یادوں کے جگنو۔رفعت علوی/قسط4

 طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں!
کہیں ایسا نہ ہوجائے ۔۔کہیں ویسا نہ ہوجائے!
مشعال فلسطینی مہاجر تھا۔
گلاب سوکھ جاتے ہیں، باغ اجڑ جاتے ہیں ، تتلیاں اڑ جاتی ہیں، رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، تعلقات مر جاتے ہیں مگر محبت کبھی نہیں مرتی۔۔۔مر ہی نہیں سکتی، یہ امر بیل ہےجو زندگی کا رس چوس کر پلتی ہے اور مرتے سمے تک جسم سے لپٹی رہتی ہے۔
وہ کالج میں میرا ہم جماعت تھا، سنجیدہ بردبار، سوچتی آنکھیں، کھڑی ناک  اور پرعزم، ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور وہ ہمارے تعلقات کے بارے میں سنجیدہ تھا مگر جب شادی کی بات آتی تو بات ٹال جاتا، اور کہتا نجلہ مجھے  ذرا وقت دو!۔میری  کچھ کمٹمنٹ ہیں زندگی کے ساتھ، ابھی سویرا ہونے دو۔۔
میرے والد نے عراق کی جنگ کے زمانے میں بغداد سے جان بچا کر نہر الاردن کے علاقے میں پناہ لی تھی، یہاں انھوں نے سیاحت اور ٹورازم کا چھوٹا سا کاروبار شروع کر رکھا تھا، بغداد میں بھی وہ یہی کاروبار کرتے تھے اور زائرین کے لئے نجف، کربلا، کوفہ دوسرے مقامات مقدسہ کے ٹور ارینج کرتے تھے۔مشعال فلسطینی مہاجر تھا، جس کے والدین عرب اسرائیل جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے تھے خیر یہ تو ہر دوسرے فلسطینی کے گھر کی کہانی تھی، میرے ماں باپ کو میری اور مشعال کی دوستی پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ میری ماں تو مجھے اس سے جلد از جلد شادی کر لینے پر اکساتی رہتی تھی، مگر یہ ہو نہ سکا۔۔۔
ہمارے خواب خواب ہی رہے، وہ سویر مشعال جس کا منتظر تھا کبھی آئی ہی نہیں، مشعال ایک بار چھٹیوں پر اپنے گھر رملہ گیا تو واپس ہی نہیں لوٹا، بس اخبار میں خبر اور تصویر چھپی کہ اسرائیل کے ایک شہر میں حماس کے ایک ناکام خود کش حملے کی کوشش میں وہ اسرائیلی افواج کی گولیوں کا نشانہ بن گیا، شہر حوادث میں میری متاع دل لٹ گئی، آج تک اس سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے اب آنے والے کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے۔
اس روز مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ کہ مشعال حماس کا سرگرم کارکن تھا اور اپنے کاز میں سیریس ہونے کی وجہ سے شادی سے بچنا چاہتا تھا، میرے خواب کیا بکھرے کہ میں برسوں اس کے خیالوں سے آزاد نہ ہوسکی۔بہرِ ناآسودگی مچلے تو منائے نہہیں منتی، کوئی بات بنائے نہیں بنتی، سو یوں ہوا کہ نہ اس کے بعد میری زندگی میں کوئی بات چلی ، نہ میرے دل کی کلی کھلی، بس ہرگھڑی رات چلی، ہر گھڑی ماتمی، سُنسان سیاہ رات چلی، میرا دلِدار میرا شہریار میرے پاس نہ رہا۔ میرے باپ نے میرا دھیان بٹانے کے لئے مجھے دریائے اردن کے پاس بپتسمہ کی سائیٹ پر اپنے ٹکٹ گھر کا انچارج بنا دیا۔
اب یہاں ایک بار پھر ایک اور فلسطینی لڑکا اپنی پرجوش، بے پرواہ، بے تکلف اور مست مسکراہٹ کے ساتھ میری زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا، اور میں؟ میں محتاط تھی۔۔۔ٹکٹ گھر کی منڈیروں پہ بیٹھے روزن سرگوشی کرتے، میری آرزوؤں کی قبائیں مچلتیں، میری قسمت کے ماتھے پہ پڑی سلوٹیں مسکراتیں میرا مرجھایا ہوا تبسم میرے دل پر دستک دیتا کہ اپنے دل مضطر سے کہو تھوڑے تھوڑے سب مزے چکھے، ذرا بہکے، ذرا سنبھلے، ذرا تڑپے ،ذرا ٹھہرے، ذرا ٹوٹے اور میں محتاط تھی کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے۔۔کہیں ویسا نہ ہوجائے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کونسا علاقہ تھا، یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر جگہ کا نام ذہن میں نہیں آتا، یہ شہر زرد پتھروں سے بنی پہاڑی کی چڑھائی پر تھا، بالکل ایک ایسا شہر میں نے ترکی میں بھی دیکھا تھا، چھوٹے چھوٹے نیچی چھتوں والے گھر، اس کے باہر بیٹھے لکڑی کے عصا سنبھالے کھانستے تھوکتے ایک دو عمر رسیدہ بوڑھے، بقالے، شفا خانے اور جانے کیا کیا، دکانیں دن کے گیارہ  بجے بھی بند تھیں، ایک دو دکانوں پر الکحل کی بوتلوں کی تصاویر بنی تھیں اور شرابوں کے نام بھی عربی اور انگریزی میں لکھے ہوئے تھے، پرانے طرز کے سوتے ہوئے اس شہر کی وجہ شہرت ایک چرچ تھا جہاں میں نے پہلی بار ایک فلپائینوں عورت کو گھٹنے کے بل چلتے اور یسوع مسیح کے سامنے ہاتھ جوڑ کر دعائیہ کلمات ادا کرتے دیکھا۔
چرچ کی منقش دیواروں سے آگے، دورویہ بچھی لکڑی کی بنچوں سے آگے ایک چھوٹا سا اسٹیج تھا جس پر ایک طرف پوڈیئم رکھا تھا دیوار پر کنواری مریم اور صلیب پر چڑھے مسیح کی آئل پینٹنگز ٹنگی تھیں، اسٹیج سے نیچے ایک طرف میز پر موم بتیاں جل رہی تھیں پگھل رہی تھیں اور دوسری طرف ایک اور میز پر نئی موم بتیوں کا ڈھیر رکھا تھا اور ان کے برابر ایک منی بکس رکھا تھا، عبادت گذار کچھ سکے اس بکس میں ڈالتے اور ایک یا دو موم بتیاں اٹھا کر جلتی شمعوں میں دو موم بتیوں کا اضافہ کر دیتے، میں نے بھی اپنی بیگم کی “قاہرانہ” نگاہوں کی پرواہ کئے بغیر ایک دینار کا نوٹ بکس میں ڈال کر ایک موم بتی روشن کردی۔۔
آہا، یاد آیا۔۔یہ مادبہ شہر تھا، بازنطینی دور کے اس چرچ کے موزائیک کی شہرت پوری مسیحی برادری میں تھی، پورے یورپ میں تھی، بوسیدہ فرش اور دیواروں پر دھندلے ہوتے ہوئے نقش و نگار تھے جس نے ہم کو بالکل متاثر نہیں کیا، یہ آرٹ قدیم بازنطینیوں اور رومیوں کا مشہور زمانہ آرٹ ورک تھا جس پر سعید بڑے جوش و خروش سے نچھاور ہو رہا تھا، اس پہاڑی سے اتر کر ہم نیچے وادی موسی تک آئے۔۔
وادی موسی عمان سے سو میل کے فاصلے پر پیٹرا کے راستے میں ہے، یہاں ایک پتھریلی عمارت تھی بڑی لمبی چوڑی، جس کے داخلے پر ایک طرف پانی کا ایک نالہ بہہ رہا تھا، بہتا صاف شفاف پانی کا نالہ جس کے کنارے پتھروں سے پختہ کردیے  گئے تھے، یہ نالہ بلڈنگ کے اندر ہی اندر دور تک چلتا جارہا تھا اور ایک طرف گھوم کر نظروں سے اجھل ہورہا تھا، اس نالے کے کنارے پر کچھ لوگ بیٹھے اس کے شفاف پانی سے ہاتھ منہ دھو رہے تھے، ایک گورا چٹا سرخ سفید نوجوان شخص اپنی سرخ داڑھی بار بار اس پانی میں ڈبوتا تھا اور کسی غیر نامانوس زبان میں کچھ کلمات ادا کرتا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص اپنی تہبند ٹانگوں پر اوپر چڑھا کر اس پانی میں اتر گیا اور جوش و خروش سے چھینٹے اڑانے لگا،
میں اور نقاش اس نالے  میں  چشمے ندی یا جو کچھ بھی وہ تھا اس کےکنارے کھڑے دلچسپی سے اس آدمی کی حرکتیں دیکھتے رہے، اتنی دیر میں کسی طرف سے نیلی آنکھوں والی ایک ہی شکل ایک ہی عمر اور ایک سائز کی پیاری سی دو بچیاں نمودار ہوئیں جنھوں نے ایک ہی ڈیزائن اور کلر کے کپڑے بھی پہنے ہوئے تھے ، شاید ٹوئنز تھیں، وہ اس سرخ داڑھی والے کو ڈیڈ ڈیڈ کرکے پکارنے لگیں، اس آدمی نے ان سے اونچی آواز میں کچھ کہا اور پانی سے نکل آیا اس کے چہرے پہ ایک سکون سا تھا اور ایک الوہی سا اطمینان بھرا تقدس ٹپک رہا تھا بالکل ویسا ہی تقدس جیسا ہمارے چہروں پر طواف کعبہ کے سات چکر پورے کرنے کے بعد ٹپکنے لگتا ہے،
اس نے ہم دونوں کی طرف دیکھا تو میں نے پوچھا کہ کیا یہ پانی وضو کے لئے صاف ہے،
“صاف، “ارے یہ ہولی واٹر ہے” اس نے غور سے ہم دونوں کا جائزہ لیا اور پھر بولا ” حضرت موسی نے اس چشمے کے پانی سے غسل کیا تھا یہ پانی بالکل کلین ہے پوتر اور مقدس پانی”
میرے لئے یہ بالکل نئی معلومات تھیں
تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ اس نے اپنی پانی سے نچڑتی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی
“دوبئی سے اور تم؟۔” میں نے اس سے پوچھا
“میں تل ابیب سے آیا ہوں ڈیوڈ نام ہے میرا”،
یہ کہہ کر اس نے اپنی بچیوں کا ہاتھ پکڑا اور زمین پر اپنے جسم سے ٹپکتے پانی سے لکیریں بناتا ہوا پارکنگ لاٹ میں کھڑی اپنی اسٹیشن ویگن کی طرف بڑھ گیا،
یہ کیسا پانی تھا کہ اس میں مسلمان عیسائی اور یہودی سب ایک ساتھ بیٹھے وضو کر رہے تھے، پاک ہورہے تھے اور جنت کے کسی گوشے میں جگہ الاٹ کروا رہے تھے ، بعد میں سعید نے بتایا کہ روایت ہے  کہ جب حضرت موسی اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر جبل نیبو آئے تھے یہ علاقہ بنجر تھا نبی موسی نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا زمین پر مارا اور اللہ نے بنی اسرائیل کے لئے پانی کے نو چشمے جاری کر دیے تھے یہ ان ہی نو چشموں میں سے ایک چشمے کا پانی ہے اور اس علاقے کو عیون موسی یا موسی کی وادی کہتے ہیں۔
یہاں ہم نے لوکل فنکاری اور بچوں کی مہارت و کاریگری کا نمونہ بھی دیکھا۔چھوٹے چھوٹے بچے نازک کانچ کی بوتلوں میں ریت بھر کے بوتل کے اندر مقامی ثقافت کے مطابق رنگوں سے ڈیزائن بنا رہے تھے، کچھ ریڈی میڈ تیار بوتلیں برائے فروخت ان کے سامنے سجی ہوئی تھیں، ان کے اوزار اور ساز و سامان میں مختلف سائز کی خالی بوتلیں، تسلے میں دھری سرخی مائل ریت، کچھ نلکیاں اور تیلیاں شامل تھیں، ہم نے ان کی مہارت کا چشم دید مظاہرہ دیکھا اور کچھ مختلف ڈیزائن پسند کرکے چھ ساتھ بوتلیں بطور ڈیکوریشن بنوائیں، کھجور کے درخت، بکریاں، ڈوبتا سورج ، نکلتا چاند، بارش بادل پھول کلیاں سارے ڈیزائن چھوٹی چھوٹی بوتلوں کے اندر سرخ ریت کے ساتھ اس طرح جم کر بیٹھ گئے تھے کہ مجال ہے بوتل کے اندر ریت کا ایک ذرہ بھی اپنی جگہ چھوڑے، حیرت ہوتی تھی اس صناعی پر اور بچوں کی ہنرمندی پر۔۔وہ معصوم بچے کوزہ گر نہ تھے مگر ضرورت نے ان کو فنکار بنا دیا تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر مقامی شعراء ہمارے لئے اجنبی تھے، کچھ مبتدی تھے، دو شاعر ہم سب کو پسند آئے جن کے کلام میں پختگی تھی، دونوں ترنم سے پڑھتے تھے اور دونوں کا تعلق ہندوستان سے تھا، ان میں سے ایک شاعر صاحب انڈین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری بھی تھے، بہت خوش الحان اور “شیفتہ” تخلص کرتے تھے اللہ جنت نصیب کرے میرے بہت سے مشاعروں میں شریک ہوئے اور داد وصول کی، دوسرے خوش گلو شاعر کا پورا نام محی الدین تھا اور وہ “عنقا” تخلص کرتے تھے، عنقا صاحب اسلوب شاعر ہیں اور اب تو ان کی شاعری میں بہت پختگی آ گئی ہے۔
مگر اس مشاعرے کی ہائی لائیٹ نہ تو شیفتہ تھے نہ عنقا اور نہ ہی دوبئی یا شارجہ کا کوئی مہمان شاعر بلکہ ” ڈھیٹ صاحب تھے”، ڈھیٹ صاحب کا نام نہ مجھے اس وقت معلوم تھا نہ ہی آج معلوم ہے، مگر وہ العین کے کوئی سینئر رہائشی تھے، انھوں نے مائیک پر آتے ہی اپنی دانست میں ایک انقلابی شعر پڑھا جو پاکستانی سیاست سے متعلق تھا، ظہور نے جو ناظم مشاعرہ تھے انھیں فوراً ” ٹوکا کہ جناب مشاعرے میں سیاسی اشعار پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔خیال رہے کہ مشاعروں میں آج بھی منتظمین کی طرف سے سیاسی شاعری پڑھنے پر پابندی ہوتی ہے، ہماری موجودگی میں خود فراز کے ساتھ یہ واقعہ ہو چکا تھا، چلیے لگے ہاتھوں یہ قصہ بھی سنتے چلیے۔
ظہور کا ہی ایک مشاعرہ تھا ابوظہبی میں، سفیر پاکستان مہمان خصوصی تھے۔۔فراز حسب معمول عالم جذب میں تھے، لیمریڈیئن ہوٹل کے تین سو کی گنجائش والے ہال میں پانچ سو لوگ ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے تھے آگے فرشی نشست کا انتظام بھی تھا جس پر نوجوان لڑکی لڑکیوں نے قبضہ جمایا ہوا تھا، فراز اپنا مشہور کلام سنا رہے تھے مگر اپنی مستی کے عالم میں وہ ایک مصرعہ پڑھتے تو دوسرا بھول جاتے جس کو سامعین مکمل کرتے، تین چار غزلیں سنا کے وہ مائیک پر سےہٹنے لگے تو ہال ” محاصرہ محاصرہ” کے نعروں سے گونجنے لگا۔۔
محاصرہ ایک ایسی نظم تھی جس پر فراز کو پابند سلاسل کر دیا گیا تھا، اب فراز کی سمجھ میں نہ آئے کہ کیا کریں جب شور زیادہ بڑھا تو انھوں نے بڑی بیچارگی سے منتظمین کی طرف دیکھا اور بولے”جناب میں یہ نظم نہیں سنا سکتا مجھے خاص طور پر سیاسی کلام پڑھنے سے منع کیا گیا ہے” میں مجبور ہوں۔۔۔سامعین نے شور کرنا شروع کردیا، آخر سفیر پاکستان اپنی جگہ سے اٹھے اور انھوں نے  ڈائس پر آکر دو باتیں کیں، کہنے لگے کہ میں نے بہت سے مشاعرے اٹینڈ کیے ہیں مگر ایسے سامعین نہیں دیکھے جن کو فراز کا کلام حفظ ہو، ایک مصرع فراز پڑھتے ہیں تو اس کو مکمل آپ لوگ کرتے ہیں اس لئےاگر آپ ایسے باذوق سامعین کے سامنے محاصرہ نہ پڑھی جائے تو یہ شاعر کے ساتھ ساتھ میرے ساتھ بھی ظلم ہوگا، میں اپنی ذمہ داری پر فراز کو محاصرہ پڑھنے کی دعوت دیتا ہوں
اورہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
تو خیر ذکر خیر ڈھیٹ صاحب کا تھا، ڈھیٹ صاحب نے ظہور کی تنبیہ کے باوجود دوسرا شعر بھی سیاسی پڑھا، اب ظہور کو غصہ آگیا اور انھوں نے مائیک پر ہی کہا کہ آپ کو مشاعرے سے پہلے ہی مشاعرے کے قواعد اور شرائط سے آگاہ کردیا گیا تھا، آپ کا مائیک بند کیا جا رہا ہے یہ کہہ کر ظہور نے شاعر کا مائیک بند کروادیا،کوئی اور بندہ ہوتا تو شرمندگی میں اسٹیج سے ہی نیچے اتر جاتا مگر شاباش ہے اس موٹی کھال والے پٹھے پر کہ وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور مائیک کے سامنے جم کے بیٹھا رہا آخر کار آصف رضوی صاحب خود اسٹیج پر گئے اور اس کو سمجھا بجھا کر اسٹیج سے اٹھا کر نیچے لے گئے،
یہ واقعہ ہم سب کو بہت عرصے تک یاد رہا، اس مشاعرے کے اختتام پر ڈنر کے بعد اسکول انتظامیہ کی طرف سے ہم سب اسپیشل مہمانوں کو چلتے وقت ایک سرٹیفیکیٹ سے بھی نوازا گیا جو آج بھی میری فائلوں میں موجودہے۔اور جب رات دو بجے ہم سب واپس آ رہے  تھے تو العین دوبئی روڈ پر ایک سو بیس فی کلو میٹر کی رفتار سے بھاگتی میری کار نے ایک دھچکہ لیا اور بےنکیل گھوڑے کی طرح سرپٹ ہوگئی۔
میری گاڑی کے بریک فیل ہوگئے تھے۔۔!
جاری ہے!+

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply