الوداع

الوداع
شیخ ایاز
منطوم ترجمہ : مشتاق علی شان

Advertisements
julia rana solicitors london

میں جا رہا ہوں الوداع
اس ساز کو مضراب کے
سینے لگائے الوداع
جیسے ہو شعلہ آخری
یوں نغمہ خواں ہوں الوداع
وہ قافلے جو جا چکے
اُن سے ہوں آگے جا رہا
لیکن کہاں ہوں میں چلا
میں نے ابھی جانا نہیں
وہ دور سے دیکھو مجھے
اک سانجھ دیتی ہے صدا
اُس میں سمانے ہوں چلا
سو درد تھے سو دکھ مگر
تھی زندگی پیاری بہت
وہ کیکروں پر نیم شب
تھی چاندنی پیاری بہت
آکاش میں ہوں بڑھ رہا
چندا کی جانب الوداع
ساون گھٹاؤں کی طرح
تھر پر برس کر ہوں چلا
کاندھے کا لیکن ’’ کینرو ‘‘
کب تک بجاؤں الوداع
اے سندھ تجھ کو الوداع
اے ہند تجھ کو الوداع
تجھ میں ہی تھا سارا جہاں
اے جسم وجاں اب الوداع
( "کینرو" موسیقی کا ایک آلہ )

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply