گورو نانک دیو ایک کردار ایک تاریخ۔سائرہ ممتاز/آخری حصہ

برصغیر کی تقسیم کے پس منظر میں لاکھوں ایسی داستانیں رقم ہیں جن پر اس وقت سے لکھا جاتا رہا ہے  اور ہر دور میں لکھا جاتا رہے گا کیونکہ یہ تقسیم تاریخ کا ایک لازوال باب ہے جس نے صرف دو قومیں ہی تقسیم نہیں کیں بلکہ اس تقسیم کی جڑوں میں ایسے کروڑوں لوگوں کا خون شامل ہے جو نظریات کے اشجار کی آبیاری کرتا رہے گا اور اشہب خیال جب جب تاریخ کے ورق پر بے لگام دوڑے گا تو اس کے سموں سے چنگاریوں کی جگہ دبی ہوئی راکھ نکلتی رہے گی. تقسیم ہندوستان کا سب سے زیادہ اثر پنجاب پر پڑا  کیونکہ پنجاب واحد ایسی دھرتی تھی جس کی تقسیم سے ایک ایسی قوم کا قبلہ و کعبہ منقسم ہوا جس نے برصغیر کی ہزاروں برس پر محیط تاریخ میں سب سے آخر میں جنم لیا. ہندو اور مسلم یوں تو پورے ہندوستان میں ہر جگہ ساتھ ساتھ رہتے تھے لیکن تیسری قوم سکھ کا ماخذ اور قبلہ پنجاب کی دھرتی ہی تھی اس تناظر میں تقسیم پنجاب کا سب سے برا اثر بھی اسی قوم پر پڑا  جہاں شمالی اور جنوبی ہندوستان کے لوگ ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوئے وہیں مشرقی حصے کے دو ٹکڑے ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ نا چاہتے ہوئے منقسم ہو چکے مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب جانے پر مجبور ہوگئے یوں کہ ان کی عبادت اور عشق کا محور و مرکز لاہور اور ننکانہ صاحب ان سے دور ہو گیا۔

اس دوران نو تقسیم شدہ ممالک میں جذبہ ء رقابت بھی نیا تھا اور سیاسی کشمکش بھی عروج پر رہی تو لاکھوں لوگ اپنے اپنے آبائی علاقوں سے واپس آنے کی آس لے کر بچھڑ گئے  اور ایسے بچھڑے کہ آنکھیں گریہ ایوبی کی مثال بن گئیں اور حسرتیں صبر اویس سے اجازت مانگتی رہیں. یادیں ہوں یا قبریں دونوں یادگاروں کو، اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جانا اتنا آسان کام نہیں ہے اس لیے ہجرت کا مقام بلند ہے اور اسی لیے مہاجرین کا رتبہ بڑا ہے. پڑوسی ملک سے ہمارے تعلقات میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے لیکن بارڈر پر خاردار تاروں کی موجودگی میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی چڑھتے پنجاب سے چھلانگ لگا کر اتر پنجاب کی طرف آ کر اپنے پیاروں کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر سکتا۔ایسا ہی پس منظر ناصر ڈھلوں صاحب کو یہ تحریک دیتا ہے کہ وہ بچھڑے ہوؤں کو ملانے کا فریضہ انجام دے کر تاریخ کے گہرے دھندلکے میں اپنا نام روشن حروف میں لکھوا سکیں. ناصر صاحب کو ہمیشہ شوق رہا کہ تقسیم سے پہلے کے حالات بزرگوں کی زبانی سنے جائیں کہ آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتیں بہرحال کاغذ کے پلندوں پر لکھے لفظوں سے الگ اور جدا ہوتی ہیں.

 

 

 

 

 

 

پاکستان میں سوشل ورک اور فلاحی کام کرنے والوں کی ہرگز کمی نہیں. جہاں غربت بھوک افلاس، بیماریاں اور جہالت حد درجے بڑھ چکی ہے وہیں ایسے شاہ دل بھی پیدا ہو چکے ہیں جو فقیری میں شاہی کرنے کا ہنر جانتے ہیں جن کے لیے اپنی بھوک پیاس دوسروں کے پیٹ سے بڑھ کر نہیں ہے. اسی طرح مختلف تناظر میں جس طرح تشدد، دہشت گردی، نقص امن کو فروغ دیا گیا اسی شدت سے امن پسند اور اتحاد و یگانگت پر یقین رکھنے والے پیدا ہوتے رہے۔

ایسے ہی ایک اور جذبہ ء ایثار و محبت رکھنے والے انسانیت پرست محترم ناصر ڈھلوں صاحب کا تعارف اور خدمات کسی طرح بھی پس پشت نہیں ڈالی جا سکتیں. موبائل اٹھا کر پنجاب کی کھنڈر ہوتی دیواروں، دالانوں اور حویلیوں سے ان مٹ نقوش کھوجنے سے شروع ہونے والا سفر اب پنجابی لہر کی شکل اختیار کر چکا ہے. ناصر ڈھلوں بزرگوں سے تقسیم کے وقت کے واقعات سنتے سنتے اب تقسیم شدہ لوگوں کو ملانے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں.

ایک جٹ جو زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اپنی ملازمت اور زمینداری کے علاوہ بزنس کرنے کا منصوبہ صرف اس لیے بناتا ہے کہ اس سے حاصل  شدہ منافع وہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ افراد کی تعلیم و تربیت اور صحت کی  سہولیات پر خرچ کر سکے. اس کے علاوہ اسی بزنس سے حاصل  شدہ دس فیصد حصہ  اس کام کے لیے مختص کر رکھا ہے کہ دور دیس کے بسنے والوں  کو  ان کے پرکھوں کے آبائی وطن کے درشن ہو سکیں . ناصر ڈھلوں پنجاب کے گاؤں گاؤں جا کر تقریباً ڈیڑھ سو پرانی عمارتوں کی فوٹو گرافی کر چکے ہیں. ایک سو پچیس بزرگوں کے انٹرویو ریکارڈ کر چکے ہیں اور نا صرف یہ بلکہ محدود پیمانے پر کام  کرنے کے باوجود وہ انڈیا سے قریب المرگ ایسے ضعیف بزرگوں کے لیے اسپانسر بھی اکٹھے کر چکے ہیں جو ہمہ وقت مینوں لاہور لے چلو، لاہور لے چلو کا آوازہ بلند کرتے رہتے ہیں اور جن کی آخری خواہش ہے کہ وہ مرنے سے پہلے بابا گورو نانک کی جنم بھومی پر ماتھا رکھ سکیں. انھیں حکومتی امداد کا  انتظار ہے نہ  توقع. اپنی مدد آپ پر یقین رکھتے ہیں.

چیف ایڈیٹر مکالمہ بابا گورو نانک کے جنم  دن کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہند میں مذہب کو جذب کر لینے کی صلاحیت ہمیشہ موجود رہی۔ مذہب کو بجائے وجہ نزاع و اختلاف بنانے کے، نکتہ  اتفاق  بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ بابا گرو نانک جی کی تحریک بھی اسی کوشش کا حصہ تھا جہاں اسلام اور سناتن دھرم کے اچھے نکات اور صوفی روایات کو ملا کر ایک ایسا فلسفہ پروان چڑھایا گیا جو محبت کا فروغ کرے اور اتفاق پیدا کرے۔ میری دانست میں سخت گیر مغل حکومت کے مقابلے میں یہ عوام کی سطح پر ایک ایسا اتفاق پیدا کرنے کی کوشش تھی جو ان کو مذہب کے نام پر تقسیم ہو کر کمزور ہونے کے بجائے مذاہب کی اچھی باتیں لے کر اتفاق اور اتحاد کی طرف لائے۔ بابا جی کی تحریک نے توحید کے نکتہ پر عوام کو اکٹھا کر کے اچھائیوں کے فروغ پر زور دیا۔ برصغیر میں یہی کوشش مسلم صوفیا کی بھی رہی جن کی درگاہوں کے دروازے ہمیشہ ہر مذہب کے ماننے والے کے لیے کھلے تھے اور آج بھی کھلے ہیں۔ مغل سلطنت کے ظلم نے رفتہ رفتہ محبت کے فروغ کی اس تحریک کو ایک مسلح جدوجہد اور باقاعدہ مذہب کی شکل دے دی۔ مگر بابا گرونانک جی کا پیغام اپنی اصل میں آج بھی بہت اہم اور قابل تقلید ہے.


حافظ محمد شارق (تقابل ادیان میں ایم فل اور اس موضوع پر کئی  کتابوں کے مصنف) کی رائے ہے کہ
“بابا گورو نانک نا صرف سکھ مت کے بانی ہیں  بلکہ  دنیائے مذاہب میں ایک  عظیم درویش کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ان کے جنم دن کے موقع پر میں مجودہ صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا لیکن ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ سکھ مت کے مطابق جب بابا جی کو  عرفان حاصل ہوا جب وہ اشنان لینے گئے اور تین دن بعد لوٹے تو انہوں نے کہا کہ نہ  کوئی ہندو ہے نہ  کوئی مسلمان ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ جو شخص ہندو ہونے کا دعوی کر رہا ہے وہ بھی اصلاً  اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہے  اور جو کوئی مسلمان ہونے کا دعوی کر رہا ہے وہ  بھی اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہا. تو بحیثیت انسان ہمارا فرض ہے اپنے عقیدے پر درست طریقے سے عمل  کریں ورنہ بابا گورو نانک کے کہے مطابق اس وقت بھی نہ  کوئی ہندو ہے اور نہ مسلمان!

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply