مائے نی میں کِنوں آکھاں ۔مبارکہ منور

 گزشتہ دنوں پڑوس میں تعزیت کے لیے جانا ہوا، وہاں پہنچے تو ہم سے پہلے بھی کافی خواتین وہاں موجود تھیں. ان میں سے ایک عورت اپنے معزور بچے کے ساتھ آئی  ہوئی  تھی، جس نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی ۔اس بچے کو دیکھ کر پہلی نظر میں تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے چھوٹے سے جسم پر کسی بڑے کا سر رکھ دیا گیا ہے،پھر اس کے بعد اس کا چھوٹا سا سینہ آگے کی طرف سے پھولا ہوا دکھائی دیا ،اور اسی سیدھ میں پیچھے سے بھی کمر کوہان کی طرح نکلی ہوئی تھی یعنی آگے پیچھے دونوں جانب سے سینہ پھولا ہوا تھا. چھوٹے چھوٹے سے بازو اور چھوٹی چھوٹی ٹانگیں. بازوؤں کی حرکت تو نارمل تھی لیکن اس بچے کی ٹانگیں غیر فطری انداز میں مُڑی تُڑی سی پڑی تھیں. کئی  بار کن انکھیوں سے دیکھنے کے بعد آخر میں نے اس بچے کی ماں کو مخاطب کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پوچھا کہ آپ کے بچے کی ایسی حالت کیوں ہے؟

اس خاتون سے پہلے میری بات کا نوٹس خود بچے نے لیا اور میری بات سمجھ بھی لی۔ لیکن خالی خالی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا اس کی خالی نگاہوں کے پیچھے مجھے ایک محسوس کرنے والا صحت مند دماغ نظر آیا. اس کے بعد خاتون میری طرف متوجہ ہوئی  اور کہا اس وقت اس کے بچے کی عمر آٹھ سال ہے اپنے بچے کے مسائل کی جو تفصیل بتائی اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ بچے کے جسم میں ریڑھ کی  ہڈی مقررہ معیار سے کچھ کم ہے جس کے نتیجے میں کولہوں سے نچلے جسم کا دماغ سے رابطہ نہیں اور باقی تمام مسائل کی جڑ یہی ایک مسئلہ ہے. اتنا بتا کر وہ خاتون خاموش ہو گئیں لیکن اس کی خاموشی بھی بولتی رہی اور اس کے دکھوں کے بھید کھولتی رہی.

وہ احوال جو اس نے نہیں دیا میری آنکھوں نے دیکھا. بچے کے گیلے زیر جامے کے نیچے کپڑے کی موٹی تہہ بھی مسلسل اور بے قاعدہ بہنے والے پیشاب کے آگے بند نہ باندھ سکی جس سے خود اس خاتون کی گود بھی گیلی ہورہی تھی اور جو ناگوار   بُو اس بچے سے اُٹھ رہی تھی اس میں اس کی ماں بھی برابر کی شریک تھی. کسی نے سچ ہی کہا کہ دنیا میں اولاد سے بڑا کوئی سکھ نہیں اور اولاد سے بڑا  بھی کوئی دکھ  نہیں۔وہاں ایک کے بجائے میں نے دو معزور دیکھے بلکہ ماں کی معزوری اور دکھ بچے سے کہیں سوا تھی. میں نے اس خاتون کو بے بسی اور لاچاری کی انتہا پر دیکھا جو اپنے بچے کے صحت مند دماغ کے ساتھ اس کا نیم مردہ جسم ڈھوتی پھرتی ہے اور بھری محفل میں بھی اس کے ناکارہ وجود کو اپنے جگر سے لگائے بیٹھی تھی.

Advertisements
julia rana solicitors

اسی تسلسل میں مجھے وہ خبر یاد آئی جس کے مطابق رواں سال دسمبر میں ہونے والا “ہیومن ہیڈ ٹرانس پلانٹ” کا متوقع تجربہ ہے کیا معلوم وہ ایسے ہی دکھیاروں کے لیے زندگی کی نئی نوید ہو گو کہ اس تجربے پر صحت مند افراد کو کئی  تحفظات ہیں لیکن ایسے مریض کے لیے میں سمجھتی ہوں کہ “مرتا کیا نہ کرتا” والی بات ہے لیکن شاید اس تجربے کی کامیابی کے بعد بھی اس علاج تک رسائی کے لیے ہمارے دور دراز دیہات کو ایک طویل اور صبر آزما مدت گزارنی پڑے گی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply