• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • طالبان کا گزشتہ اور موجودہ دور: خدشات و توقعات۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

طالبان کا گزشتہ اور موجودہ دور: خدشات و توقعات۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

15 اگست 2021ء کو کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے تناظر میں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے فرمایا ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں۔ یہ بیان ایک خواب اور آئیڈیل تو ہے، لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ حل ہمیشہ فوجی ہی ہوتا ہے۔یہ دنیا طاقت ہی کی زبان سمجھتی ہے۔ افغانستان میں جب تک زیادہ طاقت ور فریق موجود تھا، اس کا بیس سال غلبہ رہا۔ اب وہ چلا گیا ہے تو لا محالہ اسی فریق نے قابض ہونا تھا ، جو موجود گروہوں میں زیادہ طاقت ور تھا۔ پاکستان میں اگر ٹی ٹی پی وغیرہ فریق ناکام ہیں تو اسی وجہ سے کہ پاکستانی فوج سے زیادہ طاقت ور فریق یہاں موجود نہیں۔پاکستانی فورسزاگر اشرف غنیانہ فورسز کی طرح کی ہوتیں تو پاکستان پر بھی ٹی ٹی پی کا غلبہ ہوتا۔ اور جب کبھی کوئی ایسا گروہ آیا جو پاکستانی فوج سے زیادہ طاقت ور ہوا ، تو اسی کا غلبہ ہوگا۔ تو یہ بات تو طے ہے کہ دنیا میں فیصلہ کُن عامل طاقت ہی ہے۔

طاقت کے بعد دیکھنے کی اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ طاقت ور کا نظریہ اور وژن کیا ہے ؟وہ اپنی طاقت کا اندازہ کیا رکھتا ہے؟ دنیا اور اس کی طاقت کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ وہ اپنے مغلوبین کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے؟ ان کو کتنی سپیس دیتا ہے؟ اپنے ہمسایوں اور دنیا سے معاملات کیسے کرتا ہے؟ یہ چیزیں ہر طاقت ور میں ظاہر ہے کہ مختلف ہو سکتی ہیں اور معاشروں اور دنیا میں اس کی پذیرائی اور قبولیت میں ان چیزوں کا بنیادی کردارہوتا ہے۔اس نکتے پر جو طاقت ور گروہ معاصر دنیا اور اس میں اپنی حیثیت کا بہتر ادراک کر لیتا ہے اور اپنے معاملات اس کے مطابق آگے بڑھاتا ہے، وہی کامیاب رہتا ہے۔

جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے، تو ان کا گزشتہ دورِ  اقتدار اور موجودہ غلبہ شاہد ہے کہ وہ افغانستان میں سب سے طاقت ور فریق ہیں۔لیکن جو بات ان کو کبھی نہ بھولنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک علاقے یا ملک میں قبضے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آپ ساری دنیا سے طاقت ور ہیں اور اس کو بزور اپنے قابو میں کر سکتے ہیں۔گزشتہ دور میں جب طالبان نے کابل فتح کیا تو ہمارے پاکستانیوں نے نعرے لگائے اور کئی لوگوں نے وفورِ جذبات میں یہ دعائیں بھی کیں کہ طالبان اسلام آباد بھی فتح کر لیں۔ آج پھر وہی پوزیشن ہے۔ہم نے چند دن پہلے اپنی ایک تحریر میں یہی عرض کیا تھا کہ کابل فتح ہوتے ہی ہمارے ہاں اسی طرح کے نعرے سننے کو ملیں گے ، جو طالبان کے گزشتہ قبضے کے دوران میں لگائے جاتے تھے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُ س زمانے کے طالبان کے حمایتیوں اور خود طالبان نے بھی اس حقیقت کو نہ سمجھا کہ کابل کی فتح کا مطلب واشنگٹن، دہلی یا اسلام آباد کی فتح نہیں ہے۔اس دور کے طالبان کے رویوں سے واضح تھاکہ ان میں جذبۂ جہاد بھی ہے، اورملک کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا ذوق و شوق بھی، لیکن معاصر دنیا کا فہم اور دنیا میں اپنی حیثیت کا درست اندازہ نہیں۔چنانچہ وہ اس زعم میں مبتلا ہوئے یا کر دیے گئے کہ وہ دنیا کی ہر طاقت کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ القاعدہ وغیرہ گروہ ان کے یہاں آ کر اکٹھے ہونے لگے، جن کی کارروائیاں خود ان کے لیے سخت نقصان دہ تھیں، مگر افسوس وہ اس کا ادراک نہ کر سکے۔انھوں نے ایک طرف مذہبی حوالے سے آمرانہ اورسخت گیر رویہ اپنایا ، جس کی بنا پر دنیا میں رفتہ رفتہ ان سے اجنبیت بڑھنے لگی اور دوسری طرف اپنی سرزمین کودنیا کے خلاف استعمال ہونے سے نہ روک سکے۔ اسی دوران نائن الیون ہوگیا۔اس کے بعد بھی انھوں نے بصیرت سے کام نہ لیا۔ اس وقت مسئلہ یہ نہیں تھا کہ امریکہ اسامہ بن لادن کے معاملے میں درست کہہ رہا ہے یا غلط؟اصل مسئلہ یہ تھا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین کو ایک بدمست ہاتھی سے، جس کی طاقت معاصر دنیا میں مسلمہ ہے،کیسے بچایا جائے۔ حضورﷺ کی سیرتِ طیبہ سے روشنی لیتے تو صلح حدیبیہ کی طرح کمزور پوزیشن لے کر بھی اپنی حکومت ، افغانستان اور پورے عالم اسلام کو ایک بڑی تباہی سے بچایا جا سکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے طالبان اتنے میچور نہ نکلے اور نتیجتاً افغانستان بھی تباہ ہوا اور پاکستان وغیرہ اسلامی ممالک نے بھی شدید نقصان اٹھایا۔

ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ طالبان کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنے نظریے کے مطابق ڈھالنے کی بجائے پہلے صرف افغانستان پر فوکس کریں اور سرِ دست اسی کو اپنے نظریے کے مطابق ایک اچھا ، خوشحال اور پُر امن معاشرہ بنا نے کی کوشش کریں اور آج کے طالبان کے لیے بھی یہی جذبہ ہے کہ وہ کابل کی فتح کو کابل ہی کی فتح سمجھیں اور افغانستان پر فوکس کریں۔ اگر ان کے نظریے کے ثمرات یہاں نظر آئے تو باقی دنیا ان کے نظریے کی طرف خود بخود متوجہ ہو جائے گی۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں راتوں رات نہیں آتیں۔ مغرب اور امریکہ کی اقدار و تہذیب کے موجودہ غلبے کے پیچھے ان کی صدیوں کی تاریخ ہے۔ اہلِ اسلام اب جس پوزیشن میں ہیں ان کو اپنی اقدار اور تہذیب کی طاقت ثابت کرنے کے لیے وقت لگے گا اور اس کی عملی صورت دکھانی ہو گی۔اپنے پہلے دور میں طالبان نے اسلامی تہذیب کی ان اقدار میں سے بعض کی جھلک دنیا کو دکھائی ، مثلاً وہ فوری انصاف اور امن و امان میں بہتری لانے میں کامیاب ہوئے، لیکن بدقسمتی سے اپنی متعدد اسلامی تعبیرات، دوسرے مذاہب کے مقدسات اور بعض دیگر حوالوں سے ان کے سخت رویوں نے اس پکچر کو دھند لا دیا اور اسی دھندلی تصویر میں ان کی حکومت ختم ہوگئی ۔ کاش وہ توپ و تفنگ کی بجائے یہ تصویرمکمل کرنے پر فوکس کرتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ غلبے کے تناظر میں طالبان کو باور رکھنا چاہیے کہ ان میں یہ طاقت تب تھی نہ ا ب ہے ،کہ وہ اپنا نظریہ پوری دنیا خصوصاً عالمی طاقتوں پر مسلط کر سکیں، ہاں جب ان عالمی طاقتوں سے زیادہ طاقت حاصل کر لیں گے تو ضرور کوشش کر لیں، لیکن اگر وہ خود یا ان کے خیر خواہ پھر کابل کی فتح کو ساری دنیا کی فتح کا پیش خیمہ سمجھنے لگےاورافغانستان میں گزشتہ دور کی سخت گیر مذہبی تعبیرات کو بزور نافذ کرنے کے درپے ہوئے تو یہ پھر ایک احمقانہ رویہ ہوگا، جو ان کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہو گا اور عالم ِ اسلام کے لیے بھی۔ توقع کی جانی چاہیےکہ انھوں نے بیس سال کی ٹھوکروں سے کافی کچھ سیکھ سمجھ لیا ہوگا اور اب وہ کوئی حکمتِ عملی معاصر دنیا اور اس میں اپنی حیثیت کا درست اندازہ لگا کر ہی اپنائیں گے اور گزشتہ دور کی طرح افغانستان کو اس دنیا کا الگ تھلگ جزیرہ نہیں بنائیں گے، وہ اپنے مذہبی نظریے میں نرمی لائیں گے اور عالمی برادری کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوں گے کہ وہ افغانستان اور پوری عالمی برادری کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں نسبتاً بہتر کردار ادا کر سکنے کے قابل ہیں۔(اور اس توقع کے کئی تائیدی شواہد موجودہ طالبان قیادت میں دکھائی دے بھی رہے ہیں، مثلاً آج ایک انڈین ٹی وی چینل کے اینکر کو افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے پاکستان اور چین کے حوالے سے جو جواب دیا ، اس میں کافی حد تک میچوریٹی محسوس ہوئی، جب اینکر نے سوال کیا کہ خبروں کے مطابق پاکستان آپ کی سپورٹ کے لیے لوگوں کو افغانستان بھیج رہا ہے تو انھوں نے کہا کہ یہ انڈین میڈیا کا پراپیگنڈہ ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں اور چین کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر پوچھا تو انھوں نے کہا کہ وہ ہمارا اچھا ہمسایہ ہے جس کا افغانستان کے حوالے سے کردار قابلِ تعریف ہے۔) ان ارید الا الاصلاح مااستطعت۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply