت عملی رکھتے ہیں۔ ایک دم مسلط ہوکر یہ خطرہ مول نہیں لیتے کہ یارمنانے کی کوشش میں یار سرپرائز سے بدک کر گریبان پر ہی ہاتھ ڈال دے۔ یہ پہلے سر بازار اس سے دور سے نظر چار کرتے ہیں، اور چہرے کو ناخوشگوار اثرات سے پاک رکھتے ہیں۔ یعنی سگنلنگ کرتے ہیں کہ “بندہ خیریت ہے”۔ اگلی بار سامنا ہونے پر خفیف سی مسکراہٹ بھی شامل کر دیتے ہیں، جس کا مطلب ہوتا ہے “آپ کی خیریت بھی خداوند قدوس سے نیک مطلوبہ ہے” اس سے اگلی بار قریب سے گزر کر زبانی سلام داغ ڈالتے ہیں۔ چوتھے مرحلے میں ہاتھ ملا کر یہ کہہ کر کھسک لیتے ہیں “ایک اہم کیس لگا ہے جلد عدالت پہنچنا ہے”۔ اور پانچواں مرحلہ ان کا جپھی کا ہوتا ہے۔

آٹھ برس کے کھٹے میٹھے غائبانہ تعلق میں پچھلی سے پچھلی اتوار ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ اور ہماری خوش قسمتی کہ وکیل بابو نے ہماری بیٹھک کو رونق بخشی۔ ایک لمحے کو بھی نہیں لگا کہ یہ پہلی ملاقات ہے۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ یہ بیٹھتے ہی صوفے پر نیم دراز ہوگئے۔ جانوروں میں انسان سے محبت کے معاملے میں بلی کا کوئی ہمسر نہیں۔ بلی کے اظہار محبت کے پانچ مراحل ہیں۔ اور ان میں سے آخری مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کے سامنے ٹانگیں پھیلا کر پیٹھ کے بل لیٹ جاتی ہے۔ گویا انسانوں سے بے بدل محبت رکھنے والی معصوم بلی کے ہاں جو اظہار محبت کا آخری مرحلہ تھا وہ وکیل بابو کے ہاں پہلا تھا۔ اسی نیم دراز حالت میں انہوں نے سیگریٹ کا پیکٹ پہلے نکالا اور رسمی اجازت   بعد میں مانگی کہ سیگریٹ نوشی کی جاسکتی ہے ؟ اب ہم انکار کرتے تو انہوں نے اگلی مکالمہ کانفرنس میں بھی اصل موضوع کی بجائے ہمیں ہی موضوع بنوا کر ہر مقرر کے کان میں کہنا تھا
“پلیز کلاس اس کی ٹھیک ٹھاک لیجیے گا”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ممبئی والے “سخی” سلمان خان کے بعد دوسرے آدمی ہیں جو “نہ “اپنی بھی نہیں سنتے۔سو ہم نے بھی کسی اگلی مکالمہ کانفرنس کا ٹارگٹ نہ بننا یقینی بنانے کے لئے آخری حد تک جانے کا فیصلہ کیا
“سگریٹ کیا، تم یہاں چرس بھی پی سکتے ہو”
یہ جو تصاویر میں آپ جاوید ملک، مہدی بخاری اور شفیق بھائی جیسے معتبر حضرات دیکھ رہے ہیں یہ موقع کے گواہ ہیں کہ وکیل باؤ نے چرس قطعا ًنہیں پی !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply