امتیا ز گلیانوی اور امتیاز نامہ۔۔۔شاہد لطیف ہاشمی ایڈووکیٹ

زندگی لمحات کے تسلسل کا نام ہے جو یکے بعد دیگر معمول کے مطابق یا بعض اوقات غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرتے چلے جاتے ہیں۔اور ان گزرے ہوئے لمحات جو ماضی قریب اور ماضی بعید کی صورت میں اپنا وجود رکھتے ہیں کو کوئی فرد، کوئی شخصیت اپنے حافظے یا یاداشت کی بنیاد پر لفظوں میں قید کر لے اور پھر ان لفظوں کو دوسرے لوگوں کی بصارتوں کی نذر کر دے تو یہ کوشش جو وہ فرد اپنی زندگی کے لمحات کو ترتیب سے لفظوں کی صورت میں ڈھال کر داستان حیات کے رنگ بکھیرتا ہے اور آپ بیتی یا خود نوشت کتابی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس کا ادب میں ایک منفرد مقام ہوتا ہے ۔اور یہ آب بیتی یا خود نوشت یا داستان حیات ادب کی دوسری اصناف سے کہیں زیادہ دلچسپی سے پڑھی جانے والی صنف ہے۔ اگرچہ حافظہ کی بنیاد پر لفظوں کو مقید کرنا ایک کٹھن اور مشکل کام ہے کیونکہ گزرے ہوئے لمحات ، واقعات کو لفظوں کی ڈوری میں پرونے کیلئے جس قوت کو بنیاد بنایا جاتا ہے وہ بہت کمزور ہوتی ہے جس پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ حافظہ کبھی کبھی انسان کا ساتھ بھر پور طور پر دیتا ہے اور کبھی کسی واقعے کی اصلیت اور صداقت کے حوالے سے شک کا دائرہ کھینچ کر پوری قوت کے ساتھ ،ساتھ دینے سے انکار بھی کر دیتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بعض اوقات تو دھوکہ بھی دے جاتا ہے ۔ لہذا گزری ہوئی حیات کی پوری لڑی میں سے حافظہ کی صورت میں رہ جانے والے لمحات و واقعات کو چن کر الگ سے ترتیب دینا اور اس ترتیب کو اس انداز سے پیش کرنا کہ زندگی کے سارے حوالے نمایاں نظر آئیں ان شخصیات کو ہی زیبا ہے جن کو اپنی یاداشت ، اپنے حافظے پر بلاکا اعتماد ہو ۔ امتیاز گلیانوی اس اعتبار سے رب کریم کی اس عطا پر مطمئن ہیں کہ رب کریم نے انہیں جو حافظہ دیا جو یاداشت کی صلاحیت عطا کی ہے وہ نہ صرف قابل بھروسہ ہے بلکہ ہر لحاظ سے معتبر بھی ہے۔ لہذا امتیازگلیانوی نے اپنی یاداشتوں کو یکجا کر کے جو کتاب مرتب کی ہے وہ اپنی خوبصورت یادوں کا معتبر حوالہ ہے۔
اہل دانش کا کہنا ہے کہ اپنی زندگی کو لفظوں کی نذر کرنا دراصل زندگی کو از سر نو گزارنے کے مترادف ہے اور ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔ ماہرین کی اس رائے کو مد نظر رکھا جائے تو امتیاز گلیانوی اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ لاکھوں کروڑوں افراد میں سے یعنی ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا والی فہرست سے نکل کر ان افراد میں شامل ہوئے ہیں کہ جن کو اپنی زندگی اس سر نو گزارنے کا فن آتا ہے اور امتیاز گلیانوی نہ صرف اس فن کے ماہر ہیں بلکہ وہ تصورات، احساسات، خیالات اور ان کے ساتھ چلنے والے سارے مناظر کو شریں لفظوں میں ڈھالنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ امتیاز گلیانوی کی بصیرت واقعات کو الفاظ کا روپ دینے اور پھر اس روپ کو زبان دینے میں کمال درجہ رکھتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اسی بصیرت کی ہی تاثیر ہے کہ امتیاز گلیانوی جس نگاہ سے دنیا کی حقیقتوں ، سچائیوں ، مکر و فریب اور ہر طرح کے معاشی و معاشرتی و سماجی نشیب و فراز کو دیکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ موثر اندا زمیں وہ ہمیں دکھاتا ہے اور بہت دلکش انداز میں دکھاتا ہے ۔ اس بات کا منہ بولتا ثبوت امتیاز گلیانوی کی کتاب “امتیاز نامہ “ہے ۔ جس میں زندگی کے گہرے و پھیکے رنگ اتفاقات خوشیاں، غم، جذبے، حادثے ، صحت مند روایات اور ان پر عمل داری کا سبق، خواہشوں، پریشانیوں، امیدوں کامیابی و ناکامی کی مختلف جہتیں اور وہ پورا منظر وہ ساری جھلک امتیاز گلیانوی”امتیاز نامہ”میں ہمیں دکھاتا ہے جن کا تعلق ہماری اس دنیا اس کے مختلف خطے، مختلف موسم، مختلف مذاہب ، رسم و رواج ، فکر و سوچ، اخلاقیات اور جو جو بھی ہمارے دور سے متعلق ہے جس میں ہم جی رہے ہیں اور جس میں ہم سانس لے رہے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ امتیاز گلیانوی کے قلم کی نوک نے وہ روشنی بکھیری ہے جس کی جستجو میں امتیاز گلیانوی کی حیات نصف صدی سے عبور کر گئی اور امتیاز گلیانوی نے اپنے گزرے ہوئے پچاس سالو ںکو پھر سے جینے اور بھر پور طور پر جینے کا گوہر مقصود حاصل کر لیاہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ از سر نو زندگی گزارنے سے عرفان ذات تک کا سفر بھی سہل ہو جاتا ہے اور حیات کی ساری تمازتیں، خوشگوار فضا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور پھر اس سے آگے کی منزل کی طرف کا سفر کا آغاز ہو جاتا ہے اور وہ ہے خدا شناسی اسی لیے تو امتیاز گلیانوی اپنی کتاب کی ابتداء میں عام آدمی کی کہانی کے موضوع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
کہ “بس اب ایک ہی چیز کی تمنا ہے اور وہ ہے خدا شناسی ۔ میرا یہ کتاب لکھنے کا مقصد کیا ہے یہ تو آپ کو کتاب پڑھ کر ہی پتا چلے گا۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لکھنے والا خود نہیں لکھتا بلکہ کوئی طاقت اس سے لکھواتی ہے”۔ اور یہ تحریر جس میں مصنف اپنی حیات کے ہر لمحے پر مطمئن و شاد دکھائی دیتا ہے اور اس تحریر میں مقصد حیات کو سمجھانے میں بھی بڑی مہارت سے کام لیتا ہے۔ اس امر کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب میں اس طور پر کیا ہے۔ “جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں اپنی زندگی سے 100%تک مطمئن ہوں۔ اگر مجھے دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے اور مجھے اپنا کردار منتخب کرنے کا اختیار بھی ہو تو بھی میں ”امتیاز گلیانوی”کا کردار ہی لوں گا ۔ میرے رب کا شکر ہے کہ اس نے مجھے رزق حلال عطا کیا اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دی۔ میر ی زندگی میں کبھی بھی ایسا موقع نہیں آیا۔ جب مجھے اپنے ضمیر کو گروی رکھ کر کسی انسان کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑے ۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جتنا میں نے لکھا اس سے بہت زیادہ لکھ سکتا تھا۔ اور کچھ ایسی تحریر بھی صفحہ قر طاس پر لاسکتا تھا۔ جو صدیوں تک پڑھی جاتی لیکن میں صرف ایک لکھاری نہیں ایک بیٹا، ایک بھائی، ایک شوہر اور ایک باپ بھی ہوں ۔ اور میرے رب کا صد شکر کہ یہ سارے رشتے مجھ سے راضی و خوش ہیں اور اس کو میں اپنی کامیابی سمجھتا ہوں۔
امتیاز گلیانوی نے جب اپنی داستان حیات کو قلمبند کرنا شروع کیا تو بقول ان کے نصف صدی سے زائد عرصہ کو لفظوں میں قید کرنے کیلئے ایک سال سے زائد عرصہ صرف ہوا۔ جس سے یہ بات بھی بہت واضح و عیاں ہوتی ہے کہ جہاں امتیاز گلیانوی کو رب کریم نے اور بہت سے خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے وہاں ان کو حافظہ بھی اعلیٰ درجہ کا اور یاداشت بھی کمال کی نوازی ہے کہ جنہوں نے جب داستان حیات کو ترتیب دینا شروع کیا تو داستان 3800صفحات پر جا کر مکمل ہوئی۔ اس بارے میں ان کے اپنے الفاظ ہیں” یوں ہی لکھتے لکھتے جب داستان مکمل ہوئی تو کتاب کے تقریباً 3800صفحات بن گئے یہ میرے انداز ے سے بہت زیادہ ہے۔ اتنے زیادہ صفحات نے مجھے پریشان کر دیا اور اب میں سوچنے لگا کہ کیا کروں۔ کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ کتاب کو چار یا پانچ جلدوں میں چھپوا لوں مگر میرا دل نہ مانا کافی سوچ بچار کے بعد میں نے کتاب کو مختصر کرنے کا فیصلہ کیا پھر میں نے کتاب کی اس طرح سے کانٹ چھانٹ کی کہ جیسے کوئی نرم دل ڈاکٹر بہت ہی دکھی دل کے ساتھ کسی اپنے کا آپریشن کرتا ہے “۔
امتیاز گلیانوی کی اس تحریر سے ایک بات تو بہت ہی واضح ہوتی ہے کہ وہ اپنے تحریر کردہ لفظوں سے کس قد ر پیار کرتے ہیں ان کو ایک ایک لفظ لاڈلا محسوس ہوتا ہے اور پوری تحریر سے محبت کاجذبہ تو ان کی دل میں ہر وقت جوان رہتا ہے ۔ امتیاز گلیانوی کو اس تحریر سے محبت اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں سے ہی ہو گئی تھی اور بچپن سے ہی وہ کتابیں پڑھنے اور پھر لکھنے کی کوشش میں بھی مصروف ہو گئے اور ایسی دلچسپی سے مصروف ہوئے کہ جوانی تک انہوں نے اُردو ، پوٹھوہاری اور انگریزی ادب کی شاہکار کتب فراہم کیں۔ جن میں “چھوٹا منہ بڑی بات”، “باقی سب خیریت ہے”، قلم میں بند پندرہ سال، روشن ستارہ، سدھراں نال سیک، The Triangle of Lifeشامل ہیں جب کہ امتیاز گلیانوی کی 20کے لگ بھگ کتب بھی امتیاز گلیانوی کے قلم سے اپنا وجود منوا چکی ہیں جن میں کچھ زیر اشاعت ہیں اور کچھ شائع ہو چکی ہیں۔
“امتیاز نامہ “اور امتیاز گلیانوی نے دیگر تصانیف میں ایک خوبصورتی یہ ہے کہ قاری جب کتاب پڑھنے کیلئے کھولتا ہے تو پھر کتاب کی تحریر کا حسن اس کو جھکڑ لیتا ہے وہ کتاب کو آخر دم تک پڑھے بغیر چھوڑ نہیں سکتا اور میرے خیال میں جب قاری اور تخلیق اور تخلیق کار کی یہ مثلث قائم ہو جائے تو یہ بخوبی کہا جا سکتا ہے تخلیق کار کی تخلیق نے وہ پذیرائی حاصل کر لی ہے جو کسی اعلیٰ درجے کے تخلیق کار کے حصہ میں آتی ہے۔ “امتیاز نامہ” جب سے شائع ہوا ہے اس کی پذیرائی میں روز بر وز اضافہ ہوتا جارہا ہے آئے روز اس کی پذیرائی کی تقریبات کا انعقاد دنیا کے مختلف ممالک میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ جس سے “امتیاز نامہ “کی مقبولیت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔
امتیاز گلیانوی کو خوبصورت تحریر کا فن حاصل کرنے میں جو سب سے مفید طریقہ اپنانا پڑا وہ مطالعہ کتب ہی تھا ۔ جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں ” اصل میں مجھے جو کہا نیوں کی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور یہ کتابوں کا مطالعہ ہی تھا۔ جو مجھے باقی ساتھیوں سے ممتازکر رہا تھا۔ مطالعہ کی وجہ سے میں نصاب سے ہٹ کر سوالوں کے جواب دے پاتاتھا”۔ اور اسی مطالعہ کے زیر اثر ہی امتیاز گلیانوی نے لکھنا شرو ع کیا جس کے بارے میں وہ “امتیاز نامہ “میں لکھتے ہیں “اسی دوران مجھے تھوڑا تھوڑا لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا میں نے کچھ کہانیاں لکھی جو اس وقت مختلف ڈایجسٹوں میں چھپتی رہی۔ یہ غالباً میٹرک کا امتحان دینے کے بعد کی بات ہے”۔
چونکہ امتیاز گلیانوی نے اپنی داستان حیات میں تین ہجرتوں کا ذکر کیا ہے جو کہ پہلی ہجرت انہوں نے 1993؁ء میں سعودی عرب کیلئے کی اور اس ہجرت کے نتیجے میں ادبی فن پارہ “چھوٹا منہ بڑی بات”ادبی منظر نامے پر ابھرا اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ “چھوٹا منہ بڑی بات “کے تقریباً سارے کے سارے مضامین جو کہ فکائیہ انداز میں لکھے گئے تھے سعودی عرب کے اسی گارڈن آفس الخبردمام میں بیٹھ کر ہی لکھے تھے “۔اپنی دیگر کتب کے حوالے سے اپنی ہجرتوں کی بطن سے وہ اپنی تحریر کی اشاعت کا اولین مقصد کبھی نہ بھولے اسی لیے وہ لکھتے ہیں “یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ میں نے ایک کتاب سعودیہ میں لکھی ، دو پاکستان میں لکھیں ایک اٹلی میں اور ایک انگلینڈ میں بیٹھ کر لکھیـ”۔ اور ان تصانیف کے حوالے سے جو پذیرائی ملی وہ بقول امتیاز گلیانوی کہ” الحمد للہ میرے ادبی کام کو نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی خوب پذیرائی ہوئی۔ آنے والے سالوں میں اٹلی، فرانس ، جرمنی، ہالینڈ، بلجیم، سعودی عرب اور دوبئی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں میرے اعزا ز میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور تا دمِ تحریر مجھے 27سے زیادہ ایوارڈ سے نوازا گیا”۔
اب “امتیاز نامہ” کی اشاعت کے بعد امتیاز گلیانوی کی اس ادبی کاوش کو بھی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیا کے مختلف ممالک میں امتیاز گلیانوی کو بے شمار ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ مزید وسعت اختیار کرے گا اور امتیاز گلیانوی کی تحریر یں ادبی دنیا میں اپنا مقام بنا کر اس کی کرنوں سے ادب کے متوالوں کے دلوں کی تسکین کے باعث بنتی رہیں گی۔ اس ضمن میں امتیاز گلیانوی “امتیاز نامہ” میں رقم طراز ہیں کہ ” بچپن سے لیکر تا دم تحریر تخلیقی و تحقیقی کام جاری و ساری ہے۔ لکھنا پڑھنا میرے خون میں شامل ہے اور جب تک خون میں روانی ہے یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا” ۔ “امتیاز نامہ” میں امتیاز گلیانوی نے اپنی دوسری ہجرت اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ اور سچائی کے ساتھ پیش کیا جس سے ان کی زندگی کی اپنی ایک خوبصورتی الگ سے دکھائی دیتی ہے اور قاری کے دل پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دوسری ہجرت کی پوری جدو جہد کا مشاہدہ کرنے کے بعد قاری کے دل میں امتیاز گلیانوی کی قدر و منزلت میں بے حد اضافہ فطرتاً ہو جاتا ہے کہ ایک خلوص دل اور نیک نیتی کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات حیات قاری کے دل میں قدرتی طور پر مصنف کیلئے محبت کے درواکر دیتے ہیں۔ اور پھر قاری ابھی دوسری ہجرت کے سحرسے نکل نہیں پاتا کہ اس کے سامنے تیسری ہجرت کے سارے منظر ترتیب کے ساتھ آنے لگتے ہیں اور یہ منظر اپنے اندر ایک خاص کشش، رشتوں کی مہک ، خلوص کی چاشنی لیے قاری کو مبہوت کر دیتے ہیں اور جب کوئی منظر قاری کو اپنی جانب اس قدر متوجہ کر دے کہ قاری کچھ اور دیکھنے اور سوچنے کی طرف راغب ہی نہ ہو تو اس سارے عمل اس ساری کشش کو تخلیق کار کی فنی مہارت کا اعلیٰ درجہ پہ ہونا تسلیم شدہ سمجھا جاتا ہے۔
امتیاز گلیانوی کی زندگی کے خوبصورت گوشے جب قاری پر عیاں ہوتے ہیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ زندگی کے عام سے واقعے کو امتیاز گلیانوی نے ایک خاص انداز میں تحریر کر کے کس قدر دلچسپ بنا دیا ہے اور یہی امتیاز گلیانوی کی ادبی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ امتیاز گلیانوی نے زندگی میں محنت اور سیدھے رستے کو کامیابی کا زینہ قرار دیا ہے وہ “امتیاز نامہ ” میں لکھتے ہیں۔
“میرا اپنا تجربہ ہے کہ انسان اگر اللہ پر بھروسہ کرے اور صبر کے ساتھ محنت کر ے تو انسان بہت ترقی کر سکتا ہے اور جتنا چاہے رزق حلال کما سکتا ہے ویسے بھی زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے جو لوگ جلد بازی میں راتوں رات امیر ہونا چاہتے ہیں وہی غلط کاموں کی طرف جاتے ہیںاور رزق حرام کما کر اپنی دنیا و آخرت دونوں خراب کرتے ہیں”۔
امتیاز گلیانوی نے نامعلوم مختصر راستوں کی بجائے طویل مگر سیدھے راستے کو ترجیح دی اور اپنے قلم کے ذریعے دوسروں کو اس کی ترغیب بھی دی۔
آپ بیتی چونکہ زندگی کا حقیقی عکس ہوتا ہے اور اس میں سچائی کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ امتیاز گلیانوی نے واقعات حیات بیان کرتے ہوئے سچ کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔ اور بڑی ہمت اور بے باکی سے سچ کی آبیاری کی وہ “امتیاز نامہ” میں رقم طراز ہیں “کہ برسوں پہلے میں نے قلم پکڑنا اور لکھنا سیکھا تھا۔ میرے جسم اور میرے ذہن نے اس کام میں ہمیشہ میرا خوب ساتھ دیا۔ میں جب بھی قلم ہاتھ میں پکڑ کر لکھنے بیٹھا تو بہت سے مضامین میرے ذہن کے رستے قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر جلوہ نما ہو جاتے۔ مگر جب بیلچہ پکڑنے کی باری آئی تو نہ جانے کیونکہ جسم و جاں باغی ہو گئے ہاں مگر ایک بات ضرور تھی جو کچھ بھی تھا وہ میرے اندر تھا بظاہر میں ایک بہترین مزدور کے طور پر کام کر رہا تھا اس بات کا ثبوت مجھے اس وقت ملا جب میں نے شام کو پانچ بجے کام مکمل کر کے چھٹی کی تھی”۔
ایک ادبی شخصیت اور ایک مزدور کے طور پر کام یہ دومختلف انداز اختیار کر کے عملی زندگی میں جہد مسلسل کا بہترین
اظہار ہیں۔ امتیاز گلیانوی نے اپنی حیات کے مراحل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خوبصورت سوچ اور فکر کو بھی اپنی تحریر میں جا بجا سجایا ہے ۔ جس سے قاری کو زندگی گزارنے کیلئے راہنمائی میسر آتی ہے۔ وہ زندگی کو اور اس میں تمام تر جدو جہد کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں اور پھر اس سے کہیں زیادہ موثر انداز ہیں بیان کرتے ہیں امتیاز گلیانوی لکھتے ہیں کہ
“مجھے سننے میں جولفظ سب سے بُرا لگتا ہے وہ سیلف میڈ(Selfmade)مطلب کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں یہ سب کچھ میں نے اپنی محنت اور ذہانت سے حاصل کیا ہے میرے خیال میں یہ لفظ سیلف میڈ بول کر ہم اس شخص کی توہین کرتے ہیں جس نے ہمیں کامیاب بنانے میں کسی قسم کا بھی کردار ادا کیا ہے ۔
ہمارے والدین، بہن ،بھائی،دوست عزیز، رشتہ دار، اور وہ جنہوں نے ہماری کامیابی کیلئے دعا ئیں کی۔ ہم ان سب کے وجود کی نفی کرتے ہیں بلکہ یہ لفظ بول کر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کی بھی نفی کرتے ہیں جس کے فضل سے ہم کامیاب ہوتے ہیں ورنہ ہم سے زیادہ پڑے لکھے عقلمند لوگ ہم سے بہت کم تر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں”۔
امتیاز گلیانوی نے زندگی جیسے گزاری وہ حقیقی رنگ میں ہم سب کے سامنے رکھ دی ہے اب قاری اس میں سے اپنی بہتری کیلئے کیا اخذ کرتا ہے یہ قاری کا اپنا انتخاب ہے لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ زندگی گزارنے کا حقیقی گر” امتیاز نامہ” کی تحریر میں واضح و عیاں ہے۔
امتیاز گلیانوی کی داستانِ حیات”امتیاز نامہ “میں بہت سے عنوانات ایسے ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ زندگی میں ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ ان عنوانات میں جو عنوان “میرا اسم اعظم”، میرے والدین ہیں۔ اس میں امتیاز گلیانوی کی شخصیت اور کردار اس بلند مقام پر نظر آتا ہے جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے ۔ وہ ایک صالح اولاد کی حیثیت سے اپنے والدین کے بارے میں لکھتے ہیں “ہر انسان کیلئے ایک اسم اعظم ہوتا ہے زیادہ تر کو اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ چند لوگوں کو اس کا پتہ تو چل جاتا ہے مگر اسے سمجھ نہیں پاتے۔ میں خود کو ان چند خوش نصیب لوگوں میں شمار کرتا ہوں جن کو اسم اعظم کا نہ صرف پتہ ہے اور سمجھ ہے بلکہ اسم اعظم کو مجسم شکل میں دیکھا بھی ہے ۔ میرا اسم اعظم حاجی ممتاز علی اور نذیر بیگم میرے والدین ہیں۔ نہ صرف میرا اسم اعظم بلکہ میری محبت ، میرا ایمان اور میرا قبلہ و کعبہ میرے والدین ہی ہیں۔ اللہ ان کا سایہ ہمیشہ میرے سر پر قائم رکھے۔ آمین”۔
امتیاز نامہ کے حقیقی رنگ اتنے گہرے ہیں کہ قاری کی آنکھوں میں “امتیاز نامہ “پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر نمی محسوس ہوتی ہے اور کسی ایک مقام پر تو یہ نمی مصنف کی تحریر سے متاثر ہو کر چھلک پڑتی ہے اور جب قاری مصنف سے اس قد ر جذباتی تعلق و وابستگی میں بذریعہ تحریر چلا جائے تو یہ لکھنے والی کی تحریر کی خوبی اور تاثیر ہے کہ تخلیق کار نے اپنی تخلیق کو اس خلوص اور جذبے کے ساتھ نقش کیا کہ اس کو باثروت بنا دیا ۔ اور یہ کمال فن ہے آپ بیتی میں یہ سارے جذبے شامل کر کے امتیاز گلیانوی نے آپ بیتی کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
امتیاز گلیانوی کی داستان حیات میں سادہ زبان اور اظہار کا انداز بے تکلف ہے جس کی تحریر میں اپنی ایک کشش ہے اور یہی کشش امتیاز گلیانوی کے بے ساختہ اسلوب کی پہچان بھی ہے۔ زندگی کے بہت سے ایسے موڑ ہوتے ہیں جن پر بات کرتے ہوئے زبان ہچکچانے لگتی ہے لیکن امتیاز گلیانوی انہیں پوری ہمت اور حوصلے سے بیان کر دیتے ہیں۔ یہی وصف ان کی دلکشی تحریر کا خاصا ہے اور اسی کی بدولت تحریر کی شیریں تاثیر بھی واضح محسوس ہوتی ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ کریم امتیاز گلیانوی کو صحت و سلامتی عطا فرمائے کہ اور ان کی تحریر سے ادب کی متلاشی تسکین حاصل کرتے رہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply