اللہ میاں کا سو موٹو ایکشن

عبد المجید راجپوت

(حصہ اول)

گھر کے باہر سے ما نوس سی افراتفری ،شور شرابے اور بھاگنے دوڑنے کی آوازیں آرہی تھیں تو میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا کہ کئی لڑکے موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے آئے اور پھر اپنی موٹر سائیکلوں سے اتر اتر کر پیدل پتلی گلیوں میں بھاگ گئے۔ اسی اثنا ء میں دیکھا کہ رینجرز کا ایک ٹرک بھی وہاں آپہنچا ، ٹرک سے رینجرز کے جوان دھمادھم کودے اور ادھر ادھر نظر دوڑانے لگے ، میں یہ دیکھ کر تھوڑا سا اوٹ میں ہوگیاکہ کہیں یہ بھائی لوگ مجھے ہی نیچے طلب نہ کرلیں، پھر انہوں نے آپس میں بات چیت کی ، دوران بات چیت وہ بھاگنے والے لڑکوں اور ان کے اہل خانہ کو گالیاں دیتے جارہے تھے ، گالیوں کو بیان کرنا یہاں مناسب نہیں، دوسرے مہذب لوگوں کو گالی دینا، سننا، سنانا ویسے بھی گھٹیا کام ہے۔

بہر حال پھر انہوں نے لڑکوں کی چھوڑی ہوئی موٹر سائیکلیں اٹھا اٹھا کر اپنے ٹرک میں لادنا شروع کردیں، تمام گاڑیوں کو لادنے کے بعد ان کی نظر میرے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی میرے بیٹے کی موٹر سائیکل پر پڑی ، جو کہ ہم دن بھر وہیں پر کھڑی رکھتے ہیں تاکہ بار بار گھر سے نکالنے کی زحمت نا ہو، بس جانے کیا ان کے دل میں آئی کہ ہماری موٹر سائیکل کو بھی مظاہرین موٹر سائیکلوں کے ساتھ ڈالنے لگے، پہلے تو میں نے سوچا کہ نیچے جا کر ان سے کہوں کہ یہ تو "بلوائی" موٹر سائیکلوں سے الگ تھلگ گھر کے سامنے کھڑی تھی ،لیکن پھر یہ سوچ کر کہ ابھی یہ لوگ طیش میں ہیں، کہیں ہمیں ہی موٹر سائیکلوں کے ساتھ جمع نہ کرلیں، بس خاموشی سے سب دیکھنے پر اکتفا مناسب سمجھا، بہرحال اب ان جوانوں نے جاتے جاتے چند موٹی موٹی الوداعی گالیاں دیں اور دھمکیاں دیتے ہوئے روانہ ہوگئے۔

ان کے جانے کے کچھ دیر بعد اریب قریب کی گلیوں سے وہی لڑکے ایک ایک کر کے باہر آکر باتیں کرنے لگے تو مجھے بھی تجسس ہوا اور میں بھی ان سے جا کر ملا اور پوچھا کہ کیا معاملہ تھا جو آپ کے پیچھے یہ لگے، انہوں نے بتایا کہ وہ دیواروں پر نعرے وغیرہ لکھ رہے تھے تو یہ لوگ اچانک آگئے اور ہم لوگ بھاگ نکلے، بہر حال ان کو اپنے حال پر چھوڑ کر ہمیں اپنی اکلوتی بائک کی فکر دامن گیر ہوئی، اہل محلہ کی طرف سے ہمیں مشورہ دیا گیا کہ بائک جس کے نام پر ہے، اس کو جانا چاہئے ورنہ ان کے خلاف کوئی کیس بن سکتا ہے۔ یہ سن کر ڈرتے ڈرتے ہم نے اپنے بیٹے کی ہمت بندھائی اور اسے ان کے ہیڈ کوارٹر بھیج دیا۔ تین چار گھنٹے کے بعد بیٹا بنا موٹر سائیکل واپس آیا اور ہمیں بتایا کہ اس کی وہاں انچارج حوالدار صاحب سے ملاقات ہوئی اور اس نے حوالدار صاحب کو بتایا کہ میری موٹر سائیکل میرے گھر کے سامنے کھڑی تھی اور میرا چاکنگ کرنے والے لڑکوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جس پر حوالدار صاحب نے بچے سے مکمل انٹرویو لیا اور بچے کے ساتھ ساتھ میرا موبائل نمبر لے کر کہا کہ کل وہ خود محلے میں آکر انکوائری کریں گے کہ کیا واقعی بیٹے کا بیان درست ہے اور گھر وہیں ہے جہاں سے موٹرسائیکل اٹھائی اور بیٹے کے چال چلن اور تعلق کی بھی انکوائری کر کے پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ یہ سن کر ہماری قدرے تسلی ہوئی کہ چلیں مسلہ حل ہو جائے گا، گو کچھ تشویش بھی تھی کہ کہیں خوامخواہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

دوسرے دن حوالدار صاحب کا بچے کو فون آیا کہ وہ کہاں ہے، بچے نے بتایا کہ گھر پر ہی ہے تو حوالدار صاحب نے کہا کہ وہ وہیں پر کھڑے ہیں جہاں سے کل موٹر سائیکل پکڑی تھی، آپ وہیں آجائیں ، بیٹے نے مجھے بتایا تو میں نے کہا کہ بیٹا چلے جاؤ، درود شریف اور استغفار پڑھتے ہوئے ، اللہ مدد کرے گا۔ ہم نے جھانک کر دیکھا تو ٹرک نیچے ہی کھڑا تھا اور حوالدار صاحب اور چند سپاہی ٹرک سے اتر کر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، بیٹا گھر سے نکلا اور ان کو بتایا کہ یہی میرا گھر ہے، تو انہوں نے شناختی کارڈ پر درج پتہ سے گھر کا نمبر ملا کر دیکھا ، وہاں موجود ایک دو لوگوں نے ہمت کر کے ہمارے گھر ہونے اور بچے کی بے گناہی کی گواہی دی، حوالدار صاحب کا رویہ اور لہجہ کل کی نسبت آج بہتر لگا کہ انہوں نے سخت کلامی کی بجائے نرم روی رکھی اور بچے کو کہا کہ اپنے والد کو بلائیں، جس پر میں بھی ان کی خدمت میں پیش ہوا، مجھ سے بھی بہت سارے سوال جواب ہوئے اور ان کو بچے کے جواب کی روشنی میں چیک کیا، پھر مجھ سے کہنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں ، میں نے بتایا کہ میں ٹیچر ہوں تو ان کے رویہ میں بہت تبدیلی آگئی اور پھر پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد کہنے لگے کہ جناب ہم بالکل مطمئن ہیں کہ آپ کا بچہ بے گناہ ہے اور ہم آپ کی موٹر سائیکل لوٹارہے ہیں، بس ذرا اپنے افسر کو بتادیں، میں نے کہا کہ جی جیسے آپ مناسب سمجھیں، پھر انہوں نے اپنے افسر کو فون ملایا اور انہیں سب تفصیل بتائی اور ہماری حمایت میں
باتیں کرتے ہوئے کہا کہ یہ شریف لوگ ہیں ، ٹیچر ہیں، محلے میں بھی انکی ساکھ اچھی ہے اور پوری طرح تسلی کرلی ہے یہ لوگ بے گناہ ہیں تو آپ سے اجازت لے رہا ہوں کہ ان کی موٹر سائیکل لوٹادوں ، جس پر ان کے افسر صاحب نے کہا کہ وہ ہم سے بات کرنا چاہتے ہیں، سو حوالدار صاحب نے ہمیں کہا کہ ہمارے صاحب آپ سے بات کریں گے اور تسلی دی کہ صاحب بہت اچھے ہیں، دیندار اور خاندانی بھی ، بس گھبرائیں نہیں اور بات کرلیں۔ یہ کہتے ہوئے فون ہمیں تھما دیا، ہم نے ان کو بڑے احترام سے سلام کیا، انہوں نے بھی بہت پیار سے جواب دیا اور پھر ہم سے ہمارے اپنے بارے میں ،بیٹے کے بارے میں سوالات پوچھے ، پھر پوچھا کہ اور بیٹے ہیں اور کیا کرتے ہیں انکی عمر کتنی ہے، ہم نے ہر سوال کا جواب دے دیا تو آخر میں پوچھنے لگے کہ ہمارے والد کا کیا نام ہے اور وہ کیا کرتے ہیں ، جس پر ہم نے ابا جی کا نام بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اباجی بہت پہلے انتقال کرچکے ہیں ، تو انہوں نے تعزیت فرمائی ، ابا جی کی مغفرت کے لئے دعا دی اور پھر کہا کہ آپکے والد کہاں پیدا ہوئے تھے ، میں نے کہا کہ حضور یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ کہا ابا جی کو مرے ہوئے کم وبیش بیس سال ہوگئے تو ان کو آپ کل کے واقعے میں کیوں شامل تفتیش کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں بس جاننا چاہ رہا تھا کہ کس شہر کی پیدائش ہے ، لاہور، پشاور کوئٹہ کراچی یا کسی اور شہر کی، ہم انکے سوال کو بھانپ گئے اور کہا کہ جی بدقسمتی سے ہمارے ابا کی پیدائش ان شہروں میں نہیں ہوئی اور ہم مہاجر ہیں ، ابا کی پیدائش بھارت کے شہر جے پور میں ہوئی تھی، بس یہ سننا تھا کہ ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور انہوں نے درشتی سے کہا کہ ہم مزید تفتیش کریں گے، فی الحال آپ کو موٹر سائیکل واپس نہیں ملے گی اور جب ہم آپ کو یا آپ کے بیٹے کو طلب کریں تو آپ کو آنا ہوگا، یہ کہہ کر فون بند کردیا!

مجھ پر تو جیسے بجلی گرپڑی ، ایک سناٹا سا طاری ہوگیا، اور گہرا صدمہ ہوا کہ ہم سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا کہ ہماری بے گناہی گناہ بن رہی ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے اگر قائداعظم اور مسلم لیگ کو لبیک کہتے ہوئے انکا ساتھ دیا، اپنے گھر بار ، جائیداد اور یہاں تک کہ اپنے اجداد کی قبریں چھوڑ کر ہجرت کی تو ہمیں کیوں ناقابل اعتبار سمجھا جا رہا ہے اور ہمیں وہ لوگ جن کے اجداد نے انگریزوں کے شانہ بشانہ مسلمان مجاہدین کو قتل کیا، ان کی جدوجہد ٓزادی کو ناکام بنایا اور قائداعظم کی مسلم لیگ کو اپنے صوبے سے ہروایا، وہ لوگ ہمیں دوسرے درجے کا شہری سمجھ رہے ہیں اور ہمارے سروں پر کوٹہ سسٹم کی تلوار چار دہائیوں سے چلا رہے ہیں ، یہ سوچتے ہوئے ہمارے دل سے ایک آہ نکلی کہ اللہ ہمارے ساتھ کب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا اور ہمیں منفی روئیے اپنا کر ، منفی سوچ کی طرف دھکیلا جائے گا۔ کبھی اپنے اجداد توکبھی قائد اعظم کی عقل اور سوچ پر شک ہونے لگتا۔ الغرض اسی سوچ کے ساتھ نا مراد گھر کو پہنچے، اہل خانہ کو ساری روداد سنائی اور سب مل کر متعلقہ افسر کو کوسنے دیتے رہے، شدید ٹینشن کی وجہ سے نیند کوسوں دور تھی، ہم سوچ رہے تھے کہ اگرمتعصبانہ رویہ اور ظالم کوٹہ سسٹم نا لگایا جاتا تو شاید ہم سب ایک دوسرے سے شکوے شکایت کی بجائے باہم محبت عزت اور احترام سے رہ رہے ہوتے ، نا ہی کوئی احساس محرومی ہوتا اور نا ہی ایسے مسائل معاملات جنم لیتے، ہم کوٹہ سسٹم لگانے والے تمام لوگوں کے لئے بددعائیں اور اللہ سے فریاد کررہے تھے کہ ان سب لوگوں کو جہنم واصل کرے اور ہم سب سے انصاف ہو، اسی طرح سوچتے رہے اور نیند ندارد، تو بلڈپریشیر اور شوگر کے مریض ہونے کی وجہ سے گھر والوں نے زبردستی نیند کی ٹیبلیٹ دے دی اور پھر یہی باتیں سوچتے سوچتے نا جانے کب نیند آگئی۔
(حصہ دوئم)

گھر کی گھنٹی بجی اور ہم نے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو سفید لباس میں ملبوس ایک صاحب نظر آئے ، حلیہ اور لباس سے معقول لگ رہے تھے، سو ہم نے نیچے جا کر دروازہ کھولا اورہماری سماعت سے بہت میٹھی اور پیار بھری زبان میں ان کی زبان سے نکلا جملہ "اسلام علیکم "ٹکرایا، یہ سن کر قدرے اطمینان محسوس کرتے ہوئے ہم نے بھی وعلیکم سلام کہا اور سوالیہ نگاہوں سے انکو دیکھا، انہوں نے کہا کہ ہم اللہ میاں کی جانب سے آئے ہیں۔ انہوں نے آپ کی آہ و بکا پر ایکشن لیتے ہوئے اپنی عدالت کے اہل کاروں کے ذریعے کوٹہ سسٹم کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے تمام معلومات جمع کراکے سوئوموٹو ایکشن لے لیا ہے اور کوٹہ سسٹم کے حوالے سے اس سے تمام محرکان اور نفاذ کنندگان اور جاری رکھنے یا کسی بھی طریقے سے اس میں معاونت کرنے والے یا اس پر خاموش رہنے والوں کو بھی طلب کیا گیا ہے، آپ کو بھی طلب کیا گیا ہے تاکہ ان پر فرد جرم آپ کے سامنے عاید کی جائے اور آپ کی جانب سے کچھ شامل کرنا ہو یا آپ اپنے طور پر کچھ کہنا یا اضافہ ضروری سمجھیں تو اسے بھی شامل کرلیا جائے۔

یہ سن کر ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ان صاحب کو مہمان خانے میں بیٹھ کر چائے پینے کی دعوت دی ، جس پر انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ابھی عدالت چلنا ہوگا کیونکہ یہ انتہائی اہم اور حساس نوعیت کا کیس ہے اور پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے لہذا فرد جرم اور دیگر کاروائی آج اور ابھی ہوگی، ہم نے حیرت سے کہا کہ اسی وقت!
جس پر انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں اسی وقت۔

ہم نے کہا کہ جی اتنے بہت سارے چھوٹے بڑے مجرموں کو ایک ساتھ جمع کرنا فوری طور پر کیسے ممکن ہے !
انہوں نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ جناب جرم بہت پرانا ہے اور ابھی تک جاری ہے، اور اس کے بہت سارے مجرم تو پہلے ہی ہمارے پاس ان کے لئے "مختص مقام" پر موجود ہیں۔ باقی جو ابھی زندہ ہیں، ان کے لئے انکے ساتھ ہر پل موجود منکر نکیر کو ہدایت جاری کردی گئی تھی وہ ان سب کو لے کر پہنچ چکے ہونگے۔
یہ سن کر ہم نے ان سے ایک لمحے کی اجازت لی اور اپنے اہلِ خانہ کو بتا کر ان کے ساتھ روانہ ہوئے ، عجیب سی بات ہوئی کہ ہم نے ایک قدم بڑھایا اور خود کو ایک میدان میں پایا جہاں پر بہت سارے لوگ موجود تھے۔ کچھ جانے پہچانے اور کچھ انجانے لیکن سبھی کے چہروں پر ہوائیاں اڑرہی تھی، ان میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے لے کر اب تک کے حکومتی عہدیداران بشمول نوازشریف بینظیر بھٹو کے علاوہ جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور دیگر جنرل ، اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداران ، دانشوران ، وکلاء کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس چودھری افتخار ، سابقہ شریعت کورٹ کے چیف جسٹس تنزیل الرحمان سمیت تمام ہی جج صاحبان اور بھٹو دور سے لے کر اب تک کے اراکین اسمبلی بھی نظر آرہے تھے ۔ اچانک ایک نورانی چہرے والے فرشتے نے اعلان کیا کہ اللہ تعالی کی طرف سے کوٹہ سسٹم کیس کی فرد جرم اوردیگرتفتیش اور ثبوت یکجا کرنے کے لئے اور لائحہ عمل پیش کرنے کی ذمہ داری جس جلیل القدر فرشتے کو تفویض کی ہے وہ تشریف لا رہے ہیں ، اس کے ساتھ ہی ایک نہایت خوبصورت بزرگ آتے ہوئے نظرآئے جن کو دیکھ کر وہاں موجود فرشتوں میں مزید ادب اور احترام نمایاں ہوا جبکہ میدان عدل میں موجود طلب کردہ ملزمان کے منہ اور لٹک گئے اور میرا دل اللہ تعالی کے تشکر سے لبریز ہوگیا۔

بزرگ فرشتے نے آتے ہی با آواز بلند سلام کیا اور ایک قدرے بلند چوکی پر براجمان ہوگئے، چوکی اس قدر بلند تھی کہ ہم سب ان کو با ٓسانی دیکھ پارہے تھے، پھر انہوں نے اللہ تعالی کی حمد وثناء اور سرکارِ دوعالم کی نعت شریف فرمانے کے بعد عدل وانصاف کی فضیلت اور ان سے روگردانی کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے آگاہ کیا اور سب احباب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا آج کی کاروائی اس طرح ہوگی کہ سب سے پہلے میں کوٹہ سسٹم کے آغاز سے لے کر مختلف مواقع پر اللہ تعالی کے مظلوم بندوں کی آہ و بکا اور دہائیوں کی صورت میں جو کچھ بھی ہم تک پہنچا ہے ، میں وہی سب یہاں سب کے سامنے پڑھ کر سناؤں گا۔ چونکہ یہ سب مختلف اوقات میں اللہ کے بندوں کی طرف سے پہنچی ہوئی فریادیں ہیں۔ اس لئے اس میں کوئی الزام غلط فہمی کی بنیاد پر بھی ہوسکتاہے یا اس کی نوعیت کچھ خفیف یا شدید بھی درج بھی ہوسکتی ہے لہذا یہاں موجود کوئی بھی شخص اس تفصیل میں کچھ کمی بیشی کے حوالے سے معترض ہو تو اجازت لے کر اس تفصیل میں ترمیم کراسکتے ہیں ، یہ کہتے ہوئے انہوں نے بطورِ خاص میری جانب اشارہ کرکے مجھے مخاطب کیا اور فرمایا کہ آپ بھی اگر کچھ کہنا چاہیں تو پیش کردہ ہر نقطے کے بعد اپنی بات یا وضاحت ضرور کہتے رہنا ، جس پر میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور اللہ عزوجل کی حمد بیان کی، اسکے بعدانہوں نے سامنے بیٹھے ہم سب لوگوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے ایک فائل اٹھائی اور بسم اللہ کہہ کر الزامات پڑھنے کا آغاز کیا، میں چونکہ معزز فرشتے کے نام سے آگاہ نہیں تھا تو میں انہیں یہاں ذمہ دار فرشتہ کے نام سے پکاروں گا۔
آگے کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

ذمہ دار فرشتہ ایک قوی الجثہ شخص کو مخاطب کرتے ہوئے : جناب رحمان گل آپ نے ۱۹۷۲ میں کوٹہ سسٹم کا آرڈیننس جاری کیا؟
رحمان گل : ممنائی ہوئی آواز میں ، جی جناب درست ہے۔
ذمہ دار فرشتہ ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے : اور آپ نے ۱۹۷۳ میں اس کو وفاقی یعنی بین الصوبائی سطح پر نافذکیا جس کے مطابق پاکستان کے تمام صوبوں کے درمیان ملازمتوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا؟
بھٹو : جی جناب ایسا ہی ہے۔
ذمہ دار فرشتہ بھٹو سے : لیکن آپ نے اس کے ساتھ ہی صرف صوبہ سندھ میں شہری دیہی کی تفریق کا آغاز کرتے ہوئے سندھ کے باشندوں کے لئے الگ الگ کوٹہ مقرر کیاجو کہ قطعاً اللہ کے قوانین سے متصادم ہے اور پاکستان بنانے میں پیش پیش ایک کمیونٹی قریبا ۴۴ سال سے اپنے تعلیمی معاشی حقوق کی ناہمواری کا شکار ہے اور اس وجہ سے اس صوبے کے لوگوں میں ایک ایسی تفریق پیدا ہوئی اور ایسے مسائل نے جنم لیا کہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، عملی طور پر سندھ ہی نہیں اس کے باشندوں کے دل و دماغ کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیا؟
بھٹو جواب دینے کی بجائے خاموشی سے گردن جھکا کر کھڑے رہے۔
میں : عالی جناب میں یہاں پر اس حوالے سے تفصیلی بیان دینا چاہتاہوں کیونکہ اس کے بعد ہی عدالت بہترطور پر فیصلہ کرپائے گی۔
ذمہ دار فرشتہ : ٹھیک ہے آپ کو جو بھی کہنا ہے وہ اختصار لیکن واضح طور پر بیان کریں۔
میں: جی بہت شکریہ، دراصل یہ معاملہ اتنا ہی سادہ نہیں ہے اور اس ظلم کے آغازکے ذمہ دار بھٹوصاحب ہی ہیں لیکن اس زیادتی کے وہ اکیلے ہی ذمہ دار نہیں ہیں اور نا ہی کوٹہ سسٹم کومحض ۴۴ سال سے نافذسمجھا جائے بلکہ یوں سمجھیں کہ بھٹوصاحب کی فطانت کی بدولت انہوں نے اس کو قیام پاکستان سے ہی نافذ کردیاتھا، یوں سمجھیں کہ ملک بنتے ہی قائداعظم اور لیاقت علی خان کی حکومت تھی لیکن ان کے دور میں بھی عیاری سے بھٹو صاحب نے کوٹہ سسٹم لگادیا تھا۔
ذمہ دار فرشتہ : حیران ہوتے ہوئے ! قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دور میں کیسے ممکن ہے اور پھر مسٹر بھٹو کا اس دور میں عمل دخل کیسے ممکن ہے جبکہ اس وقت ان کا یا انکے خاندان کا حکومت میں کوئی کردار بھی نہیں تھا اور نا ہی پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی تھی؟
میں : اے ذی قدر ہستی، میں اپنی گزارشات مختلف نکات کی صورت میں پیش کرونگا تاکہ وہ باہم خلط ملط نہ ہوں اور میری بات آپ اور دیگر لوگ با ٓسانی سمجھ لیں۔
ذمہ دار فرشتہ : ٹھیک ہے ، آپ جو کہنا ہے وہ کہیں ، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے عدالتی اسٹاف کو ہدایت کی کہ تمام کاروائی ضابطہ تحریر میں لائی جائے تاکہ اللہ تعالی کے حضور پیش کیا جا سکے اورعدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
میں : جناب عالی اب میں تمام تفصیل نکات کی شکل میں عرض کرتا ہوں۔
نقطہ اول ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۳ میں پورے پاکستان میں بین الصوبائی کوٹہ لگاتے ہوئے دیگر صوبوں کو چھوڑتے ہوئے صرف صوبہ سندھ میں فوری طور پر شہری اور دیہی علاقوں کے لئے الگ الگ کوٹہ مقرر کیا،۔ جس کے نتائج انتہائی خوفناک نکلے اور عملاً سندھ دو لسانی علاقوں میں منقسم ہوگیا اور یہ تفریق بعد میں شدید نفرت اور تعصبات اور مار کاٹ کے فروغ کا سبب بنی ۔
نقطہ دوئم۔ صوبہ سندھ میں دیہی شہری کوٹہ کے نفاذ کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ دیہی سندھ میں تعلیمی ادارے اور سہولیات کم ہیں تو ایک مقررہ مدت یعنی ۱۰ سال تک نافذ کیا جارہا ہے اور اس دوران دیہی علاقوں میں یہ سہولیات فراہم کردی جائیں گی اور کوٹہ سسٹم خود بخود ختم ہوجائے گا، اس طرح اس مدت کا تذکرہ پاکستان کے آئین میں درج کردیا گیا۔
جناب ،اس صوبائی کوٹہ سسٹم کے نفاذ کا جواز تعلیمی اداروں کو بنایا گیا تھا تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی نشستوں پر کوٹہ مقرر کیا جاتا لیکن تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ملازمتوں کی تقسیم بھی اس کا حصہ بنائی گئی اوراسی فارمولے کے تحت کردی گئی۔ یوں نااہلی، اقربا پروری اور پاکستان کے لئے گھر بار چھوڑ کر آنے والوں سے لیاقت نہرو معاہدے کے تحت ملنے والے حقوق غصب کرنے میں تیزی لائی گئی بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سندھ بالخصوص اور عمومی طور پر پاکستان میں محرومی کی بنیاد کو گہرا کرکے ایک قومی تشخص اوروحدت نقصان پہنچانے کے عمل کو تقویت پہنچائی گئی ۔
نقطہ سوئم۔ سندھ کے تین بڑے شہر کراچی حیدرآباد اور سکھرشہر کی اس وقت کی بلدیاتی حدود کو شہری سندھ قرار دیا گیا اور باقی ماندہ علاقوں کو دیہی سندھ قرار دیا گیا، واضح رہے کہ سندھ کے بڑے شہر میں رہنے والی آبادی کا کثیر حصہ اردو بولنے والی اس آبادی پر مشتمل رہا ہے جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں پیش پیش تھے اور قیام پاکستان کے اعلان کے بعد اپنے آبائی علاقوں ، جائیدادوں اور اجداد کی قبروں کو چھوڑ کر ہجرت کر آئے تھے اور عرف عام میں انہیں مہاجر کہ کر پکا را جاتا ہے۔
نقطہ چہارم : جناب عالی عام طور پر سیاستدانوں اور دیگر افراد کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ کوٹہ سسٹم ۱۹۷۳ سے نافذ ہے کیونکہ اس کو متعارف ۱۹۷۳ میں کیا گیا لیکن اس وقت کے کرتا دھرتا حکمران مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا اطلاق ، قیامِ پاکستان سے کردیا یعنی ۱۹۴۷ سے اس کے اطلاق کا مطلب کہ ۱۹۴۷سے نوکریوں کو ۴۰:۶۰ کے تناسب سے حساب نکال کرشہری دیہی نوکریوں کو بیلنس کرنا، واضح رہے کہ قیام پاکستان کے بعد پورے ملک بشمول سندھ میں اہل افسران، بیوروکریسی کی کمیابی کو
انہی شہری علاقوں میں آبسنے والے مہاجروں نے پورا کیا تھا جو وہاں اپنی نوکریاں پاکستان کی خاطر چھوڑ آئے تھے، اور ملی جذبے کے تحت پورا نظام چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
بہرحال بھٹو صاحب نے صوبے بھرسے قیامِ پاکستان یعنی ۱۹۴۷ سے لے کر اس وقت تک کی ملازمتوں کی تفصیلات جمع کرواکر کہ اس دوران کتنی نوکریاں شہری علاقوں اور کتنی دیہی علاقوں کے لوگوں کو ملیں ، پھر ان معلومات کی بنیاد پر ۴۰:۶۰ کے تناسب سے حساب لگا کر ہزاروں کی تعداد میں نوکریوں کو دیہی سندھ کے لئے کھول دیا گیا، لہذا یہ کہنا یا سمجھنا درست نہیں کہ سندھ صوبے میں کوٹہ سسٹم ۷۳ سے چل رہا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ کوٹہ بانی پاکستان اور قائد ملت کے وقت یعنی ۱۹۴۷ سے بھٹو صاحب نے کمال ہوشیاری بلکہ مکاری سے لگا دیا تھا۔

جناب عالی چونکہ دیہی سطح پر اتنی بڑی تعداد میں کوالیفائیڈ افسران موجود نہیں تھے تو اس لیٹرل انٹری (Lateral Entry ) کا کالا قانون بنایا گیا جس کے تحت اعلی بیوروکریسی میں اسکولوں سے ہیڈ ماسٹرز اور اسی طرح دوسرے لوگوں کو بنا کسی صلاحیت ، امتحان یا ٹریننگ کے ایس ڈی ایم اور اسی طرح کی پوسٹ تقرر کیا گیا،اس کے ساتھ ساتھ رول۔۵ کے تحت بھی لاتعداد لوگوں کو اہم پوسٹوں پر تعینات کرتے رہے، مختلف محکموں میں ایڈہاک اور کنٹریکٹ پر بھرتیاں کی گئیں اور پھر ان ملازمین کو مختلف اہم اور ذمہ دار پوسٹوں پر ضم کردیا گیا، اس طرح ایک طبقہ کے ساتھ نا صرف زیادتی کی گئی بلکہ صوبہ کو بھی نا اہل انتظامیہ کے سپرد کرکے تنزلی کی راہ پر ڈالا گیا۔

نقطہ پنجم۔ جناب اس تمام تر زیادتی اور ظلم کا قصور وار صرف بھٹو صاحب کو قرار دینا درست نہیں بلکہ اس وقت کی بیوروکریسی، عدالتیں ، اور سیاستدان بالخصوص شہری علاقوں کے منتخب نمائندے بھی تھے، میں نہیں جانتا کہ وہ کس وجہ سے اس زیادتی کو ہوتا ہوا دیکھتے رہے یا اس کا حصہ بنے رہے اور اس زیادتی کے خلاف اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

نقطہ ششم ۔ جناب عالی شہری علاقوں کے رہنے والوں کے ساتھ نا انصافی کا سلسلہ یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ شہری مخصوص علاقوں یعنی کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی میونسپل حدود میں اضاٖفہ کیا جاتا رہا، یعنی ان کا کوٹہ وہی ۴۰ فیصد رہا لیکن ان کی حدود میں ۷۳ کے دوران قرار دیے گئے دیہی علاقوں کو شہری قرار دے کر شامل کیا جاتا رہا اور یوں انکے ۴۰ فیصدحصے پر بھی نقب لگائی گئی۔
نقطہ ہفتم ۔ محترم زیادتی کا سلسلہ ملازمتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کیا گیا کہ تعلیمی اداروں میں ۷۳ کے کوٹہ کے مطابق عمل کرنے کی بجائے عجیب سلسلہ شروع کردیا گیا کہ ہرپروفیشنل اور اہم تعلیمی ادارے میں داخلوں کا۴۰ فیصد شہری کوٹہ کا حصہ کراچی، ِ حیدرآباد اور سکھر کی میونسپل حدود میں رہنے والوں کو دینے کی بجائے ہر ادارے نے اپنے تئیں اور اپنی مرضی کی شہری دیہی حدود بنالیں اور یوں دیہی علاقوں کو بھی شہری قرار دے کر اپنی داخلہ پالیسیز میں اصل شہری علاقوں کے کوٹہ میں نقب لگا کر ان کے ساتھ تعلیمی میدان میں زیادتی شروع کی جو اب تک بڑی شد و مد کے ساتھ جاری ہے، یوں یہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ کوٹہ سسٹم کی بجائے زیادتی در زیادتی شروع کی گئی جو تاحال جاری ہے۔
ذمہ دار فرشتہ : جب طے شدہ کوٹہ اور اس کے طریقہ اور حدود سے انحراف کیا جا رہا تھا تو شہری سندھ کے نمائندہ کیا کر رہے تھے، انہوں نے اس پر کوئی آواز یا احتجاج کیوں نہیں کیا یا کسی عدالت میں کیوں نہ گئے؟
میں: جناب عالی اس وقت کے شہری علاقوں پر جن جماعتوں کے نمائندے منتخب ہوئے ، نا تو اس وقت اور نا ہی اب تک انہوں نے ان مسائل پر آواز اٹھائی ہے بلکہ اگر کسی سیاسی جماعت نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اپنے تعصبات کی بناء پر انکے جائز مطالبات پر انکا ساتھ دینے کی بجائے ان کی بھرپور مخالفت کی، جس کی وجہ سے سندھ کے شہری لوگ ان کو مسلسل مسترد کرتے آئے ہیں۔
ذمہ دار فرشتہ: اس وقت کے شہری نمائندوں کی طرف دیکھتے ہوئے تفہیمی انداز میں سر ہلاتے ہوئے، ٹھیک ہے آپ اپنابیان جاری رکھیں۔
میں: جی میں اب اپنے اگلے نقطے کو بیان کرتا ہوں۔
نقطہ ہشتم۔ جناب عالی بات پچھلے نقاط میں بیان کردہ ناانصافی اور ظلم تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ جب کراچی میں نئے ادارے کھولے گئے تو ان کے چارٹر اور پالیسی میں کراچی شہر کے مخصوص علاقوں یعنی وہ علاقے جہاں پر غیر مہاجر اور پیپلز پارٹی کے ووٹرز بستے ہیں ان کے لئے کراچی شہری کوٹے کی سیٹوں کو مزید تقسیم کیا گیا اور جن علاقوں میں غیر اردو بولنے والے جو کہ زیادہ تر حکومتی پارٹی یعنی پیپلزپارٹی کے ووٹرز تھے ان کو اس شہری کوٹہ سے غیر منصفانہ طور پر زیادہ تعداد اور تناسب میں علیحدہ سے سیٹیں رکھ دی گئیں ، جناب والا یہ تفریق کوٹہ سسٹم کے نفاذ سے ہونے والی زیادتیوں کے باوجود اس سے بھی بڑی زیادتی تھی۔ اور اس طرح ۷۳ میں دیہی سندھ اور شہری سندھ کی تفریق پیدا کی گئی جبکہ اس تقسیم سے شہری علاقوں کے کوٹے کو بھی ناجائز، غیر قانونی غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی طور پر تقسیم کیا گیا، دوسرے الفاظ میں شہری علاقوں یا ایک ہی شہر میں رہنے والوں کے درمیان بھی تفریق کی گئی اور نا انصافی کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان دوری پیدا کی گئی۔

جناب عالی، میں ان ظالموں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کو آپکے سامنے ایک ترتیب کے ساتھ یکجا کرکے پیش کرتا ہوں تاکہ ان کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور ریکارڈ کا حصہ بھی بنایا جا سکے۔
ذمہ دار فرشتہ: ٹھیک ہے میرا بھی یہی خیال ہے کہ یہ بہتر ہوگا کہ آپ ان کو یہاں خلاصہ کی صورت میں بیان کردیں۔
میں: جی بے حد شکریہ ، تو میں عرض کرتا ہوں کہ:

سب سے اول، ۱۹۷۳ میں صوبہ سندھ کو دو حصے یعنی دیہی اور شہری بنیاد پر تقسیم کرکے غیر حقیقی، غیر اسلامی، غیر انسانی کوٹہ سسٹم لگایا گیا، اور اس سے بڑا ظلم یہ کہ اس کا نفاذ پاکستان کے قیام یعنی ۱۹۴۷ سے کیا گیا،اس سسٹم کے تحت کراچی حیدرآباد اور سکھر شہر کی اس وقت یعنی ۱۹۷۳ کی میونسپل حدود کو شہری سندھ قرار دیا گیا اور انکے لئے ۴۰ فیصد حصہ رکھا گیا اور باقی ۶۰ فیصد سندھ کے باقی ماندہ علاقوں یعنی دیہی سندھ قرار دیئے گئے علاقوں کے لئے مختص کردیا گیا۔
جناب عالی، کچھ وقت کے بعد شہری سندھ قرار دیئے گئے علاقے کی حدود میں دیہی سندھ کے علاقے شامل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا، اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شہری سندھ کے مختص کوٹے میں نقب زنی شروع ہوگئی ، اب طے شدہ علاقے کے عوام کے حصے میں دیگر علاقے کو غیر منصفانہ طور پر شامل کردیا گیا، یوں سندھ شہری حصے میں دو وجوہات سے کمی شروع ہوگئی ، ایک تو دیہی علاقے کی شمولیت کی وجہ سے اور دوسرے دیہی آبادی اور ملک کے دیگر علاقوں سے بھی آبادی کی شہری سندھ میں تیزی سے منتقلی اور وہاں کی سکونت اور ڈومیسائل بنوانے کی وجہ سے۔ جناب عالی ، بات یہیں تک محدود نہیں رہی ،کالجز اور تعلیمی اداروں میں تو کوٹہ سسٹم کے مطابق طے کردہ علاقوں کی بجائے انکی حدود میں ہی دیہی علاقوں کو شہری کہہ کر ایک اور زیادتی کردی گئی، اس طرح سندھ کے شہری عوام کو ملازمتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم میں بھی دہرے معیار اور بدترین سلوک سے نوازا گیا۔
جناب عالی، مرے پر سو درے کے مصداق پھر یہ ہوا کہ کراچی میں سندھ کی پی پی کی حکومت کے دور میں جو ادارے قائم کئے ان میں کراچی شہر ی کوٹے کو پھر مزید تقسیم کرتے ہوئے پی پی کے ووٹرز کے ٹاؤنز میں جہاں غیر اردو بولنے والوں کی اکثریت تھی ، تو کراچی کوٹے کی غالب سیٹیں غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر انسانی طور پر ان ٹاؤنز کو دے دی گئیں۔
جناب عالی اس طرح شہری علاقوں سے ملازمتوں اور تعلیم کے شعبہ جات میں ہر طرح کا استحصالی حربہ استعمال کیا گیا، یہاں تک کہ ان کے لئے بچے کھچے مواقع کو بھی دیہی علاقوں کے افراد کوڈبل ڈومیسائل یعنی انکے دیہی ڈومیسائل کے ہوتے ہوئے اپنی حکومت اور افسر شاہی کی بدولت شہری علاقوں کے بھی بھاری تعداد میں ڈومیسائل بنا کر رہا سہا حق بھی غصب کرلیا گیااور ان میں بے چینی اور دوسرے درجے کے شہری کا احساس پیدا کیا گیا ۔
جناب عالی ، آپ اگر آج تحقیق کریں تو دیکھیں گے کہ سندھ شہری ڈومیسائل با آسانی دیہی علاقوں کے عوام بلکہ پورے پاکستان کے لوگ بنوا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور یوں وہ جہاں ان کے کوٹے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اگر اس سے ناممکن ہو تو جھٹ شہری ڈومیسائل پیش کرکے نوکری اور داخلے لے لیتے ہیں اور شہری لوگوں کے احتجاج پر انہیں طعن و تشنیع یا بے جا الزام اور ظلم و ستم روا رکھا جاتا ہے۔
جناب عالی، غالبا ۲۰۱۳ کا ایک واقعہ جو اس وقت مجھے ذہن میں آرہا ہے وہ اس کی مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں ایگری کلچر آفیسر کی ملازمتیں آئیں اور ان پر جن لوگوں نے دیہی علاقوں کا ڈومیسائل پیش کیا اور وہ اس دوڑ سے رہ گئے تو بعد میں شہری علاقوں کی پوسٹ پر ان ہی لوگوں نے شہری ڈومیسائل دے کر شہری نششتوں پر نوکریاں لے لیں۔ یوں شہری نوجوانوں کے حقوق غصب کرتے اور یہ ظلم ہوتے سب ادارے اور افسران دیکھتے رہے یا اسکا حصہ بنتے رہے ہیں ۔

جناب عالی، سندھ پبلک سروس کمیشن کے ساتھ ساتھ اب ڈویژن اور ضلعی سطح پر ملازمتوں کے لئے سیلیکشن کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور ان کمیٹیوں میں جو افسران شامل ہوتے ہیں وہ بھی دیہی علاقوں اور استحصالی ذہنیت کے ہوتے ہیں اور یوں ہر طرح سے شہری علاقوں کے عوام کو جبری غلامی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
جناب عالی، شہری علاقوں کے لوگ جو عرف عام میں مہاجر کہہ کر پکارے جاتے ہیں ، وہ قائداعظم کی تحریک پر اپنے علاقوں سے ہجرت کرکے موجودہ پاکستان آئے اور ان کا یہاں آنا پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت تھا جس کے مطابق پاکستان کے علاقوں سے جانے والے ہندوؤں کو بھارت میں مسلمانوں کی چھوڑی گئی جائداد کا ۸۰ فیصد دیا جائیگا اور اسی طرح بھارت سے آنے والے مہاجرین کو بھی یہاں ہندوئوں کی چھوڑی ہوئی جائداد کا ۸۰ فیصد دیا جانا تھا لیکن مہاجرین کو اس تناسب سے زمین جائیداد بھی نہیں دی گئی اور الٹا ان پر یہ احسان گنایا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں نے جیسے اپنی جائیداد انہیں دی ہو اور اس طرح کے پروپیگنڈے سے ایک باہمی چپقلش کی فضاء قائم کردی گئی۔

ذمہ دار فرشتہ : یہ جو تمام باتیں آپ نے کی ہیں، بشمول کراچی کے نئے قائم شدہ تعلیمی اداروں کے چارٹر اور داخلہ پالیسی میں کراچی کے شہری کوٹے کو تقسیم در تقسیم کیا گیا اور بقول آپ کے اردو بولنے والوں کے ساتھ ایک اور بڑی ناانصافی ہوئی جو کہ ۷۳ کے کوٹہ سسٹم کے بھی خلاف تھی تو یہ سب تو سندھ اسمبلی سے ہی منظوری لی گئی ، جہاں پراردو بولنے والوں کے نمائندے بھی موجود تھے تو انہوں نے اس پر کیوں توجہ نہیں دی، کیا اس نا انصافی کے ذمہ داروں میں وہ خود بھی شامل نہیں ؟
میں : اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ سندھ اسمبلی میں دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے اکثر قوانین و قراردادیں وہ اپنی عددی برتری کی بنیاد پر منظور کرتے آئے ہیں لیکن ان معاملات میں شہری سندھ کے نمائندے اپنی نااہلی یا کسی بھی وجہ سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے بھی ذاتی مفادات اور نا اہلی کا ثبوت دیا اور یہ چارٹر انکی اسمبلی میں موجودگی کے دوران ہی منظور ہوئے، لیکن ان کی غفلت یا نااہلی کی سزا شہری سندھ یا کراچی کے لوگوں کو نہیں ملنی چاہئے بلکہ انکے ساتھ انصاف ہونا چاہئے۔
ذمہ دار فرشتہ : تو آپکے مطابق سندھ میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے مجرم ذوالفقار علی بھٹو، اس وقت کے سرکاری اہلکار اور سیاستدان ہیں اور اس کے تسلسل اور مزید اضافی زیادتیوں کی ذمہ دار موجودہ سندھ حکومت ، اراکین سندھ اسمبلی بشمول شہری سندھ کے منتخب نمائندے ہیں؟
میں : جی بالکل یہ سب ہی ذمہ دار ہیں ، لیکن میں آپ کے گوش گزار یہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک ذمہ داری کے حوالے سے جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ کم و بیش صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن میری نظر میں اس تمام نا انصافی اور تفریق کے ان سب سے بھی بڑے ذمہ دار وہ لوگ ہیں کہ جو اس صوبے سے تعلق ہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کا یہاں کوئی ووٹ بینک رہا ہے اور نا ہی انکا کوئی مفاد نظر آتا تھا لیکن شاید وہ سندھ میں بے چینی قائم رکھنا چاہتے تھے یا پھر اردو اسپیکنگ طبقے کو پاکستان کی حمایت کی سزا دینا مقصود تھا۔
ذمہ دار فرشتہ : اس بات کی وضاحت کریں ؟
میں : جی بالکل میں اس کی وضاحت کرنے کو تیار ہوں لیکن اس کیلئے مجھے دوبارہ پیچھے جانا پڑے گا، تب ہی میں با آسانی میں اپنے الزام کو ثابت کرپاؤں گا؟
ذمہ دار فرشتہ : آپ کو اجازت ہے ، کیونکہ آج کی عدالت آپ کی وجہ سے ہی لگی ہے تو آپ اس معاملہ پر اپنا موقف بالکل پیش کرسکتے ہیں۔
میں : جناب میں آپکا مشکور ہوں اور اللہ عزوجل کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہوں کہ مجھ ناچیز کی آہ کو سوموٹو ایکشن میں تبدیل کیا گیا اور اتنے بڑے بڑے لوگوں کے مقابل مجھے کھڑے ہونے کا موقع اور ہمت عطا کی گئی۔
ذمہ دار فرشتہ: یہ اللہ تعالی کا دربار ہے اور یہاں کوئی بڑا چھوٹا نہیں ، یہاں وہی باعزت اور با وقار ہے جس نے اپنی زندگی اللہ اور اسکے رسول کے بتائے گئے اصولوں پر گزاری اور کسی قوم کجا کسی فرد سے بھی نا انصافی نہ کی ہو، بہر حال آپ کو مزید جو کہنا ہے وہ کہیں۔
میں: جی بہت بہتر۔ جناب عالی جیسا کہ یہ بات واضح ہوچکی کہ سندھ میں ظالمانہ کوٹہ سسٹم ذوالفقار علی بھٹو نے نافذ کیا اور اس کی آڑ میں ایک طبقے کے ساتھ کئی پشتوں کے ساتھ نا انصافی کا تسلسل جاری ہے ۔
جناب عالی، میں یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ یہ کوٹہ سسٹم ۱۹۷۳ کے آئین میں صرف ۱۰ سالوں کے لئے شامل کیا گیا تھا اور دس سال بعد اسے خود بخود ختم ہوجانا تھا لیکن جب اس کے ۱۰ سال مکمل ہوئے تواس وقت ملک پر آپکے سامنے موجود جنرل ضیاالحق اقتدار پر اسلام کے نام پر قابض ہوچکے تھے اور انکا تعلق سندھ سے نہیں تھا لیکن اسلام کے اس جھوٹے دعویدار نے اپنی آمریت کے بل بوتے پر اور کسی سیاسی مصلحت کی بنا ء پر اس ظالمانہ اور غیر اسلامی کوٹہ سسٹم میں ۱۹۸۳ میں ۱۰ سال کا اضافہ کرتے ہوئے آئین میں ۷۳ میں درج کئے گئے ۱۰ سال کو ۲۰ سال کردیااور یوں اب کوٹہ سسٹم ۱۹۹۳ تک جاری ہوگیا، تو جناب اس ظالمانہ اقدام کرنے والوں میں پنجاب کے اس سپوت کا نام بھی شامل کیا جائے۔
جناب عالی ، اسی دوران آپکے سامنے موجود ججز میں سے جسٹس تنزیل الرحمان جو کہ شریعت کورٹ کے چیف جسٹس تھے، انہوں نے سندھ کے ایک شہری کی درخواست پر کوٹہ سسٹم کو قران وسنت کے منافی قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کے احکامات دے دئے ، جس پر اس وقت کی سندھ حکومت نے شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی، لیکن سپریم کورٹ نے بھی شریعت کورٹ کے فیصلے کو ہی برقرار رکھا، جناب عالی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فیصلے کے مطابق کوٹہ سسٹم ختم کیا جاتا لیکن اس وقت کے حکمران میاں نواز شریف نے جن کی اس وقت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثیریت تھی ، اس کے بل بوتے پر اسمبلی سے آئین کی کوٹہ سے متعلق شق میں درج ۲۰ سال کو ۴۰ سال سے تبدیل کردیا اور یوں انتہائی ظالمانہ طور پر ۲۰ سال کا اضافہ کردیا، جناب عالی یہ حرکت آپکے سامنے موجود اس ظالم نواز شریف نے کی جو خود کو سچا مسلمان اور عوامی حقوق کا پاسبان کہتا رہا ہے۔ جناب عالی جنرل ضیاء الحق کی طرح انکا بھی نہ تو سندھ میں کوئی ووٹ بنک رہا ہے اور نا ہی کوئی مفاد، ماسوائے سندھ کے عوام کو تقسیم رکھ کرباہم لڑواکر اپنی حکومت قائم رکھے۔
بزرگ فرشتہ نواز شریف کی جانب دیکھنے لگے اور نواز شریف نے فورا اپنی نظریں شہباز شریف کی طرف پھیرلیں ۔
میں: جناب عالی بات یہیں جا کر نہیں رکی، نواز شریف کی حکومت سامنے قطار میں موجودجنرل مشرف نے ختم کی اور خود کو مہاجر کہلوانے والے اس شخص نے بھی اس زیادتی کو ختم نہیں کیا بلکہ جاری رکھا۔
جناب عالی اس کے بعد مشرف صاحب کا اقتدار ختم ہوا اور پیپلز پارٹی برسر اقتدار آگئی اور دونوں بڑی پارٹیوں نے یہ کہتے ہوئے کہ آئندہ محاذ آرائی کی بجائے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ چلیں گے اور آئین سے تمام غیر اسلامی غیر انسانی اور غیر حقیقی شقوں کو نکال کر آئین کا بگڑا حلیہ درست کریں گے۔
جناب عالی اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے تمام پارٹیوں کے نمائندہ اراکین نے مل کر آئین کا شق وار جائزہ لینا شروع کیا اور طے کیا کہ آئین کا جائزہ لے کر ۱۸ ویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حلیہ درست کریں گے ،لیکن اس موقع پر بھی نہایت بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوٹہ سسٹم کی شق کو نہیں ختم کیا گیا حالانکہ یہ کسی طور پر بھی قران و سنت کے اور پاکستان کے آئین کی لازمی شرط پر پوری نہیں اترتی تھی کہ جس کے مطابق کوئی بھی قانون قران و سنت سے متصادم نہیں ہوگا۔
جناب عالی یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اس ظلم زیادتی میں دینی جماعتیں بشمول جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام ، جمیعت علماء پاکستان و دیگر بھی برابر کی قصور وار ہیں کہ انہوں نے بھی اس غیر اسلامی قانون کی مخالفت نہیں کی بلکہ حمایت کی۔
جناب عالی، اس نا انصافی کے شراکت دار آپکے سامنے موجود ججز بھی ہیں اور خاص طور پر جسٹس افتخار چوہدری کہ جنہوں نے آئین میں اصلاحات کے نام پر کی جانے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ججز کے تقررکے حکومتی اختیار کو اپنی حیثیت ،طاقت اور کمزور حکومت کو بلیک میل کرچھین کر اپنے پاس رکھ لیا، یعنی اب ججز خود اپنا تقرر اور مراعات کا فیصلہ کرتے ہیں جومیرے خیال میں سراسرغیر اسلامی اور غیر حقیقی تھا لیکن ان کی نظر آئین میں موجود کوٹہ سسٹم کی زیادتی پر نہیں پڑی جو کہ درحقیقتاسلام اور آئین کی روح کے بھی خلاف تھی۔
بزرگ فرشتہ : تو آپکے مطابق کوٹہ سسٹم کے ظلم کے کرداروں میں کم و بیش تمام سیاسی و فوجی حکومتوں، عدالتوں اور سیاسی جماعتوں کا کردار ہے، اس حوالے سے ملکی دانشوروں اور وکلاء کا کردار کیسا رہا؟
میں : جناب انکا کردار بھی گھناؤنا ہی رہا، یہ لوگ بھی اپنی نام نہاد دانش اور انصاف کے ڈھول ہی پیٹتے رہے اور کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے چمٹے رہے اور اپنے مفاد حاصل کرتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جناب عالی میں تو یہی کہوں گا کہ ہر ایک صاحب اختیار نے کراچی اور شہری علاقوں میں امن اور چین کے نام پر مزید خرابی ہی پیدا کی ہے، کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہاں اصل سکون کوٹہ سسٹم کے خاتمے اور برابری کے حقوق سے ہی ہوسکتا ہے اور اگر کسی نے یہ جانا بھی تو اپنے مخصوص مفادات کی وجہ سے مجرمانہ خاموشی اختیار کی اور کسی نے ایک آدھ دفعہ سرسری بات کرکے چپ سادھ لی۔
بزرگ فرشتہ تمام ملزمان کی جانب نظر دوڑاتے ہوئے : آپ صاحبان اب تک کی تمام کاروائی سننے اور دیکھنے کے بعد اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟
تمام حاضر ملزمان ایک دوسرے کی طرف بے بسی سے دیکھتے رہے لیکن کوئی بھی کچھ نہیں بولا۔
بزرگ فرشتہ اب مجھ سے مخاطب ہوکر: اچھا جناب اب آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں یا آپ اس عدالت الہیہ کے سامنے کیا مطالبات رکھنا چاہتے ہیں؟
میں: جناب عالی، مجھے تو اللہ عزوجل سے صرف انصاف چاہئے اور یہ سب کچھ اللہ تعالی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں کیا کچھ زیادتیاں کی ہیں۔
بزرگ فرشتہ: بے شک اللہ سب جانتا ہے لیکن یہاں پر سب لوگوں کی طلبی کا مطلب سب کو انکے اعمال سنانا اور اسکے بعد انکے لئے فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ ارباب اختیار کو ایک موقع فراہم کرنا بھی ہے تاکہ وہ اصلاح احوال کرسکیں ورنہ پھر ان کو بھی دردناک عذاب بھگتنا ہوگا۔
میں : جی جناب عالی
بزرگ فرشتہ: چلیں آپ اب اپنے مطالبات اور جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں کہیں۔
میں: جناب ، میری چند گزارشات ہیں،
ایک یہ کہ کوٹہ سسٹم جو کہ ۲۰۱۳ میں آئین کی غیر آئینی شق کے مطابق ختم ہوچکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد اب بھی نواز شریف کی حکومت جاری رکھے ہوئے ہے اس پر اور اصل ظلم یعنی سندھ کے اندر کوٹہ سسٹم پر عمل درآمدفی الفور روکا جائے اور اس حوالے سے اب تک ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جائے تمام ڈومیسائل کو ختم کرکے نادرا کے جاری کردہ شناختی کارڈ کے مطابق مستقل پتہ کے ساتھ ہی ڈومیسائل کا ذکر یا اس میں نیا اندراج کرکے ملکی سطح پر سب کو اس کاجائز حق دیا جائے۔
دوسرے، اس تمام تر ظلم میں شریک لوگوں کو قر ارواقعی سزا دی جائے، عدل اور انصاف پر مبنی نظام قائم کیا جائے جہاں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور آئین پاکستان میں ایسی تمام غیر قانونی غیر اخلاقی غیر انسانی شقوں کو فوری ظور پر ختم کیا جانا چاہئے۔
آخر ی یہ کہ ہمیں بھی اس ملک میں برابر کا حصہ دار سمجھا جائے اور تعصب کا عمل بند کیا جائے اور ایسا نظام یا سسٹم قائم کیا جائے کہ ملک میں اکثریت اقلیت کے ساتھ زیادتی نہ کرسکے ورنہ یہ ملک اسی طرح کی بے چینی اور خلفشار کا شکار رہے گا۔ تمام اداروں کو ان کے فرائض ادا کرنے اور زیادتیوں اور من مانیوں سے روکا جائے ۔
بزرگ فرشتہ: ٹھیک ہے میں یہ تمام معاملات اللہ تعالی کے حضور پیش کردیتا ہوں اور اس دوران تمام ملزمان کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ کہ وہ اللہ کے حضور توبہ کریں ورنہ اس کے بدترین عذاب کے لئے تیار ہوجائیں اور موجودہ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت اس حوالے سے اپنے مئاملات کو درست کرکے نا انصافی کا سلسلہ ختم کریں اورسندھ شہری علاقوں کو اپنا برابر کا شریک مان کر کوٹہ سسٹم ختم کریں اور تمام ارباب اختیار ان سے تعصب اور نا انصافی ترک کریں ورنہ بھیانک انجام کے لئے تیار ہوجائیں،
یہ کہتے ہوئے بزرگ فرشتہ اپنی نششت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور عدالت برخواست ہوگئی، اسی لمحہ میری آنکھ کھلی تو تو فجر کی اذان بلند ہورہی تھی، میں فوری طور پر اٹھا اور مسجد میں جاکر نماز پڑھی اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر پاکستان میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کے ساتھ عدل انصاف اور رواداری کے قیام اور اس کے استحکام کے لئے دعا کی اور گھر واپس آگئے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply