الغدہ الکامل۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

حیوانِ ناطق کی اصطلاح کو توڑ کر اگر دو حصّوں میں تقسیم کیا جائے تو ،حیوان، کا مطلب انسان کا مادّی جسم اور ، ناطق، سے مراد اس کی روحانی عقل لیا جا سکتا ہے، ان دو الفاظ کے درمیان جو زِیر ہے، یہی زیر ان دو، انسان کے جسم اور روح، کے مابین مضبوط ترین اور واحد رابطہ ہے، اور یہ زیر قعطا اجمالی نہیں، بلکہ حقیقی اور ٹھوس عضو (غدہ) ہے، جو انسان کے مادّی جسم اور روحانی عقل کے درمیان رابطے کیلئے ایک پُل کا کام دیتی ہے، اسے الکامل سے تعبیرکیا گیا ہے۔
طب کی زبان میں اس غدہ کو، Pineal gland, کے نام سے جانا جاتا ہے، لفظ pinea, لاطینی زبان سے ماخوذ ہے، جس کا لفظی مطلب صنوبر ہے، بلکہ زیادہ بہتر ترجمہ صنوبر کے درخت پر لگی پھَلی ہے، جو عموماً گہرے بھورے رنگ کی اور کافی سخت اور جھری دار ہوتی ہے۔
غدہ خلیات کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو اپنی ذاتی ضروریات سے الگ، کسی قسم کے مادے کا اخراج کرتا ہے جو جسم کے مختلف افعال کیلئے ضروری ہو سکتے ہیں، اس کی جمع غدود ہے، انگریزی میں اسے Gland, کہا جاتا ہے، یہ گلینڈز مختلف ہارمونز یا رطوبات کی تخلیق و اخراج کرتے رہتے ہیں جو جسم کیلئے ضروری ہیں۔
آج کے اصل موضوع پر آنے سے پہلے، چند جملوں میں ،pineal gland, کے طبّی افعال پر مختصر بات کرنا ضروری ہے، اردو میں اسے صنوبری جسم یا صنوبری غدہ کا نام دیا جا سکتا ہے، یہ غدہ انسانی دماغ کے عین وسط میں واقع ہے، اس کی جانبی شکل بالکل انسانی آنکھ جیسی ہے، اور حجم میں چنّے کے ایک چھوٹے سے دانے سے زیادہ نہیں، یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اپنے حجم کے تناسب سے ، انسانی جسم میں “دوڑتے پھرنے ” والے خون کا سب سے زیادہ حصّہ اسی غدہ کے استعمال میں ہے۔
یہ صنوبری غدہ یا گلینڈ دو ہارمونز کی تخلیق و اخراج کا فریضہ سنبھالے ہوئے ہے، پہلا melatonin, نامی ہارمون ہے، یہ ہارمون ہمارے مرکزی اعصابی نظام کی فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، بالخصوص ہماری نیند کے آنے، یا نہ آنے، میں بنیادی کردار اسی ہارمون کا ہے، دوسرا ہارمون serotonin ہے، جو دن کے اوقات میں جسمانی و ذہنی مشقّت میں مدد دیتا ہے، ان ہارمونز کی تخلیق پر دن کی روشنی اثر انداز ہوتی ہے، اس لیے ایسے علاقے جہاں موسمی تغیّر کی بنیاد پر دن اور رات کے دورانیوں میں غیر معمولی فرق ہے وہاں ان ہارمونزکی تخلیق و فعالیت شدید متاثر رہتی ہے اور نتیجتاً نیند میں خلل کے ساتھ ساتھ روزمرہ افعال انجام دینے میں دقّت و سستی رہتی ہے، اسی طرح اس غدہ، pineal gland, نے ایک دوسرے اہم غدہ، pituatry gland, پر اثر انداز ہوتے ہوئے ہمارے جنسی ہارمانز کی کمی بیشی کو اپنے دستِ باطنی سے لگام دے رکھی ہے۔
اس کے علاوہ یہ غدہ ذہنی دباؤ سے چھٹکارے کیلئے لی جانے والی ادویات اور منشیات کی فعالیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اس غدہ کی بابت یہ تمام طبعی پہلو ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اس گلینڈ کی حقیقی اہمیت اس کا وہ پراسرار و مخفی کردار ہے جس سے بنی نوع انسان آج سے پانچ ہزار سال پہلے واقفیت کی خواہش و جستجو رکھتا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے طبعی پہلوؤں اور اس کی طبیعیاتی فعالیت کو نہ جانتے ہوئے بھی انسان اس راز سے آگاہ ہو چکا تھا کہ یہی منبعءطاقت و روحانیت ہے، کوئی شک نہیں کہ اس کی جانکاری کسی اساطیری کہانی سے نہیں، بلکہ مابعدالطبیعات کے ماہرین کی تعلیمات سے اخذ کی گئی تھیں، ورنہ اپنے انتہائی پیچیدہ محلِ وقوع اور مابعدالطبیعاتی فطرت کی بنا پر یہ غدہ ماہرین کو آج بھی ناکوں چنے چبوا ئے ہوئے ہے۔
ایک فرانسیسی محقق، Rene Descartes, اپنی تحقیق کے بعد ، اس گلینڈ کے متعلق لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ، “یہی غدہ روح کی اصل نشست اور ہمارے تمام خیالات کا سرچشمہ ہے”۔
اس گلینڈ کو تیسری آنکھ یا چھٹے چاکرے کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ یہ انسانی فہم کا مآخذ اور الہیاتی شعور کا راستہ ہے۔
دنیا کی تمام پرانی تہذیبیں ، انسانی ذہن کے عین وسط میں ایک تیسری روشن آنکھ کی گواہی دیتی آ رہی ہیں ، آپ تہذیبوں کی تاریخ کے مطالعے میں صنوبر کی پھلی کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں، بالخصوص جب بات الہامی رسائل و کتب کی ہو رہی ہو، فیثاغورث اور افلاطون نے بھی اس تیسری آنکھ کی موجودگی کا ذکر بڑی دلچسپی سے کیا ہے،
قدیم مذہبی ادب و فنِ تعمیر جا بجا صنوبری غدو کو اپنی زینت بنائے دکھائی دیتے ہیں، بابلی دیوتا، تاموس، کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں جو اپنے ہاتھ میں ایک بیت اٹھائے ہوئے ہے، جس کے سرّے پر صنوبری شکل واضح نظر آ رہی ہے، مصری دیوتا آذیرس، رومی دیوتا باکوس اور فی زمانہ پاپائے روم کے ہاتھوں میں پکڑے بیت، جو کہ اقتدار کی علامت ہے، پر صنوبر کی پھلی کی واضح تصویر موجود ہے، یہ ایک علامت ہے کہ چونکہ یہ شخصیات اپنے چاہنے والوں کے نزدیک نمائندۂ خدا ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کا منبعء شعور و روحانیت مکمل فعال دکھائی دے، اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا کہ روحانی فعالیت کا رابطۂ اول و آخر pineal gland ہی ہے۔
اسی طرح بے شمار مذہبی احرام کی عمارات میں شکلِ صنوبر آج بھی دیکھی جا سکتی ہے، چاہے یہ ویٹیکان شہر کا داخلی دروازہ ہو یا ہندو مندروں کے مینار ہوں،
مہاتما بدھ کی تصویر میں ان کے ماتھے پر آنکھ کا نشان، فعال روحانیت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، یہی آنکھ ہندؤں کے مختلف بھگوانوں کے بتوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہے، ہندو معاشرے میں بندیا کا تصوّر بھی اسی سے ماخوذ ہے۔
قدیم تہذیبوں میں اس غدہ کو ٹھوس شکل دینے کیلئے ایک پتھر کو تراش خراش کے بعد سنگِ مقدّس کا نام دے دیا جاتا تھا جو گاہے پوجا پاٹ کیلئے بھی استعمال ہوتے تھے، سمیری تہذیب نے ان پتھروں کو ایک پہاڑی کی شکل دی، جو ان کے نزدیک آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کے وقت پہلی خشک جگہ قرار پائی، یہ پہاڑی بعینہ صنوبری شکل میں بنائی گئی، جو اشارتاً بتا رہی ہے کہ صنوبری غدہ ہی شخصیتِ انسانی کی معراج ہے، یہی پہاڑی بعد میں، بابلی تہذیب میں مرکزِ زمین تصوّر ہونے لگی کہ ان کے نزدیک دیوتا کا ظہور یہیں سے ہوا کرتا تھا، ہندو مذہب کے دیوتا شیوا کے عضوِ تولید کو بھی پتھر کی شکل میں صنوبری روپ دیا گیا ہے، جو کہ مرکزِ تخلیق و تولید کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
موضوع کو سمیٹنے ہوئے ہم واپس اس گلینڈ کے طبیعاتی افعال کی طرف واپس آتے ہیں، یہاں دو نکّات واضح کرنا چاہتا ہوں جو حاصلِ مضمون ہیں
1- اس گلینڈ یا غدہ کے خلئیے اپنی ساخت میں ہوبہو وہی ہیں جو انسانی آنکھ کے retina, (شبکیۃ چشم) کے ریسیپٹرز میں پائے جاتے ہیں۔
2- اس گلینڈ کے اندر مائع موجود ہے، جس میں شفاف crystals تیرتے پھرتے ہیں، ان کریسٹلز کے برقی عناصر ، لاؤڈ اسپیکر میں موجود برقی عناصر سے مشابہت رکھتے ہیں۔
یہ دو نکّات ہمیں واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ pineal gland, میں چیزوں کی شبیہات کو جذب کرکے مطلوبہ سمت میں بھیجنے، اور صوتی دباؤ کو پہچاننے اور بلند تر سنانے کی صلاحیت موجود ہے، دوسرے الفاظ میں یہ غدہ سماعت و بصارت کا گھر ہے، مگر چونکہ یہ عضو بیرونی نہیں، یہ نہ تو کان ہے، نہ ہی آنکھ، بلکہ یہ ایک اندرونی غدہ ہے، تو یہ کہنے کہ اجازت دی جائے کہ یہ اندرونی سماعت و بصارت کا مآخذ ہے، بشرطیکہ اس کا درست استعمال کیا جائے۔
اس غدہ کے ذریعے انسان آسمانی طاقتوں سے شعوری و فہمی رابطہ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کی فعالیت کو بہتر بنانے کیلئے یوگا، میڈیٹیشنز، مراقبے وغیرہ انتہائی مفید ثابت ہوئے ہیں، جسے ایک لفظ میں، غوروفکر، کہا جا سکتا ہے۔
یاد رکھئیے کہ اچھی صحتمند غذا، وقت پر سونا، صبح جلدی جاگنا، جسمانی گندگی و اخلاقی برائیوں سے بچنا، تنہائی میں اپنے معاملات پر غورو فکر کرنا، مطالعہ، عبادات و تزکیۂ نفس کی عادات اس چھوٹے سے لوتھڑے کو الکامل بنا دیتے ہیں، جس کی بدولت انسان پوری شان سے اپنے عہدے، اشرف المخلوقات، پہ برا جمان رہ سکتا ہے، لیکن اگر آپ کی غذا چپس اور برگر ہیں، ڈرنکس کے نام پر آپ کوک کو ٹھونسے چلے جاتے ہیں، موسیقی کے نام پر ایک بے ہنگم طوفانِ بد تمیزی آپ کی حسِ سماع کو تباہ کئے رکھتا ہے، رات کو جاگتے اور دن میں سویا کرتے ہیں، اگر آپ نفسی غلامی کو لطفِ زندگی تصوّر کرتے ہیں، اگر آپ کہ سوچ پیٹ کے جہنّم کو بھرنے تک محدود ہے تو جان رکھئیے کہ اس صورت میں اس غدہ کو صرف دماغی ” اپینڈکس ” کا نام دیا جائے گا، اس سے زیادہ اس کی قطعاً اہمیت نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply