الو کی پٹھی/محبت کُھر ک ہے ،سے اقتباس۔۔سلیم مرزا

گاڑی رکتے ہی تیزی سے اُتری اور فٹ پاتھ پہ چلنے لگی ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا وہ آدھ فرلانگ آگے جاچکی تھی ۔
اس کی ٹھہری کمر اور کولہے کی لچک کو دل نے آنکھوں تک کھسک کے دیکھا ۔ میں دھیرے دھیرے گاڑی اس کے پہلو میں لے گیا ۔
وہ ننگے پاؤں پتوں پہ چل رہی تھی ۔
تب میری نظر جوتوں پہ پڑی، جو وہ فٹ میٹ پہ اتار گئی تھی
“جاناں، تیری جتی “میں نے اسے پکارا۔۔
وہ  کھلکھلا کے مڑی ۔پیلے پتے اس کے پاؤں تلے چرامرا  کر رہ گئے ۔
“کچھ بھی چبھ سکتا تھا ۔؟”
گورے پاؤں کی چبھن کا تصور دل تک چبھا۔۔
اس نے سنی اَن سنی کردی تو مجھے غصہ آگیا ۔میں گاڑی اور قریب لے آیا ۔
اتنے قریب کہ اب مجھے پتوں کے  سسکنے کی آواز بھی سنائی دینے لگی۔۔
“چل ۔ایدھر وڑ ”
“بابا ، تو باہر آ “اتنا کہہ کر وہ جھک گئی ، ہتھیلیوں سے پتوں کو دبایا ، اور مجھے آنکھ ماردی ۔
پتوں کے اوپر بیٹھی ایسے لگ رہی تھی جیسے کسی نے ٹیولپ الٹا رکھ دیا ہو ۔
مجھے لگ رہا تھا ، آتے جاتے گاڑیوں والے ہمیں دیکھ رہے ہیں ۔ ۔اسے رتی بھر احساس نہیں تھا ۔
میں گاڑی سے نکلا، اسے بازو سے پکڑ کر فٹ پاتھ سے اٹھایا اور دروازہ کھول کر سیٹ پہ بٹھادیا ۔
وہ مسکرا رہی تھی ۔اس نے سیٹ پہ پھسکڑا مارا اور میری طرف جھک گئی ۔۔۔۔
اسے میری سانس روکنے کا فن آتا تھا ۔
“تم جھوٹ بولتے  ہو  ۔۔تم نے کبھی محبت کی ہی نہیں ”
میں نے آنکھ اٹھا کر اس کے چہرے کو دیکھا، شرارت تھی سنجیدگی نہیں تھی۔ اس لئے جواب دینے کی بجائے میں نے گاڑی آگے بڑھا دی ۔
اس نے پسنجر سیٹ کو لٹایا، اور ڈیش بورڈ  سے ٹیک لگا کر نیم دراز ہو گئی ۔
“پاگلوں کی طرح پتوں پہ چلنے کا محبت سے کیا تعلق “؟
میں نے پوچھا تو پہلے اس نے ہاتھ میں پکڑے پیلے پتوں کو دیکھا پھر مجھے
“بتا دوں۔۔ ؟”
“بتاؤ”
“محبت کھلا آسمان مانگتی  ہے  اور تم ۔۔۔تم ہمیشہ چھپنے کی جگہ ڈھونڈتے ہو۔۔خواہشوں پہ ننگے پاؤں چلنے کا مزہ تمہیں کیا پتہ “؟
میں اسے کیوں بتاتا ۔؟۔۔۔کبھی میرے پاس بھی کھلا آسمان تھا ۔ساری عمر لکن میٹی ہی تو کھیلی ۔تپتی دوپہر میں ۔۔۔۔چھت پہ کھڑی چارپائیوں کی اوٹ میں۔۔پگھلتی لو کی حدت ،اور کچے پسینے کی خوشبو ۔
اشارہ بند ہوگیا ۔
زرد پتوں پہ چلنے والی کو جلتی چھت کا کیا پتہ ، ہتھیلیوں پہ کوئی ننگے پاؤں کھڑا ہو تو ٹائلوں کی تپش سے ہاتھ نہیں جلتے۔۔
“بزرگو۔۔۔۔”جاناں نے چٹکی بجا کر متوجہ کیا۔
“کرولا والا مجھے گھور رہا ہے ”
“بنداشارے پہ پڑوسی کا اتنا حق تو بنتاہی  ہے،ویسے بھی وہ سوچ رہا ہوگا ،
اتنے معزز شخص کے ساتھ یہ چول سی لڑکی کیسے “؟
میں نے اس کے انداز نشست پہ تبصرہ کیا تو اشارہ کھل گیا ۔
“بابا حیاکر ۔اگر میں سیدھی ہوکر بیٹھوں تو لوگ مجھےتمہاری کڑی سمجھیں ”
“اگر تم لیٹ پیدا ہوئی ہو تو اس میں میرا کیا قصور “؟میں نے پیکٹ سے سگریٹ نکالتے ہوئے کہا ۔
“میں اگر جلدی آجاتی توتمہیں بتاتی کہ محبت کیا ہوتی  ہے “اس نے لائٹر جلا کر سگریٹ کے قریب لاکر بجھا دیا۔
مجھے پتہ تھا کہ اس نے یہی کرنا  ہے ۔ میرے ساتھ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔روشنی ہر بار سلگائے بنا چھوڑ جاتی  ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply