گرم آنڈے۔۔محمد وقاص خان

کل ناشتے کی میز پر بیگم انڈہ ابال کر لائی تو بیٹی نے منہ بسور لیا۔۔”مجھے نہیں کھانا یہ انڈہ ونڈہ “۔۔ہر روز ابلا ہوا انڈہ نہیں کھایا جاتا مجھ سے۔۔۔۔ اسکی طرف مڑ کر میں نے دیکھا تو پیشانی پر دستیابی اور حاصل کی بے اعتنائی کی شکنیں لیے اپنی والدہ کو دیکھ رہی تھی۔ ایسے مواقع پر بچوں کو میری طرف سے اس پکار و پچکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ریوڑ میں سے کھیت کی طرف رخ کرتی بھیڑ بکریوں کو چرواہے کی جانب سے ہوا کرتی ہے جسکی ایک مخصوص “اوہوں” انہیں واپس ریوڑ میں شامل کر کے ناک کی سیدھ میں چلا دیتی ہے۔۔

ایسے موقع پر میں بچوں کو ضرور انکی مثال دیتا ہوں جن کے پُرنور ماتھوں کی تختیاں چھوٹی چھوٹی عمروں میں ہی حسرتوں اور محرومیوں کی ریاضتوں کے محراب سمیٹ لیتی ہیں۔ زندگی ان کو اس رندانہ بے نیازی و بے اعتنائی کا موقع ہی نہیں دیتی۔

مگر آج الفاظ جیسے حلق میں اٹک گئے۔نئی نئی وہ ویڈیو دیکھی اور روح پر ثبت جو ہوئی۔ آنکھوں میں اس بچی کی تصویر آ گئی۔۔ جو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ شدید ترین ٹھنڈ میں ابلے ہوئے انڈے بیچتی ہوئی کسی دردمند کے موبائل کیمرے سے سوشل میڈیا کے افق پر دستیابی اور محرومی کی خلیج کو اور واضح کر گئی وہی عمر ،وہی قد کاٹھ وہی ابلے ہوئے انڈے۔۔ مگر تقسیم کا فرق، بختوں کی تقویم کا فرق
ہونے اور نہ ہونے کا فاصلہ ، پانے اور کھونے کا تفاوت۔۔

ایک طرف ماں انڈے ابال کر نرم و گرم بستر میں سامنے لے آئی تو حقیر ٹھہرے بے توقیر ثابت ہوئے۔۔۔ دوسری جانب بیمار ماں کا ہاتھ بٹاتی بچی اس جاڑے میں آدھے ادھار اور آدھے نقد انڈے لے کر انہیں ابالتی ہے اس سرمایہ حیات کو ایک کولر میں رکھتی ہے اور پھر اپنے سے چھوٹے بھائی کی حفاظت کے حصار میں انہیں بیچتی ہے۔کولر میں 9 انڈے ہیں۔ایک انڈہ 22روپے کا خریدا گیا۔۔ 22۔۔کے ہندسے سے مجھے موجودہ حکمران کے پاک سرزمین پر زندگی کو سستا بنانے کے 22سالہ دعوے یاد آنے لگے جن کو بچی نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ”” 22کا انڈہ 30کا بکتا ہے اور ایندھن کا خرچ بھی ہے کیا بچت ہونی ہے ایک انڈے کے پیچھے 8روپے بچتے ہیں بس 8روپے”۔۔9 انڈے۔۔ 8روپےفی کس بچت۔۔ یعنی ایک انڈہ بیچ کر ایک روٹی بھی نہیں آتی۔۔۔۔وہ بھی 10روپے کی ہے شدید سردی میں ٹھٹھر کر دونوں بہن بھائی اتنے پیسے کما لیتے ہیں جتنی انکے دیس کی آزادی اور انکی نسلوں کی غربت کی غلامی کرنے کی عمر ہے۔وراثت میں ملی احتیاج اور محرومی کی بیڑیوں کی عمر۔۔ریاستی وسائل کے امرا کے ہاتھوں کی میل ہونے کی معیاد۔۔۔ 72۔۔روپے۔۔۔ 72سالہ ریاست میں دو بہن بھائی گھنٹوں کی لرزا دینے والی محنت کے بعد 72روپے کماتے ہیں اور ان قدموں میں جا کر رکھ دیتے ہیں جہاں انکی جنت ہے۔۔۔ان 72 روپے میں تو موجودہ حکمران کی تازہ ترین جاری کردہ تصویر میں موجود کتوں کا کھانا بھی نہیں آئے گا۔۔۔ لیکن ان کتوں کو مبارک ہو کہ وہ جنت سے راندہ درگاہ اسلام آباد کی سڑکوں پر سردی میں بھوکے پیٹ ٹھٹھرتے ہوئے اپنا اور اپنے ماں باپ کا رزق کمانے کے لیے دربدر ہوتے انسان کے بچوں کی بجائے نرم و گرم محل کے اندر موجود خود حکمران کے ہاتھ سے کھانا کھا رہے ہیں۔۔انہیں مبارک کہ کم از کم انکی حد تک تو نیا پاکستان بن گیا۔

ان بہن بھائیوں سے ویڈیو بنانے والی خاتون کے سوال کے جواب میں بچی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ساری معیشت اور اسکے سبھی اعداد و شمار کو،ان شیشے اور پتھر سے بنے بڑے بڑے ایوانوں میں کی جانے والی ساری لچھے دار باتوں کو اپنی سردی سے لرزتی آواز میں انکی سنگلاخ دیواروں پر دے مارتی ہے۔۔ جب وہ نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنی بے بسی پر مسکراتی ہے۔۔ یارب تو دیکھ رہا ہے ناں۔۔اس بچی نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنی مسکان سے مجھے نہیں کھانا یہ انڈہ ونڈہ ۔۔اور۔۔انڈہ کھالو صاحب کے درمیان تیرے کاتبِ تقدیر ہونے کا مان رکھ لیا ہے۔ 72سالہ وطن عزیز پر ادھار انڈے لے کر 72روپے کما کر اس نے اس وطن کی تقسیم اور اس پر تیری جانب سے کی گئی بختوں کی تقسیم کی بھی لاج رکھ لی۔۔ اپنی بیٹی اور بیٹے کو ہر ایسی بے اعتنائی و بے نیازی پر ان مسکراہٹوں کا حوالہ دے کر رلانے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔۔۔ انہیں یہ ضرور بتاتا ہوں کہ یہ محض فیصلہ ساز کی تقسیم ہے وگرنہ اسکا بھی پیارا سا چھوٹا سا دل یہ چاہتا ہو گا کہ وہ بھی کبھی ایسی بے اعتنائی اپنی ماں کے سامنے برتے۔۔ 8روپے کمانے کے لیے انڈہ کھانے کی سماجت کی بجائے تحکمانہ انداز میں انڈہ کھانے سے انکار کر دے۔انسانیت کی لاج رکھتی نمناک آنکھوں کے ساتھ مسکراہٹ کی بجائے وہ بھی بے نیازی کی سنجیدگی بلکہ رنجیدگی اس یخ بستہ معصوم پری زاد چہرے پر لے آئے  مگر یہ غربت ہے ، یہ بھوک ہے ،یہ احتیاج ہے۔ یہ اختیار نہیں مجبوری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور مجبوری سب سے بڑی درسگاہ ہوتی ہے۔۔۔ جو کہ 10سال کی عمر میں ہی صدیوں کے کڑوے سچ نم آنکھوں اور خشک ہونٹوں کی مسکراہٹ کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کا فن سکھا دیتی ہے۔۔
اپنے دونوں بچوں کو یہ ویڈیو دکھاتے ہوئے انکی ننھی آنکھوں میں اس بچی کی پیاری اور عالمانہ آنکھوں سے مستعار لی گئی نمی اور انڈہ کھانے پر آمادگی مجھ میں طمانیت سی بھر گئی۔۔
اے خدا کبھی ایسی کسی انڈے بیچنے والی بچی کو اس دھرتی کے بچے بچیوں کا فیصلہ ساز تو بنا۔
تُو تو بے نیاز ہے۔۔۔ خدایا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply