کیاسعودی عرب بدل رہا ہے؟ ۔۔۔منصور ندیم

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ چند ماہ میں مختلف فورمز، فیسٹولز اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کی مختلف کانفرنسز میں جو مختلف بیانات اور اقدمات کئے ان پر انہیں قدامت پسندوں کی طرف سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ مغرب سے کافی پذیرائی ملی اور داخلی طور پر سعودی عرب میں بھی اس حوالے سے ملا جلا رحجان رہا۔پاکستان میں بھی مختلف طبقہ ہائے فکر اپنی اپنی فہم کے مطابق اس کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ مذہبی حلقے اس کو گمراہی گردان رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب اپنی روایات اور اسلام کی بنیادی فکر سے تبدیلی کی طرف جارہا ہے، یا وہ ایک سیکولر ریاست کے تصور کی طرف گامزن ہے، جبکہ سیکولر حلقے بھی اس پر اپنے اپنے ذوق کے مطابق خیال آرائی فرما رہے ہیں، اور کئی ایک تو بہت ہی مضحکہ خیز تجزیات پیش کر رہے ہیں۔

سعودی عرب کے موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بیانات ( جو ماضی کے سعودی عرب کی تاریخ کے روایتی اصطلاحات اور اقدامات سے کافی حد تک متصادم محسوس ہوتے ہیں) نے پوری دنیا کی توجہ ناصرف ان پر مبذول کروا دی ہے، بلکہ اہل مغرب میں ان بیانات اور اقدامات کو کافی سراہا بھی جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سعودی عرب مکمل طور پر ریاستی اور معاشرتی تبدیلی کی طرف جارہا ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ صرف ایک معاشی تبدیلی کا سفر ہے، جسے بین الاقوامی قبولیت دینے کے لئے چند معاشرتی اصطلاحات کی جارہی ہیں۔ جو اہل مغرب کو اس خطے میں سرمایہ کاری پر متوجہ یا راغب کراسکے۔
بنیادی طور پر سعودی عرب کی معیشت کا سارا انحصار تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی پر تھا، اس کے بعد کسی درجے میں حج و عمرہ پر آنے والے زائرین اور یہاں پر رہنے والے غیر ملکی افراد کی فیسز پر تھا،دنیا بھر میں  توانائی کے متبادل ذرائع کی بنیاد پر یہ صورتحال یکسر بدل گئی ہے اور سعودی عرب اس وقت ایک بڑے معاشی بحران کی طرف جارہا ہے، بالاصل یہ تمام جدید اصلاحات اور بیانات اس بدلتی صورتحال سے نکلنے کا ایک شاخسانہ ہیں۔ سعودی عرب نے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے ان تینوں شعبوں کو ہی مرکوز کیا ہے ۔

جدید معاشی اور معاشرتی اصلاحات کا ایک جائزہ:

سعودی عرب نے عالمی توجہ حاصل کرنے کے لئے جن معاشرتی اصلاحات کا آغاز کیا ان میں سے ایک صوفیا نامی روبوٹ کو سعودی شہریت دینا ہے جسے پوری دنیا میں بہت سراہا گیا ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب میں قدامت پسندی کی وجہ سے عوامی سطح پر موسیقی اور رقص کے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن جدہ کے قریب کنگ عبداللہ اکنامک سٹی تعمیر کرنے والے گروپ ای ای سی گروپ نےجاز فیسٹیول منعقد کیا جس کے مطابق اس فیسٹول میں غیر ملکی موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرسکیں گے ۔ انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ سعودیوں شہریوں کی بڑی تعداد اس فیسٹول میں ٹکٹ حاصل کریں گے۔سرمایہ کاری کے حوالے سے منعقدہ ایک اور کانفرنس کے دوران ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ملک میں اس طرح کے ایونٹس اور ثقافتی پرفارمنسز کی بہت زیادہ مانگ ہے جس پر پہلے کام نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ ایک اور کانفرنس میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب 1979 سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ سعودی عرب اور پورے خطے میں مختلف وجوہات کے لیے 1979 کے بعد سے الصحوہ (آگاہی) کی ایک تحریک چلائی گئی۔’
شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ‘ہم پہلے ایسے نہیں تھے۔ ہم اس جانب واپس جا رہے ہیں جیسے ہم پہلے تھے، ایسا اسلام جو کہ معتدل ہے، اور جس میں دنیا اور دیگر مذاہب کے لیے جگہ ہو۔’
یاد رہے کہ حال ہی میں سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ملنے کے بعد روشن خیالی کی جانب ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی نے میوزک کنسرٹ نشر کیا تھا۔ جبکہ رواں برس جنوری میں بھی جدہ میں ایک دہائی بعد عوامی سطح پر ایک بڑا کنسرٹ منعقد کیا گیا تھا
اور اب پھر سعودی عرب کے کلچر اور آرٹ کے چینل الثقافیہ پر کئی دہائیوں کے بعد معروف عرب گلوکارہ ام کلثوم کا کنسرٹ نشر کیا گیا۔مشرق وسطیٰ میں ماضی کی معروف گلوکارہ امِ کلثوم کو لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔
کنسرٹ نشر کرنے کے بارے میں ٹی وی چینل الثقافیہ کی ٹویٹ کو سو مرتبہ دوبارہ ٹویٹ کیا اور یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ ’اُمِ کلثوم کی سعودی چینل پر واپسی‘ کے ہیش ٹیگ سے 54 ہزار ٹویٹس ہوئیں۔ جہان ایک طرف سعودی عرب میں مصری گلوکارہ کے مداحوں نے اس فیصلے پر خوب جشن منایا اور سوشل میڈیا پر اُن کے مقبول گانے اور کنسرٹ کی تصاویر شیئر کیں۔ وہاں دوسری جانب قدامت پسند حلقوں کے بعض افراد نے وہ قرانی آیات شیئر کی جن میں آخرت کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بعض قدامت پرست مسلمانوں کے خیال میں موسیقی سننا گناہ کا باعث ہے اور اس سے توجہ عبادت کے بجائے دوسرے جانب مبذول ہوتی ہے۔ لیکن اس تبدیلی کے حمایتی اور مخالفین دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اُس نام نہاد ‘آگہی’ بیدار کرنے والی اسلامی فورسز کا خاتمہ ہے۔ جس کا گذشتہ چند دہائیوں سے ملک پر اپنا اثر و رسوخ ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو ان تمام تبدیلیوں کے روح رواں ہیں ان کا اصل مقصود ان تمام تبدیلیوں کے پیچھے ملک کو موجود تیل پر انحصار آمدنی سے نکال کر صنعتی پیداوار کا رخ کرنا ہے۔ اس کے لئے سعودی عرب نے پانچ سو ارب ڈالر کی لاگت سے ایک نیا شہر اور کاروباری زون ( این ای او ایم) نیوم نامی تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو ملک کے شمال مغربی علاقے میں 26 ہزار پانچ سو مربع کلومیٹر پر محیط ہو گا۔ سعودی ولی عہد کے مطابق این ای او ایم (نیوم) نامی منصوبے سے سال دو ہزار تیس تک سعودی معیشت میں ایک سو ارب ڈالر تک حصہ ہو گا، اور اس این ای او ایم (نیوم) نامی منصوبے کو ریاست کے علاوہ، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی طرف سے سرمایہ فراہم کیا جائے گا، اور یہ بحرِ احمر کے ساحل اور وسط خلیج پر ایک پرکشش مقام پر ہو گا جو اسے  ایشیا ، افریقہ اور یورپ سے جوڑے گا۔ اس علاقے کا موسم بھی باقی سعودی عرب کے مقابلے میں کافی معتدل ہے۔
اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اس منصوبے میں نو شعبوں پر توجہ دی جائے گی جس میں خوراک، ٹیکنالوجی، توانائی اور پانی شامل ہے۔
این ای او ایم (نیوم) نامی یہ منصوبہ ایک مکمل ریاستی منصوبے کے ساتھ ایک جدید ترین رہائشی شہر کی صورت میں ہوگا۔ یہ شہر کسی درجے میں دبئی یا اس سے بہتر  جدت  پر آباد کیا جاے گا۔ جہاں کا نظام عام سعودی معاشرت اور روایات سے الگ جدید روایت کے اصولوں کی بنیاد پر ہو گا، اور نہ ہی وہاں عام سعودی ریاستی قوانین لاگو ہونگے، وہ جدید شہر اپنے قوانین میں ایک علیحدہ اور خود مختار قوانین کے تابع ہوگا۔جسے ایک طویل پل کے ذریعے دوسرے عرب ممالک سے ملایا جاے گا۔ جن میں مصر، اردن اور عرب افریقی ممالک ہونگے۔یہ دو براعظموں کو جوڑنے والے طویل ترین  اور جدید ترین پلوں پر بننے والا منصوبہ 500 ارب ڈالرز پر مشتمل ہو گا۔
جہاں دنیا بھر کے سرمایہ کار ٹیرف اور سعودی قوانین کی موجود دقیق اور پیچیدہ بندشوں سے آزاد ہو کر آسان بنیادوں پر اپنی معاشی سرگرمیاں انجام دے سکیں گے۔ یہ شہر روایتی بنیادوں پر چلنے والے سعودی عرب کی معاشی حالت کو بدلنے میں مددگار ہوگا۔ اور سعودی عرب کو خلیجی دنیا میں ایک نئی پہچان دے گا۔
اس سے پہلے اگست میں سعو دی عرب نے سیاحوں کے لیے ایک بڑے پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا جس کے نتیجے میں بحرِ احمر کے ساتھ موجود 50 جزیرے لگژری سیرگاہوں میں بدل جائیں گے اور اس منصوبے سے امید کی جا رہی ہے کہ اس سے غیر ملکی سیاح اور مقامی افراد کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی معیشت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔

دوسرے شعبوں میں عمرہ ویزہ کے اجرا کی فیس میں پہلے ہی 2000 ریال تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان پر بھی حیرت انگیز سطح  تک اضافے کئے گئے ہیں اور غیر ملکیوں پر بھی ماہانہ فیملی ٹیکس فیس اور اقامہ پر سالانہ فیس میں اضافہ کردیا، یہاں پر رہنے والے غیر ملکی افراد پر ان فیصلوں سے پیش آمدہ مسائل کی تفصیلات پر ایک مکمل مضمون علیحدہ سے درکار ہوگا۔

کیا سعودی عرب واقعی معاشرتی طور پر تبدیل ہونے جارہا ہے:

ویژن 2030 کے مطابق جس سعودی عرب کو جدت اور روشن خیالی کی بات کی جارہی ہے وہ مجموعی طور پر پورے سعودی عرب کے بارے میں نہیں ہے۔ جس کے مطابق حالیہ دنوں میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت، مستقبل قریب میں سینما، اور سمندری ساحلوں پر مخلوط تفریح گاہیں، اسلام کی شدت پسندی کی تشریحات پر نظر ثانی وغیرہ وغیرہ۔
سعودی عرب کی مجموعی آبادی لگ بھگ 30 ملین کے قریب ہے ، جس میں 10 ملین غیر ملکی ہیں، یعنی سعودی عرب کے مقامی شہریوں کی تعداد 20 ملین ہے، 20 ملین کا دو تہائی حصہ آج بھی چھوٹے شہروں اور قبائل پر مشتمل ہے. اور ان قبائل اور چھوٹے شہروں کی طرف زندگی اور روایات و ثقافت آج بھی قرون اولی جیسی ہے جسے تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور نہ ہی ممکنہ طور پر سعودی ریاست چاہتی ہے۔
ان تمام اصطلاحات کا نفاذ تین مرکزی شہروں دمام، جدہ اور ریاض پر ہوگا۔ جن میں آنے والے دنوں میں عورتوں کے مختلف اقسام کی کھیلوں کے لئے گراؤنڈز کا منصوبہ بھی شامل ہے ، اور نیوم نامی ساحلی شہر کے منصوبے پر ہوگا، جہاں کے قوانین موجود سعودی ریاست قوانین سے یکسر مختلف ہونگے۔ ویسے بھی موجود ریاست سے مقامی شہری جن تفریحات کے لئے بحرین اور دبئی کا رخ کرتے تھے وہ تمام ان کو یہاں میسر ہونگی۔ بلکہ پوری دنیا کو سیاحت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی اس شہر کو خلیج کا مرکز بنایا جاے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

معاشی ویژن 2030 سعودی عرب کے معاشرتی، ثقافتی، اور روایتی مذہبی خیالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لانے جارہا۔ بلکہ معاشی امور کے اس ویژن پر بھی دنیا بھر کے معاشی مبصرین اور ماہرین کے یقیناً بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں کہ یہ منصوبہ کتنا حقیقی ہے۔ اور کتنا تصوراتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply