• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیری لیڈروں سے مودی کی ملاقات :منظر اورپس منظر(1)۔۔افتخار گیلانی

کشمیری لیڈروں سے مودی کی ملاقات :منظر اورپس منظر(1)۔۔افتخار گیلانی

نو ے کی دہائی کے وسط میں نئی دہلی میں کشمیر کو کور کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو بخوبی علم ہوگا کہ جموں و کشمیر کے قضیہ اور انسانی حقوق کی دگرگوں ہوتی صورت حال کے حوالے سے بھارت کس قدر شدید عالمی دباوٗ کا شکار تھا۔ مارچ 1994میں وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے چانکیہ نیتی کا بروقت استعمال کرکے ایران کو جھانسے میں لاکر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (تب یہ ادارہ کونسل نہیں کہلاتا تھا) سے کسی طرح جان تو چھڑوائی، مگر اس کے عوض ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کو کشمیر پر پیش رفت کی یقین دہائی کروائی۔ کمیشن میں قرار دار پاس ہونے کی صورت میں یہ براہ راست سلامتی کونسل کے سپرد کی جانے والی تھی، جہاں مغربی ممالک بھارت کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی تیاریا ں کر رہے تھے۔ بھارت کا دیرینہ دوست روس، سویت یونین کے بکھراوٗ کے بعد زخم چاٹ کر مغربی ممالک کو خوش کرنے کی قواعد میں مصروف تھا۔ (اس پورے آپریشن کی تفصیل میں اپنے کالمز میں تحریر کر چکا ہوں)۔

خیر ایران سے کئے گئے وعدے کے پیش نظر غالباً 1995میں نیشنل کانفرنس نے ایک مدلل میمورنڈم وزیر اعظم نرسمہا راوٗ کے سپرد کردیا، جس میں 1950میں بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان طے پائے گئے معاہدے یعنی دہلی ایگریمنٹ کو قانونی شکل دینے، اسکو پارلیمنٹ سے پاس کروانے اور ریاست کی 1953سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔ نیشنل کانفرنس کی ایما پر اسکا خالق کون تھا، ابھی سربستہ راز ہی ہے۔ اسکے چند روز بعد ہی 4نومبر 1995کو نرسمہا راوٗ نے افریقی ملک برکینو فاسو کا دورہ کرتے ہوئے کشمیر مسئلہ کو سلجھانے کا عندیہ دے دیا ۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان کا انگریزی کا جملہ Sky is the Limitخاصا مشہور ہوگیا۔ اس دوران بھارت کے ادارے مئی 1996میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نیشنل کانفرنس کی خوشامدیں کر رہے تھے ۔ مگر اس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نئی دہلی میں ان کے نمائندے پروفیسر سیف الدین سوز ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پہلے آٹانومی یاکوئی سیاسی پیکیج ان کے حوالے کر دیاجائے، جس کو لیکر و ہ عوام کے پاس جائیں گے۔ ان کی پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے ان کی افادیت پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔ ان ملک گیر انتخابات میں کانگریس پارٹی کو شکست ہوگئی، مگر جنتا دل کی قیادت میں دیو گوڑا اور بعد میں اندر کمار گجرال کی قیادت میں کانگریس کی ہی بیساکھیوں پر نئی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حکومت میں بائیں بازو کے مشہور راہنما اندر جیت گپتا وزیر داخلہ بنائے گئے تھے۔

بھارتی اداروں نے اب ریاست میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کی ٹھانی اور اسکے لئے ایک بار پھر نیشنل کانفرنس کو راضی کروانے کی کوششیں شروع کردیں۔ وزیر اعظم دیو گوڑا کے دست راست سی ایم ابراہیم نے و زارت داخلہ کے اہم افسران کے ہمراہ لندن میں فاروق عبداللہ کے ساتھ طویل گفت شنید کی، جس میں ان سے وعدہ کیا گیا کہ اسمبلی میں ا ن کو قطعی اکثیریت دلانے میں مدد کی جائیگی اور اسکے فوراً بعد وہ نرسمہا راوٗ کو دئے گئے میمورنڈم کو ایک ریزولوشن کی صورت میں بھاری اکثریت سے اسمبلی میں پاس کرواکے مرکزی حکومت کو بھیج دیا جائیگا۔ جس کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے ایک قانون کے طور پر پاس کیا جائیگا۔ 87رکنی اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کو 57، کانگریس کو 26اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کو محض دو نشستیں حاصل ہوئی۔ مگر انتخابات کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس میمورنڈم کا جائزہ لینے کیلئے پہلے ایک کمیشن تشکیل دیں اور جب تک کہ یہ کمیشن اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرتا، جنتا دل حکومت کا تختہ پلٹ چکا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 1996میں فاروق صاحب اگر تھوڑا صبر کرتے، تو ان کی انتخابا ت میں شرکت کو یقینی بنانے اور بین الاقوامی فورمز میں سبکی سے بچنے کیلئے نئی دہلی کی حکومت کوئی نہ کوئی سیاسی پیکیج ان کو ضرور تھما دیتی۔ بھارتی حکومت کے سر سے نیشنل کانفرنس کی انتخابات میں شرکت کی وجہ سے بلا ٹل چکی تھی۔ سویت یونین کے بکھراو ٗکے بعد روس جو مغربی ممالک کی پناہ میں چلا گیا تھا، سخوئی (Sukhoi MK -30)جنگی جہازوں کے سودے نے اسکو دوبارہ بھارت کا اتحادی بنا دیا۔ اس سودے نے اقتصادی صورت حال سے پریشان صدر بورس یلسٹن کو انتخابات میں دوبارہ کامیاب کروانے میں خاصی مدد کی۔ لگتا ہے کہ ایک بار پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ پچھلے دو سالوں سے دنیا بھر میں بھارت کے سفیر وہ نہیں کر پائے جو 24جون دن کے تین بجے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکاری رہائش گاہ پر اس گروپ فوٹو نے کیا، جس کی پہلی قطار میں وزیراعظم، ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شاہ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ ان کے فرزند عمر عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ہمراہ نظر آئے۔ لگتا تھا کہ ایک بار پھر مودی کے بغل میں یہ لیڈران امیر خسرو کا کلام من تو شدم تو من شدی‘ من جاں شدم‘ تو تن شدی تاکس نہ گوید بعد ازیں‘ من دیگرم تودیگری ،گنگنا رہے تھے، جو 1947میں شیخ عبداللہ نے لال چوک میں نہرو کا استقبال کرتے ہوئے ادا کئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اس بار بھی فاروق صاحب صبر کرکے میٹنگ میں اپنی شمولیت کو اعتماد سازی کے کسی اعلان سے مشروط کرواتے تو شاید نئی دہلی کسی حد تک اس کو پور اکر سکتی تھی۔ فروری میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے بعد ہی اس طرح کی میٹنگ کی قواعد شروع ہو چکی تھی، اور وزارت داخلہ کے اہلکار یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسطرح کی دعوت دینے کی صورت میں نیشنل کانفرنس کا کیا رد عمل ہوگا؟ ڈسٹرکٹ ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابا ت نے کنگز پارٹیوں کی ہوا نکال کر رکھ دی تھی، اور نئی دہلی کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ کسی سیاسی عمل کیلئے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر ہی تکیہ کرنا پڑے گا۔ اس میٹنگ میں گو کہ ان جماعتوں نے ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ تو کیا، مگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے دوٹوک الفاظ میں ان کو بتایا کہ دفعہ 370اور 35اے کا معاملہ تو اب عدالت کے سپرد ہے، اسلئے اسکے فیصلہ کا انتظار کیا جائے۔ مگر ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے امیت شاہ نے ایک روڈ میپ ان کے گوش گزار کر دیا۔ مارچ 2020میں جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں ایک حدبندی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے، جو اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کریگا اور بعد میں اس نئی حد بندی کے تحت اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونگے۔ پھر یہ اسمبلی ایک قرارداد پاس کرکے پارلیمنٹ سے ریاستی درجہ کی بحالی کی گزارش کریگی۔ جس کے بعد ہی وزرات داخلہ اس پر قانون سازی کرنے کا کام شروع کرسکتی ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply