• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • علی گیلانی ۔تمہارے رستے میں روشنی ہو ۔۔عطا ء الحق قاسمی

علی گیلانی ۔تمہارے رستے میں روشنی ہو ۔۔عطا ء الحق قاسمی

سید علی گیلانی کی رحلت، ان کی نئی زندگی کی شروعات ہے ۔میں نے نیلسن منڈیلا کے بعد اگر کسی کو پوری جوانمردی کے ساتھ ظلم کے خلاف برسر پیکار دیکھا ہے تو وہ سید علی گیلانی ہیں ۔حریت رہنماؤں کی بے مثال قربانیوں کا میں دِل سے قائل ہوں ۔’’شبیر ملک ‘‘ نے تو اتنا تشدد برداشت کیا کہ ان کی آنکھوں کی بینائی ہی چلی گئی ۔ سید علی گیلانی کے لئے میرے دل میں جو بے پناہ عقیدت ہے وہ ان کی پیرانہ سالی، اور مختلف جسمانی عوارض کے باوجود باطل کے سامنے آخری سانس تک ڈٹ جانا ہے ،ان کی وفات فرقہ پرست مودی کے دور حکومت میں نظربندی کے دوران ہوئی ۔سیدپاکستان کے عاشق تھے اور اپنی وصیت کے مطابق انہوں نے پاکستانی پرچم ہی کو اپنا آخری لبادہ بنایا!
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں صورتحال یہ ہے کہ پوری وادی میں شدید نوعیت کا کرفیو نافذ ہے۔ گلیاں،محلے خاردار تاریں لگا کر بند کر دیئے گئے ہیں۔انٹر نیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے ،سید کی میت کو پولیس نے زبردستی اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی تو مزاحمت کے دوران سید کا بیٹا اور بہو زخمی ہوگئے۔مقبوضہ وادی کشمیر، آزاد کشمیر اور پورا پاکستان آج اداس ہے مجھے یقین ہے وادی کے عوام اور حریت رہنمائوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور ایک دن وہاں آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا ۔ میں آج کے کالم میں کشمیر کے حریت پسند عوام کے تجاہل ’’کاہلانہ ‘‘کےحوالے سے اپنی ایک نظم کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ سید علی گیلانی دوسرے کشمیری رہنمائوں اور کشمیری عوام کی بے پناہ قربانیاں ہمارے حکمرانوںکے دل بھی پگھلائیں اور وہ پاکستان کی شہ رگ کو ظالموں کے شکنجے سے نجات دلانے کے لئے ہر قومی اور بین الاقوامی فورم اور دیگر ذرائع استعمال کریں۔
تمہارے رستے میں روشنی ہو!
میں کتنا نازاں ہوں اپنے لکھے ہوئے
حروفِ شگفتگی پر
میں سوچتا ہوں خدا نے مجھ کو ہنر یہ کیسا عطا کیا ہے
کہ میرے لفظوں کو خلعت فاخرانہ دے کر
مرانصیبہ جگا دیا ہے
میں لاکھوں لوگوں کے آنسوؤں کو
میں ان کی افسردہ خواہشوں کو
میں ان کے پھیلے ہوئے دکھوں کو
سمیٹ لیتا ہوں اپنے دامن میں
میں اپنے ہنستے ہوئے قلم سے
میں اپنے لفظوں کے زیر وبم سے
انہیں غموں سے نکالتا ہوں
اداس چہروں پہ مسکراہٹ کی روشنی جب طلوع ہوتی ہے
میری آنکھوں میں اک ستارہ خوشی سے رقصاں
پلک کی دہلیز تک پہنچتا ہے اور حیرت سے سارے بدلے ہوئے مناظر کو دیکھتا ہے
مگر یہ قصہ بہت پرانا سا ہو گیا ہے
’’میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘
کہ چار سو روشنی ہے اور بے شمار آنکھیں
غزالی آنکھیں
مرے لہو میں اتر رہی ہیں
میں پوچھتا ہوں کہ اس نگر میں یہ روشنی کا غبار کیسا ؟
ہواؤں میں یہ خمار کیسا ؟
فضاؤں میں اک صدا ابھرتی ہے
اور کہتی ہے
یہ شہیدوں کے خون کی مشعلیں ہیں، جن سے
نگر نگر میں ہوا چراغاں
یہ ماؤں، بہنوں کی، بیٹیوں کی سروں سے ’’اتری ردا کا صدقہ!
یہ روشنی سیب جیسے گالوں، گلوں میں
نیزوں کو زیوروں کی طرح پرونے سے
ہر دریچے سے آ رہی ہے
عجیب منظر دکھا رہی ہے
کہ نقدجاں ہاتھ میں ہے اور بے شمار راہی بقا کے رستے پہ گامزن ہیں!
میں دیکھتا ہوں کہ ایک عورت کہ جس کے چہرے پہ مامتا ہےکہ جس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی رواں ہے وہ اپنے بچے کی لاش پلکوں کی رہگزر پہ لئے کھڑی ہے
میں پوچھتا ہوں تمہیں ضرورت ہے میرے لفظوں کی
میں لاکھوں لوگوں کے آنسوؤں کو،سسکتی دم توڑتی رتوں کو،فضا میں پھیلے ہوئے دکھوں کو
میں اپنے لفظوں کے زیروبم سے
اداس چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرتا ہوں
تمہیں ضرورت ہو میرے لفظوں کی تو بتائو
یہ سن کے اس نے گلاب بچے کا ماتھا چوماپھر اس کے بہتے لہو میں انگلی ڈبو کے اس نے یہ حرف لکھے
خدا کرے میرے دکھ سلامت رہیں کہ ان سے ہمارےرستوں میں روشنی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

تمہارے رستوں میں ایک عرصے سے راحتوں اور سہولتوں نے، گھنے اندھیروں کا روپ دھارا
سہولتوں کا غبار جس نے تمہارے رستے چھپا دیے ہیں
وفا کے تارے بجھا دیئے ہیں
یہ مات کھائے کچھ اس طرح سے کہ جتنے منظر ہیں تابہ منزل
وہ جگمگائیں، تمہاری آنکھوں میں مسکرائیں!
یہ دکھ وہ شعلہ بنے کہ جس سے کہیں نہ امکان تیرگی ہو
تمہارے رستے میں روشنی ہو!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply