گور پیا کوئی ہور(1)۔۔ادریس آزاد

شروڈنگراِکویشن سے جنم لینے والے سوالات میں سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا حقیقتیں متعدد ہیں؟ انگریزی میں کہا جائے، تو کیا رئیلٹی ملٹی پل ہے؟1940  میں ہیوایورٹ نے اس پر مزید دلائل کا بوجھ لاددیا اور یہ سوال کہ حقیقتیں متعدد ہیں، پوری فزکس کمیونٹی کے لیے ایک ایسا ناقابلِ قبول چیلنج بن کر رہ گیا کہ جس کا کوئی بھی جواب تجربیت پسند طبیعت کو راس نہیں تھا۔ چنانچہ فزکس میں پیرالل رئیلٹی کے علماکی پیدائش گویا ایک شرم کی بات بن گئی اور یہ موضوع ہالی وُڈ کو سونپ دیاگیا۔ البتہ فزکس کبھی بھی اس سوال سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکی اور وقت کی گود سے متواتر کوئی نہ کوئی ایسا تحقیقی ذہن جنم لیتا رہا جس کو اس سوال کی منطقی اور علمی حیثیت سے دلچسپی تھی۔اس وقت بھی ایڈورڈ وٹن اور ایل گوتھ جیسے بہت بڑے بڑے دماغ موجود ہیں جو فزکس کی ملٹی پل رئیلٹی کے تصور میں یقین رکھتے ہیں۔

اگر ہم وقتی طورپر یہ تسلیم کرلیں کہ پیرالل رئیلٹیوں کا وجود ہے، تو یہ ماننا لازم آتاہے، کہ شاہد یا ناظر(آبزرور) کے لیےموت کا وجود ممکن نہیں ہے۔کیونکہ اگر حقیقت کا وجود ناظر کے ساتھ مشروط ہے تو ناظر کے بغیر حقیقت کے لیے وجودکا کوئی امکان نہیں۔ایسی صورت میں ایک بہت دلچسپ نتیجہ برآمد ہوتاہے، اور وہ یہ کہ کوئی بھی انسان فی الاصل مرتا نہیں ہے۔جب وہ دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتاہے تو وہ سمجھتاہے کہ اُن کی طرح وہ بھی ایک دن مر جائےگا۔ وہ ہمیشہ ڈرتا رہتاہے کہ ایک دن وہ بھی مر جائےگا، لیکن وہ اپنے فریم آف ریفرنس میں ہمیشہ ہی زندہ رہتاہے۔ فرض کریں ایک شخص ’’زید‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے کہ وہ بوڑھا ہورہاہے، اس کے قویٰ کمزور ہورہے ہیں اور یہ کہ وہ اب مرنے کے قریب ہے، چنانچہ جلد ہی وہ مر جائےگا۔

فرض کریں کہ ایک دن اس شخص کو ہارٹ اٹیک آیا اور اس کے بچے اسے ہسپتال لے گئے۔ اب سب دیکھ رہے ہیں کہ زید مررہاہے لیکن زید کے اپنے فریم آف ریفرنس سے وہ فقط شدید بیمار ہے۔ اس کے اپنے ذہن میں بھی موت کا خوف ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ نہیں مرےگا۔ وہ صرف یہ جانتاہے کہ وہ آج مر جائےگا۔

اب ایک بار زید کے آس پاس کھڑے ناظروں کی نظر سے دیکھیں۔ ان کا باپ مررہاہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں اور پھر ان کی نظروں کے سامنے ان کا باپ مرگیا ہے۔ وہ اس کی باڈی کو لے گئے۔ اس کا جنازہ پڑھایا اور اسے دفنا دیا۔ لیکن اب واپس زید کے فریم آف ریفرنس میں آئیں۔ وہ دیکھ رہاہے کہ اس کے دل کا آپریشن کامیاب ہوگیا اور اس کے بچے اسے مبارکباد دے رہے ہیں۔ سب اس کے آس پاس جمع ہے اور وہ ایک بار پھر بچ گیا ہے۔

زید بوڑھا ہونے تک شاید لاکھوں بار مرگیا تھا، لیکن دوسروں کے لیے۔ اپنے آپ کے لیے وہ کبھی نہیں مرا۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے، کئی بار مرتے مرتے بچا ہے اور ہر بار ہی بچ جاتاہے۔ وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت ، بہت لَکی سمجھتا ہے اور یہی سوچتاہے کہ ’’بس بال بال بچ گیا، اس بار تو‘‘۔

اگر پیرالل حقیقتوں کو سچ مان کر آگے بڑھیں تو یہی نظر آئےگا کہ شاہد (آبزرور) کے لیے موت کا کوئی امکان نہیں۔وہ ایک زندہ وجاوید ہستی ہے اور وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ وہ ایک زندہ و جاوید ہستی ہے۔ اس بات کی خبر اسے کبھی نہ کبھی پتہ چلے گی۔ لیکن ابھی نہیں۔ ابھی یہ ساٹھ، ستر، اسی ، نوّے یا سوسال کی زندگی والے انسانوں کے درمیان، اسے یہی لگتاہے کہ وہ مرجائےگا ضرور۔

ہم فرض کرتے ہیں کہ ایسے ہی حادثات سے بچتے بچتے زید بالآخر سو، سوا سوسال کا ہوگیا۔
سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ دو سوسال یا تین سو سال یا اس سے بھی زیادہ کا ہوجائے؟ تین سو سال کا تو کوئی بندہ ہمیں ہمارے آس پاس نظر نہیں آتا۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ یہ نظریہ درست نہیں۔ جواب یہ ہے کہ جوں جوں زید بچتا جاتاہے، ان وسائل کی منطق بھی اس پر واضح ہوتی جاتی ہے جن کی بدولت وہ سمجھتاہے کہ وہ بچ گیا۔وہ کہتاہے پرانا زمانہ ہوتا تو میں نہ بچتا، اب دیکھونا فُلاں حکیم، فلاں دوا، فلاں آپریشن، فلاں شعبدے سے میری جان بچ گئی۔ اس کے لیے لاجک ہمیشہ موجود رہےگی۔ چنانچہ ہوتا یہ ہےکہ وہ جب زیادہ عمر کا ہوتاہے جاتاہے تو اپنے فریم آف ریفرنس میں اسے ویسی ہی تبدیلیاں بھی ہوتی ہوئی نظر آتی چلی جاتی ہیں جو منطقی اعتبار سے ضروری تھیں۔ مثلاً اسے اپنے آس پاس اپنی عمر کے لوگوں کی تعداد پہلے سے زیادہ دکھائی دینے لگتی ہے۔ اسے اپنی گزشتہ بیماریوں سے نجات کی وجوہات اور اسباب معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک سو پچاس سال کا ہوجائے تووہ جس جہان میں رہ رہاہوتا ہے، ہمارے لیے وہ جہان تصور میں لانا مشکل ہے۔ کیونکہ اُس رئیلٹی میں سوسال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا موجود ہونا عام سی بات ہے۔ ہم اِس کرونیائی جہان کے باشندے اگر گریوٹی بس کے ذریعے کبھی سفر کرکے اُس جہان تک جا سکیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ارے واہ! یہاں تو ایک ایسی دنیا آباد ہے جہاں لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی کو اسّی سال کی عمر میں ، کسی کو سو سال کی عمر میں، کسی کو ڈیڑھ سو سال کی عمر میں، کسی کو دوسو سال کی عمر میں حقیقت پتہ چل تو جاتی ہے کہ ’’اچھا اچھا، کہانی یہ ہے کہ ہم اصل میں مرتے ہی نہیں ہیں‘‘۔ تب وہ جان جاتاہے کہ جب جب کسی رئیلٹی میں میری قبر بنتی رہی، دراصل قبر میں جس کو دفنایا جاتا رہا وہ میں نہیں تھا۔
یعنی گور پیا کوئی ہور۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply