معرکہ کارگل کے ہیرو حوالدار لالک جان کا یوم شہادت

اسلام آباد: معرکہ کارگل کے ہیرو حوالدار لالک جان کا 22 واں یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے۔

دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر دشمن پر دھاک بٹھانے اور عزائم کو ناکام بنانے والے پاکستان کے بہادر سپوت حوالدار لالک جان نے ہمت اور بہادری کی ایسی مثال قائم کی جس کا برملا اعتراف دشمن نے بھی کیا۔

حوالدار لالک جان 1967 میں شہدا کی وادی کے نام سے مشہور علاقے غذر کے گاؤں غزری اسین گلگت میں پیدا ہوئے۔ وہ 12 این ایل آئی کے بے باک نڈر، بہادر سپاہی کے طور پر سامنے آئے اور مئی 1999 میں انہوں نے اگلے مورچوں پر وطن عزیز کے لیے خدمات پیش کیں۔

لالک جان نے ملک کی خاطر مشکل اور دشوار گزار پہاڑی چوکی پر دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے کمر باندھی اور خون کے آخری قطرے تک وطن کا دفاع کیا۔ کارگل پر قائم قادر پوسٹ لالک جان جیسے نڈر سپاہی پر نازاں ہے۔

حوالدار لالک جان اپنی یونٹ ناردن لائٹ انفنٹری پہنچے۔ شہید کیپٹن کرنل شیر خان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے۔ حکم ملا تو درجن بھر ساتھیوں کے ساتھ مشکوہ نلہ کی پوسٹ پر بحیثیت پوسٹ کمانڈر ذمہ داری سنبھالی۔

12 جون 1999 کو لالک جان نے دشمن کی پٹرول پر ایسا زبردست حملہ کیا کہ وہ اپنے سپاہیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا، اسی مہینے کے آخری ہفتے کی ایک رات دشمن نے قادر پوسٹ پر شدید حملہ کیا، لالک جان اور ساتھیوں نے دشمن کی جارحیت کو جم کر مقابلہ کیا اور اُسے پسپائی پر مجبور کیا۔

حوالدار لالک جان اور اُن کے ساتھی 2 سے 6 جولائی تک دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔

منفی 30 درجہ حرارت یخ بستہ ہواﺅں اور جان لیوا زخموں کے باوجود کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرد مجاہد حوالدار لالک جان نے کئی گھنٹے ہلکی مشین گن سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا ۔ حملوں میں تیزی آئی تو حوالدار لالک شدید زخمی ہو گئے لیکن مورچہ چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

7 جولائی 1999 کو دفاع وطن کے عظیم فریضہ کی انجام دہی میں پاک فوج کا یہ بہادر سپوت جام شہادت نوش کر گیا۔ حوالدار لالک جان کی بہادری و شجاعت کے اعتراف پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply