• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • روس امریکہ کشیدگی کے تناظر میں۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

روس امریکہ کشیدگی کے تناظر میں۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ماں اور محبوبہ کے نقائص سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی انسان نہ فقط یہ کہ صرف نظر سے کام لیتا ہے بلکہ کسی اور کے سامنے ان نقائص کا ذکر تک کرنے کو گناہ تصور کرتا ہے۔ حب الوطنی بھی ماں یا محبوبہ سے محبت کرنے جیسی ہوتی ہے۔ وطن وہ ملک ہی نہیں ہوتا جہاں کسی نے جنم لیا ہو بلکہ جس ملک میں شہریت اختیار کر لی جائے وہ بھی وطن کہلاتا ہے۔ خاص طور پر جب آپ کو قانونی طور پر اس ملک کی شہریت تج دینی پڑے جس میں آپ پیدا ہوئے تھے تو پھر آپ کا ملک اور وطن ایک ہو جاتے ہیں۔
سب کی طرح مجھ پر بھی حب الوطنی تب غالب آ جاتی ہے جب اس کے بارے میں اغیار استفسار کرتے ہیں چنانچہ روس سے متعلق بی بی سی کے پروگرام سیربین میں اپنی رائے دیتے ہوئے مجھے روس کی حکومت کا ہی نکتہ نظر دینا ہوتا ہے کیونکہ سوالوں کی نوعیت ایسے جواب کی متقاضی ہوتی ہے۔ جو بات فسانے میں ہو ہی نا اس کا ذکر کرکے عشاق کو ناگواری کا احساس دلانے کی کوئی تک نہیں بنتی۔
میں نے Russophillics کو عشاق کہا ہے۔ ہمارے ملک میں کئی لوگوں کو سوویت یونین دوستی کے ناستلجیا کے تحت اور دوسرے کئی لوگوں کو امریکہ دشمنی کے سبب روس سے محبت ہے یعنی روس ان کی محبوبہ ایسا ہے جس کی پھٹی اوڑھنی بھی انہیں لہراتا ہوا رنگین آنچل لگتی ہے، مگر مجھے اپنی ماں کا میلا اور دھجیاں لگا ملبوس پسند نہیں۔
روس سے متعلق سوشل میڈیا پر میری پوسٹس پر رائے دینے والے Russophillics میں سے بیشتر نے تو روس دیکھا ہی نہیں اور جنہوں نے دیکھا تو نجانے کب دیکھا۔ روس کو حالیہ ترین تاریخ کے حوالے سے آج دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی 2014 سے پہلے اور 2014 کے بعد۔ 2014 کو کیا ہوا تھا، جو نہیں جانتے ہو بھی جان لیں کی یوکرین میں شامل کریمیا کو روس کے ساتھ ملحق کیا گیا تھا اور ایسا کرنے کو روس کے مخالف ملک کریمیا پر غاصبانہ قبضہ کرنے کا نام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ملکوں نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور اب تک عائد کیے چلے جا رہے ہیں۔
کریمیا کا انفراسٹرکچر یوکرین کے ساتھ منسلک تھا۔ کریمیا روس سے کٹا ہوا ہے۔ بیچ میں سمندر کی ایک کھاڑی حائل ہے۔ انفراسٹرکچر کو ترقی دیے جانے، کریمیا کو سمندر پر پل بنا کر روس سے جوڑنے، وہاں کی آبادی کو ملک کے دیگر لوگوں کی نسبت بہتر معاشی سہولتیں فراہم کرنے اور کریمیا کی اغیار سے حفاظت کرنے پر بہت زیادہ اخراجات اٹھ رہے ہیں۔
اقتصادی پابندیوں سے جو ایک طرح سے عالمی نوعیت کی ہیں، روس کی معیشت کا متاثر نہ ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ سماجی اخراجات میں کمی کی گئی۔ کئی شعبے اور ادارے بند کیے گئے۔ بہت زیادہ چھانٹیاں کی گئیں۔ افراط زر بڑھا، بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور اشیائے صرف مہنگی ہوئیں۔ ان منفی عوامل سے نوجوان اور پنشن یافتہ افراد زیادہ متاثر ہوئے۔
روس کی معیشت کا انحصار خام مال کی فروخت پر ہے جیسے تیل، گیس، کوئلہ، لوہا اور دیگر معدنیات وغیرہ۔ روس کی صنعت سوویت یونین کے انہدام کے بعد ویسے ہی بیٹھ گئی تھی۔ جو باقی رہی اس کو جدید کیے جانے کی ضرورت رہی اور اب تک ہے۔
2000 سے 2014 تک جب معاملات درست تھے، روس کی معیشت بہتر ہوئی تھی۔ بیروزگاری کم ہوئی تھی۔ تنخواہوں میں اضافہ ہوا تھا اور افراط زر کم ہوا تھا۔ روبل ڈالر کی شرح ایک ڈالر کے مقابلے میں 28 تا 30 روبل ہو گئی تھی۔ مثال کے طور پر مجھے ریڈیو پریزنٹر اور مترجم کے طور پر اگر ایک لاکھ روبل کے قریب ملتے تھے تو وہ تین ہزار ڈالر سے کچھ زیادہ کے مساوی تھے۔
کریمیا کو ضم کیے جانے کے تین ماہ بعد ہی روبل ڈالر کی شرح ایک ڈالر کے مقابلے میں 65 تا 67 روبل تک پہنچ چکی تھی۔ پچھلے دنوں 58 پر مستحکم تھی اور حالیہ کشیدگی میں 64 سے کچھ اوپر جا چکی ہے۔ 2016 کے ماہ مارچ سے کچھ اور زبانوں کے ساتھ ریڈیو کا شعبہ اردو بھی ٹھپ دیا گیا تھا۔
2000 سے پہلے پنشن یافتہ بوڑھی عورتیں میٹرو سٹیشنوں کے باہر ایک کدو، آدھا پیٹھا، لہسن کی چند گٹھیاں اور ہرا دھنیا فروخت کرتے ہوئے ملتی تھیں مگر 2000 سے ان کا دکھائی دینا بند ہو چکا تھا گویا ان کا پنشن سے گذارا ہونے لگا تھا مگر دو سال سے پھر وہی مناظر دکھائی دینے عام ہو چکے ہیں بلکہ اب تو مختلف حیلوں حربوں سے خوش پوش نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ جو عزت نفس والے جوان لڑکے لڑکیاں ہیں اور جن کی کسی فن پر دسترس بھی تھی وہ میٹرو سٹیشنوں کی راہداریوں میں گا بجا کر کماتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور تو اور اب میٹرو اتھارٹیز نے راہداریوں میں مخصوص مقام متعین کرکے ان سے اس جگہ کا وقت کی مناسبت سے کرایہ وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔
روس کی معیشت اچھی نہیں رہی۔ کریمیا پر اٹھتے اخراجات اور امریکہ و یورپ کی عائد کردہ پابندیوں نے خاصے اقتصادی معاشی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بڑی طاقت ہونے کا تصور بہتر معیشت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر اس طرح کی دو طاقتیں ہیں ریاستہائے متحدہ امریکہ اور عوامی جمہوریہ چین۔
روس اگر آج امریکہ کے سامنے کھڑا ہے تو اپنے جوہری ہتھیاروں کے بل بوتے پر۔ یوں کہیے کہ پاکستان کی مانند جوہری ہتھیاروں پر اینڈ رہا ہے۔
کریمیا سے روس کی بحریہ کو بحیرہ اسود کے توسط سے بحیرہ روم اور پھر عالمی سمندروں تک رسائی ملتی ہے۔ ملک شام میں طرطوت کی بندرگاہ وہ واحد مقام ہے جہاں روس کے بحری جہازوں کا عملہ استراحت کر سکتا ہے اور جہاں اس کے بحری جہازوں کی مرمت کی جا سکتی ہے۔ بحیرہ روم کے ساحلوں پر اور کہیں روس کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ باقی دنیا میں تو خیر کہیں ہے ہی نہیں۔ کھلے سمندر میں خراب ہونے والے بحری جہازوں کو طرطوت تک پہنچانا کم وقت طلب، کم قیمت اور سہل ہے جبکہ ایسے جہازوں کو کریمیا میں سیوستوپل تک پہنچانا دیر طلب، مہنگا اور مشکل ہے۔
کریمیا میں قدم جمائے رکھنا روس کی مجبوری تھی کیونکہ یہ ایک عرصے سے روس کی بحریہ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ بحیرہ اسود سے ہی روس کے تجارتی اور بحری جہاز کھلے سمندروں تک پہنچتے ہیں چنانچہ روس کو تمام تر معاشی دشواریوں اور امریکہ کی دشمنی کے باوجود کریمیا کو اپنے ساتھ ملانا پڑا۔
اسی طرح شام کی بندرگاہ طرطوت کو قابو میں رکھنا بھی مجبوری ہے۔ بشارالاسد کے بعد جو بھی آئے گا وہ موجودہ یوکرینی حکومت کی مانند روس کو طرطوت میں میسّر سہولتوں سے محروم کر دے گا۔
کریمیا روس کی “مین لینڈ” کے نزدیک ہے، وہاں کمک پہنچانا اور حملہ آور سے نمٹنا قدرے آسان ہے مگر شام ایک بالکل دوسری جگہ ہے۔ روس نے داعش اور دیگر دہشت گردوں سے نمٹنے کی بنیاد پر بظاہر بشارالاسد، جسے روس ملک کا قانونی اور آئینی سربراہ کہتا ہے، کی درخواست پر اپنی فوج وہاں بھیجی تھی۔
شام کے چاروں طرف امریکہ کے حامی ملک ہیں۔ جس طرح عراق میں کثیر الہلاکت ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر امریکہ نے حملہ کیا تھا اور صدام کی حکومت تمام کر دی تھی، اسی طرح زہریلی گیس کے استعمال، جسے سلامتی کونسل میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلی بار بار کثیر الہلاکت ہتھیاروں کا استعمال ہی کہتی رہیں، کے الزام کی آڑ میں بشار کی حکومت کو خاک میں ملا دینا امریکہ کے لیے بالکل مشکل نہ ہوتا اگر وہاں روس کی فوج اور ایران کے پاسدار نہ ہوتے۔ ایران کے پاسدار تو امریکہ کے لیے ویسے ہی جنگ کے ایندھن کے مترادف ہیں مگر روس سے براہ راست لڑائی مول لینا بہت بڑے قضیے کو جنم دینے کے موجب بن سکتا ہے۔
جس وقت یہ مضمون لکھا گیا تب تک دھمکیوں کی لڑائی لڑی جا رہی ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سانڈرز سے جب کسی صحافی نے روس کے فوجیوں سے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ ان یعنی روسی فوجیوں کے خلاف بھی ہر طرح کا بشمول عسکری اقدام کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ییلینا زہارووا نے کہا ہے کہ امریکہ کے میزائلوں کا رخ شام میں موجود دہشت گردوں کی جانب ہونا چاہیے نہ کہ شام کی قانونی حکومت کی جانب، ساتھ ہی روس کا دعوٰی ہے کہ اس نے شام سے دہشت گردوں کا تقریبا” خاتمہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب جب روس کے فوجی مشیروں کی اعانت سے شام کے فوجی غوطہ کو دہشت گردوں سے آزاد کرواتے ہیں تو دہشت گرد جنگجو افراد کو وہاں سے بمعہ اہل و عیال نکل جانے کا “محفوظ راستہ” بھی فراہم کرتے ہیں۔ یوں معاملات خاصے پیچیدہ اور گمبھیر ہیں جن کے بارے میں قیاس آرائی کی بجائے انتظار کرو اور دیکھو کا انداز اپناتے ہوئے نیک خواہش بھی کی جانی چاہیے کہ ہاتھیوں کی لڑائی نہ ہو اور گھاس کی خیر رہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply