• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اردو یا ہندی ؟ استعماری ، ملی یا عوامی زبان ؟(3،آخری قسط)۔۔نوید علی

اردو یا ہندی ؟ استعماری ، ملی یا عوامی زبان ؟(3،آخری قسط)۔۔نوید علی

یہ بھی تھا کہ عوام کی اکثریت تو اس چکر سے لا علم اور بے نیاز ہی تھی۔ جب اکثریت لکھنا پڑھنا ہی نہیں جانتی تھی تو ان کی بلا سے دیوناگری یا نستعلیق ، ہندی یا اردو۔ وہ تو ایک ہی زبان یا اس کے الگ الگ لہجے بول رہے تھے اور آج بھی بول رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لکھ پڑھ سکتے تھے وہ کیا کر رہے تھے ؟ جواب یہ ہے کہ انھیں بہر طور روٹی کمانی تھی۔ انگریزی دور میں تشکیل پانے والے متوسط طبقے نے اپنی مراعات اور مذہبی طبقے نے اپنی مراعات کے چکر میں ملک اور قوم کو فرقہ پرستی اور عصبیت کے حوالے کر دیا اور زبان بھی شکار ہو گئی۔ یہاں ہندو اور مسلمانوں دونوں ہی میں احیا کی تحاریک کا بھی کردار ہے جنہوں نے اپنے حالیہ تجربات حالات اور مشکلات کے آئینے میں ایک ایسے ماضی کی تشکیل شروع کر دی جو کبھی تھا ہی نہیں۔

ان تحاریک کے دانشوروں نے پہلے نتیجہ طے کیا اور پھر اپنے بیانئے کی تشکیل کی ، نتیجہ یہ نکلا کہ جن جن کو اس سہارے کی ضرورت تھی وہ پیچھے ہو لئے اور یوں ایسی تحاریک کی ابتدا ہوئی جو ہندستان کی تاریخ اور حقائق سے دور ایک فینٹسی کی تشکیل کر رہی تھیں ، سب نے اپنے اپنے ہیرو اور ولن چن لئے ۔ اورنگزیب اور شیوا جی ایک مثال ہیں ، دونوں ہی کے کردار بری طرح مسخ کئے گئے۔ یہ ہندو اور مسلم نوکری پیشہ افراد اور دونوں طرف کے مذہبی عالموں کی ایک اکثریت تھی جنہوں نے اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لئے ہندی اور اردو زبانوں کے الگ ہونے کا نظریہ اپنایا ، مذہبی قومیت کے نظریے کو اپنایا، اپنے ہزاروں سال پر پھیلے ماضی کی نفی کی اور نفرت کی ایسی بنیاد ڈالی جو ایسی خلیج بنا گئی جو پاٹی نہ جا سکی۔ نوکری پیشہ افراد مسابقت سے پریشان تھے۔ مسلمان اپنی نوکریوں کے چھن جانے سے ڈرتے تھے جو ہندو اکثریت لے جاتی اور ہندو مسلمانوں کے ان کی تعداد کی اوسط سے زیادہ ملازمتیں ملنے سے نالاں تھے۔ مذہبی عالم اپنی معاشی اور معاشرتی حیثیت کھونے سے ڈر رہے تھے جو بدلتے سماج ، نئے نظریات ، فلسفے اور اقتصادی نظام کی زد پر تھی۔ یہی دو طبقات ہیں جو احیا اور تقسیم کی تحریکوں کے روح رواں بنے۔

یہاں شمس الرحمٰن فاروقی کا ایک انٹرویو بھی یاد آتا ہے جس میں انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تھا کہ محمد حسین آزاد نے کیونکر اپنی کتاب آب حیات میں غیر مسلم شاعروں کا ذکر نہیں کیا ؟ انیسویں صدی تک تو شمالی ہند میں زیادہ تر پڑھے لکھے افراد فارسی رسم الخط ہی استعمال کرتے تھے، فارسی عام تھی اور ادب بھی اسی زبان میں تخلیق پاتا تھا۔ اردو یا ہندوستانی میں لکھنے والوں ،خصوصاً شاعروں کی ایک بڑی تعداد ہندو تھی۔ دکن، گجرات ، صوبہ متحدہ جات وغیرہ میں تو اکثریت ہندو لکھنے اور پڑھنے والوں کی تھی۔ ان کا ذکر تو ایک پوری کتاب کا متقاضی ہے اور پی ایچ ڈی کی سطح کا مقالہ اس موضوع پر لکھا جانا چاہیے اور کیا پتہ لکھا جا چکا ہو۔ ایک کتاب ہے ‘تاریخ شعرا ئے بہار’ مصنف ہیں راز عظیم آبادی، اس کی جلد اول میں ان ہندو شعرا کے نام آتے ہیں : منشی سب سکھ خاکستر، منشی بلاس رائے رنگین، مہاراجہ کلیان سنگھ عاشق، لالہ رام چند، مہاراجہ شتاب راۓ، مہاراجہ رام نراین، منشی بساون لال، راجہ بھوانی سنگھ، منگل سین، راجہ پیارے لال، سنتوکھ راۓ بیتاب، راجہ بہادر، کنور ہیرا لال، لالہ اننت رام، راجہ گنگا پرشاد، منشی منو لال، منشی بھگوان دین، راجہ جے گوپال سنگھ بہادر، گھمنڈی لال حامد، لالہ بندا پرشاد، لالہ ماتا دین، راجہ بابو خفی، منشی بنی پرشاد، لالہ کملا پرشاد، لالہ سیوک رام، جگت بہاری لال، لالہ نند کشور سنگھ، منشی ہری ہر ناتھ، اور حکیم پچھمی پرشاد۔ یہ سب حضرات اردو فارسی رسم الخط میں لکھنے والے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے ہندو اور سکھ نثر نگار اور شاعر ہمیشہ رہے ہیں جن کے بغیر اردو کا کوئی تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔

ہندی اور دیوناگری کی رسمی تعلیم بحیثیت ایک مختلف زبان انگریزی دور میں شروع ہوئی اور ایسے افراد کا ایک طبقہ وجود میں آیا جو فارسی رسم الخط سے ناواقف تھا اور دیوناگری اور انگریزی یا رومن رسم الخط میں ماہر جس میں اکثریت ہندو تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر مسلمانوں پر مشتمل ایک طبقہ بھی ایسی ہی رسمی تعلیم حاصل کر رہا تھا جس میں دیوناگری کے بجائے فارسی یا نستعلیق اور رومن رسم الخط سکھایا جا رہا تھا ۔ یونہی چلتے چلتے یہ چلن بھی شروع ہوا کہ ہندی کو فارسی یا عربی الفاظ سے پاک کیا جائے اور ان کی جگہ سنسکرت متبادل لائے جائیں ۔ ایسا اردو میں نہیں ہوا کہ سنسکرت الفاظ کو نکال دیا جاتا بلکہ اردو میں الفاظ کا اضافہ جاری رہا۔ اس تحریری چلن کا اثر بول چال کی زبان پر بھی پڑا اور تقسیم کے بعد اس چلن کے اثرات مزید دیرپا ہوئے ، مگر بولی جانے والی زبان پھر بھی ایسی ہی رہی کہ آج بھی روزمرّہ سبھی کی سمجھ میں آتا ہے اور ہندی سے عربی یا فارسی کے ان الفاظ کو نکالا نہیں جا سکا جو روزمرّہ ہو چکے ہیں اور ایسے الفاظ ہزاروں میں ہیں ۔ ویسے بھی ہندوستانی ان سب کی زبان تھی جو ہندوستان میں رہتے رہے لہٰذا اس نے ہر زبان سے استفادہ کیا تامل ، تیلگو ، گجراتی، مراٹھی، بنگالی، پنجابی، سندھی، سنسکرت، ملیالم ، عربی، فارسی، ترکی ، پرتگیزی، انگریزی اور کئی مقامی زبانیں سب ہی کے الفاظ ہندوستانی اپنے اندر سموئے تھی۔ زبان کو شدھ یا پاک بنانا کسی طرح ایک بالغ سوچ نہیں تھی۔ اور ایک اور زبان کا ذکر بھی ہو جائے جو تقسیم ہوئی یعنی پنجابی ، اس کا لکھنے کا انداز گرمکھی اور نستعلیق میں تقسیم تھا اور تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت میں صرف ایک ہی رہ سکا ، شکر ہے کہ پنجابی کو ہندو پنجابی ، سکھ پنجابی اور مسلم پنجابی میں تقسیم نہیں کیا جا سکا۔ یہ اعزاز اردو ہی کو ملنا تھا کہ زمین اور تہذیب کے بجائے مذہب سے منسلک کر دی گئی۔ یہاں یہ خیال رہے کہ اردو ہندوستانی ہی کو کہا جا رہا ہے کہ اس کا یہ نام یعنی اردو انیسویں صدی میں رواج پا چکا تھا ، اس کے بعد اس میں سے ہندی کی جراحت کی گئی۔ بیسویں صدی آتے آتے ہندوستان میں اردو – ہندی تنازعہ راسخ ہو چکا تھا۔ بولی اب بھی ایک ہی تھی، جھگڑا لکھنے اور پڑھنے میں استعمال ہونے والی زبان کا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ وہ حالات تھے جن میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی۔ تقسیم نے اردو کو پاکستان اور ہندی کو بھارت کی زبان بنا دیا ، گویا سیاست دانوں نے بھی زمین کے ساتھ ، باشندوں اور زبان کی تقسیم کی توثیق کر دی۔ اردو کی قسمت تھی کہ بھارت سے مکمل دیس نکالا نہیں ملا مگر ہندی پاکستان سے یکلخت غائب ہو گئی یا یوں کہ لیں کہ دیوناگری اور گرمکھی کو دیس نکالا مل گیا، بولی تو بولی جاتی رہی۔ بھارت میں اردو ہندی کی تقسیم کو کیوں مان لیا گیا یہ ایک بڑا سوال ہے کیونکہ آزادی کے بعد یہ جھگڑا طے ہو جانا چاہیے تھا، مگر زبان کی تقسیم کو مزید ہوا دی گئی۔ فرقہ وارانہ سیاست، ضد اور انا جیت گئی اور دانش ہار گئی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ دونوں رسم الخط چلنے دیے جاتے مگر زبان کو ایک ہی کہا جاتا۔ صرف اردو یا ہندی کہنے سے کسی کی عزت گھٹنے لگتی تو اردو-ہندی یا ہندی-اردو کہہ لیتے، کیا فرق پڑ جانا تھا ؟
پاکستان میں حالات ایک الگ کروٹ لے رہے تھے، یہاں ایک مضبوط مرکز اور ایسی حکومت کی تیاری ہو رہی تھی جو عوام گریز اور اشرافیہ یا جاگیرداری کے ساۓ تلے ہو۔ اردو یہاں کی آبادی کے کسی حصّے میں مادری زبان نہیں تھی سواۓ ان کے جو شمالی ہندستان سے ہجرت کر کے مغربی اور مشرقی پاکستان میں آباد ہوئے جو کہ ایک اقلیت تھے، ہاں اردو آپس میں رابطے کی زبان ضرور تھی جو بحیثیت ہندوستانی شروع ہی سے اس کا کردار تھا کہ ہندوستانیوں کے رابطے کی زبان تھی اور سارے ہندوستان میں اکثر و بیشتر سمجھ لی جاتی تھی۔١٩٤٨ میں حکومت نے اردو کے سرکاری زبان ہونے کا اعلان کیا تو مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج ہوا، وہاں عوام کا مطالبہ تھا کہ بنگالی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ یہ مطالبہ اردو کے خلاف نہیں بلکہ ایک منطقی مطالبہ تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ اردو بنگال کی اکثریت کی زبان نہیں تھی، لوگ بول اور سمجھ تو لیتے تھے مگر اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، انگریزی لکھ پڑھ لینے والے زیادہ تھے۔ ایسے میں اردو کو واحد سرکاری زبان قرار دینے کا مطلب تھا کہ وہ بنگالی مشکلات کا شکار ہو جاتے جو اردو نہیں پڑھ لکھ پاتے۔ پاکستان میں پنجاب میں اردو خواندہ طبقے میں رائج تھی ، سرحد اور بلوچستان میں خواندگی زیادہ نہیں تھی تو وہاں بھی اردو سمجھی تو جاتی تھی مگر لکھنا پڑھنا محدود ہی تھا، یہی حال سندھ میں تھا ان شہری علاقوں کو چھوڑ کر جہاں مہاجرین آباد ہوئے۔ مشرقی پکستان میں خواندگی کی شرح مغربی پاکستان کے مقابلے میں تھوڑا زیادہ تھی ۔ کل پاکستان کی خواندگی کی شرح ١٩٥١ میں ١٤ فی صد تھی، مشرقی پاکستان میں ١٩ فی صد اور مغربی پاکستان میں ٨ فی صد کے لگ بھگ۔ ایسے میں اردو اور انگریزی کو سرکاری زبان بنانا اور مقامی زبانوں میں سرکاری انتظام و انصرام کو ممنوع قرار دینا اچھا نہیں تھا۔ یہاں سے جو احساس محرومی، احتجاج اور ریاستی تشدد شروع ہوا اس کا اختتام پاکستان کے ٹوٹنے پر ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ صاحبان اقتدار بنگالی کو سرکاری زبان بنانے کے مطالبے کو سازش اور ملت سے غداری قرار دیتے رہے، انہوں نے اردو کی ملت کی زبان قرار دے دیا اور یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ بنگالیوں کا مطالبہ مان لیا جاتا تو ایک اور تقسیم اور انسانیت کی تذلیل کا موقع نہیں آتا۔
بہرحال ایک مضبوط مرکز کی خواہش، ایک ایسی قوم کی تشکیل جو علاقائی شناخت، زبان اور کلچر کو بھلا دے اور اپنی مقامی اور مادری زبانوں کے بجائے کسی اور زبان کو اپنا لے ، یہ ایک ایسا نسخہ تھا جو آج تک نہیں چل سکا مگر حکمران اور ان کے کاسہ لیس یا کچھ خوش فہم آج بھی اس یوٹوپیا پر یقین رکھتے ہیں۔ اردو کے رابطے کی واحد زبان ہونے اور ایک قومی زبان ہونے پر کسی کو اعتراض نہیں تھا، لوگ محض یہ چاہتے تھے کہ ان کی علاقائی اور مادری زبانوں کو بھی صوبائی سطح پر تسلیم کیا جائے تاکہ پورے معاشرے کو فائدہ ہو ، ان کی زبان کی ترقی ہو ، مقامی لوگوں کو مقامی سطح پر روزگار ملے۔ اس دوران اردو اپنا عوامی کردار بھی ادا کرتی رہی، یہ حبیب جالب، فیض ، فراز، ناصر کی زبان ہے ، یہی علی عباس جلالپوری اور سبط حسن کی زبان ہے ، یہی ان سب رہنماؤں کی زبان ہے جو عوام میں سے ہیں اور عوام کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ زبان نافذ کرنے سے کب پھیلتی ہے؟ زبان تہذیب سے، علم سے، کلچر سے ، لوگوں کے اندر پھیلتی ہے۔ ہندوستانی ، اردو یا ہندی شمالی ہند کے چند صوبوں کے افراد کی مادری زبان ہے مگر جہاں تہذیب کی بات آتی ہے وہاں یہ دنیا کی تیسری بڑی زبان بن جاتی ہے مگر تیسری بڑی مادری زبان نہیں۔ بھارت کی ایک بڑی زبان انگریزی ہے جو مادری زبان تو اعشاریہ پانچ فی صد بھارتیوں کی بھی نہیں ہوگی۔ پنجابی پاکستان میں ایک اکثریت کی مادری زبان ہے مگر پنجابی کا استعمال بلوچستان میں بحیثیت ایک سرکاری زبان نہیں ہو سکتا، یہ حق بلوچی اور پشتو کا ہی رہے گا، اردو بھی یہ حق نہیں چین سکتی۔ اچھا بلوچ ، پشتون ، پنجابی، سرائیکی اور سندھی مسلمان ہیں تو مسلمان ہیں مگر اپنی علاقائی اور تہذیبی شناخت رکھتے ہیں اور رکھتے رہیں گے، اردو ان تہذیبوں کے درمیان پل کا کام دیتی ہے اور دیتی رہے گی۔ ان حقیقتوں سے انکار ضد اور بے وقوفی ہے۔
اگر بحث کو سمیٹا جائے تو ہم یہاں تک یہ دیکھتے آئے کہ ہندوستان ایک جغرافیائی وحدت ہے اور اپنے زرخیز میدانوں اور دریاؤں کی وجہ سے ہمیشہ سے وسط ایشیائی قوموں کی آماجگاہ رہا ہے جو یہیں کی مٹی میں گھل مل جاتے ہیں، ہندوستان کی ایک اور خوبی وسیع المشربی ہے، ہر مذھب اور ہر طرح کے رنگ اور نسل کو یہ مٹی اپنا لیتی ،مسلمان ہندوستانی تھے اور رہیں گے، اسلام ہندوستان کے مذاہب میں سے ایک ہے اور رہے گا ۔ اردو کی جڑیں ہندوستان سے باہر نہیں بلکہ یہیں ہیں ، یہ ایک پراکرت زبان ہے جو ہندوستان ہی کی طرح وسیع دامن رکھتی ہے، ہندی اور اردو ایک ہی زبان ہیں جو ایک سے زیادہ رسم الخط میں لکھی جاتی رہی ہیں اور ایسا ہوتا رہے گا ، اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اردو مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی زبان ہے اور آج تین ملکوں کی زبان ہے۔ آپ اسے اردو-ہندی یا ہندی-اردو بھی کہہ سکتے ہیں محض اس لئے کہ آپ کی انا کی تسکین ہو سکے ورنہ خوشبو تو خوشبو ہے اسے آپ کوئی نام دے لیں۔ سیاست دانوں اور رہنماؤں کو حال اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دور کرنا ہوگا۔ پاکستان میں اردو عوام کی زبان ہے اسی طرح جیسے یہ بھارت میں عوام کی زبان ہے اور اس ایسے ہی رہنے دیا جائے، بجائے اس کے کہ کسی استعماری عزم کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ ۔
حوالہ جات
Perver Srinath (2013), The origins of Indians https://web۔archive۔org/web/20160304073824/https://genetics۔med۔harvard۔edu/reich/Reich_Lab/Press_files/Fountain%20Ink%20-%20December%202013%20-%20Cover۔pdf
Asko Parpola (2015)۔ The Roots of Hinduism۔ The Early Arians and the Indus Civilization۔ Oxford University Press۔
Anthropological Survey of India (2021), Genomic Diversity in People of India, Springer Singapore
Abdul Jamil Khan (2006), URDU/HINDI: AN ARTIFICIAL DIVIDE, Algora Publishing, New York
Christopher Shackle, Rupert Snell (1990), HINDI and URDU Since 1800: a Common Reader, Heritage Publishers New Delhi India
A۔ Grierson 1919, Linguistic Survey of India Vol9 (Part 1) , Specimens of Western Hindi and Punjabi, Low Price Publications, Delhi
Walter N۔ Hakala (2016), Negotiating Languages, Columbia University Press
Amrit Rai (1984), A house divided, The origins and development of Hindi/Hindavi, Oxford University Press, Delhi
Sanjeev Sanyal (2017), The Incredible History of India’s Geography, Penguin Books
Aupinder Singh (2009) History of Ancient and Early Medieval India: From the Stone Age to the 12th Century, Pearson India
Dominik Wujastyk (2011), Indian Manuscripts, University of Vienna, https://era۔library۔ualberta۔ca/items/8b85bec1-c00a-47b4-b771-9139f809ac5c/view/69a441ff-eacb-459d-af5f-411fd7942775/DG_135۔pdf
Harbans Mukhia (2004), the Mughals of India, Blackwell Publishing, MA, USA
A۔ Bayly (1988), Indian society and making of the British empire, Cambridge University Press, UK
Richard Stoneman (2019) The Greek experience of India, Princeton University Press
Annemarie Schimmel (1982) Islam in India and Pakistan, Institute of Religious Iconography, State University, Groningen۔
Sunil Kumar, The emergence of the Delhi Sultanate, Permanent Black, Ranikhet
Peter Jackson (1999) , The Delhi Sultanate, a political and military history, Cambridge University Press
Brian Gardner (1971), The East India Company, Granada Publishing Limited, London
John Keay(1991), The honourable company , HarperCollins Publishers
Mohammad Niaz Asadullah (2006), Educational Disparity in East and West Pakistan, 1947-71: Was East Pakistan Discriminated Against? The Bangladesh Development Studies Vol۔ XXXIII, September 2010, No۔3
مسعود حسین خان (٢٠٠٨) ، مقدمہ تاریخ زبان اردو ، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ –
جوعمل واعظ لال (١٩٢٠) اردو زبان کی تاریخ ، مطبع مجتبائی دہلی
مرزا خلیل احمد (٢٠١٤) اردو کی لسانی تشکیل ، ایجوکیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ
ڈاکٹر محمد باقر (١٩٧٢) اردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں ، مجلس ترقی ادب لاہور
عزیزالدین احمد بلخی (١٩٣١)، تاریخ شعرائے بہار، قومی پریس، پٹنہ
سید وقار عظیم (١٩٨٦)، فورٹ ولیم کالج تحریک اور تاریخ ، یونیورسل بکس لاہور

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply