شہید کی منگیتر کی خود کلامی

زندگی سے فرار ممکن نہیں جتنی لکھ دی گئی جینی ہی پڑتی ہے۔۔کبھی کبھی نا چاہتے ہوئے بھی! اگرفرار ممکن ہوتا نا تو میں اسی دن یہاں سے کسی اور دنیا میں فرار ہو گئی ہوتی۔۔تم یہاں نہیں ہو،اور وہ دنیا۔۔وہاں بھی شاید تم نہ ہوتے پر یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ میں نے تمھیں کھودیا!
یہ خیال بھی نہ ہوتاکہ تم کہاں گئے؟یہ ملال بھی نہ ہو تا کہ کاش میں بھی تمھارے ساتھ ہوتی،ساتھ جا سکتی۔۔لیکن کیسے؟

کیڈٹ کالج کے ہاسٹل میں موت کے سوداگروں سے لڑتے جس دھماکے کی آواز تم نے سنی اس کی گونج سے میرے کان آج بھی سائیں سائیں کر رہے ہیں۔

کیا کچھ تھا جو اس دھماکے کے بعد چیتھڑوں میں بکھر کر کمرے کے درودیوار،چھت اور فرش سے چپک گیا اور پھر اگلی صبح اکٹھا ہو کر ایک پوٹلی کی صورت ہم تک واپس آن پہنچا ۔۔ایک ماں کے ستائیس سال کے لمحہ لمحہ دیکھے خواب کہ جن کی تعبیر کا وقت قریب تھا،ایک باپ کے بڑھاپے کی چھڑی جس نے قدم قدم پر رستہ ٹٹول کر آگے بڑھ کر سمت دکھانا تھی،چار بہنوں کے مستقبل کا معمار اور میری کُل کائنات!
جسے بہت سے لوگ اسی پوٹلی میں باندھے مٹی کے حوالے کرنے جا رہے تھے اور میری انگلی میں تمھارے نام کی انگوٹھی مجھ سے اپنے مقدر کا پتہ پوچھ رہی تھی۔۔۔لوگ کہہ رہے تھے،رؤو مت،وہ شہید ہے!

تم شہید ہو اور میں غازی کہ جسے اب اپنی باقی ماندہ زندگی تمھارے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں سے وفا کرتے گزارنی ہے!
لیکن یہ غم جان لیوا ہے کہ کونج رستہ بھولی نہ بھٹکی بلکہ جانے پہچانے شکاری کا شکار بنی۔۔کُرلا بھی نہ سکی۔

کئی صبحوں نے شاموں کی دبیز شال اوڑح لی،شامیں گہرے سوگ میں ڈوب گئیں اور لوگ کہتے ہیں کہ تم شہید ہو۔۔آج تمھاری شہادت کے چھٹے روز جو ہماری مہندی کا دن مقرر تھا میں پیلا نہیں سیاہ رنگ پہنے ہوں ،گجرے کی وہ گلیاں جو مجھ سے دو رہ کر بھی تمھیں میری خوشبو کا احساس دلاتی تھیں تمھاری قبر پر دھر آئی ہوں کہ وصل ِ یار کی خواہش کو موت کہاں۔۔اور میری حسرتوں کا طواف کرتی رات کے سناٹے میں تمھاری دلربا سی سرگوشی۔۔

سنو!میں جلد واپس آؤں گا۔

تو پھر کہاں ہو؟۔۔انجانے رستوں کی دھول میں منزل بھی کھو گئی،راہنما خود رستہ بھول بیٹھا،پنچھی کو خبر ہی نہ ہوئی گھونسلہ کب تنکا تنکا بکھر کر سرکش ہواؤں کا رزق بنااور تمھارا وعدہ۔۔
سنو!میں جلد واپس آؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگ کہتے ہیں تم شہید ہو۔۔اور میں غازی کہ جسے اب پنی باقی ماندہ زندگی تمھارے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں سے وفا کرتے گزارنی ہے!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply