• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • سابق وزیر اعظم ڈیل کے بجائے واقعی دلیل پر انحصار کریں۔۔۔طاہر یاسین طاہر

سابق وزیر اعظم ڈیل کے بجائے واقعی دلیل پر انحصار کریں۔۔۔طاہر یاسین طاہر

دنیا میں دلیل سے بڑھ کے کوئی شے طاقتور نہیں ہے۔ہلاکت و بقا کا مدار دلیل کی قوت اور سچائی پہ ہی ہے۔سچ کو دوام ہے، جھوٹ ہمیشہ منہ کے بل گرتا ہے۔تاریخ یہی ہے اور آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گا۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے جب احتساب عدالت میں اپنے اور بچوں کے خلاف دائر ریفرنسز کے بعد لندن اور جدہ میں قیام کو طویل کیا تو بلاشبہ شبہات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ جب گذشتہ دنوں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب لندن میں سابق وزیر اعظم سے ملاقات و پارٹی مشاورت کے لیے گئے، تو ان شبہات کو تقویت ملی کہ میاں نواز شریف صاحب کسی نئے این آر او کی تلاش میں ہیں تا کہ انھیں نہ صرف گرفتار نہ کیا جائے بلکہ انھیں نیب عدلاتوں سے ریلیف بھی ملے۔
یہ باتیں یا افواہیں در اصل اس لیے پھیلی ہیں کیونکہ پاکستانی سیاست کا مزاج یہی ہے۔البتہ سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے اپنی وطن واپسی کے حوالے سے افواہوں کی تردید کر دی کہ ان کی واپسی اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کا نتیجہ ہے ۔ڈان کی ایک خبر کے مطابق،اسلام آباد کی احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کے سلسلے میں پیش ہونے سے قبل میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا کوئی امکان نہیں ہے۔سابق وزیرِاعظم نے یہ بھی کہا کہ کہ 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے بعد وہ عدلیہ کی آزادی کے لیے کھڑے ہوئے، تاہم ایسی عدلیہ کی حمایت نہیں کرتے جو آمروں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی ڈیل کا حصہ نہیں بن رہے نہ ہی این آر او کے تحت مقدمے کی سماعت سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔
نواز شریف نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ 2007 کی طرح 2017 میں بھی این آر او چاہتے ہیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ ایسی کسی ڈیل کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔واضح رہے کہ سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان ڈیل کےنتیجے میں این آر او وجود میں آیا تھا۔نواز شریف نے کہا کہ انہیں کوئی ٹیکنو کریٹ کی حکومت بنتے ہوئے نظر نہیں آرہی، اس طرح کی افواہیں گذشتہ 70 برسوں سے سنتے آرہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ملک میں ایک ڈکٹیٹر اور منتخب نمائندے کے ساتھ علیحدہ علیحدہ رویہ رکھا جاتا ہے۔سابق وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ مجھے کیوں پیشیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی، شاید میرا قصور یہ تھا کہ میں نے پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنایا، لوڈشیڈنگ میں کمی کی، ملک میں امن بحال کیا خاص طور پر کراچی میں، اورمعیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔
3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس دن کو قانون دان ’یومِ سیاہ‘ کے طور پر مناتے ہیں جبکہ ہم نے 70 برسوں میں کئی مرتبہ یومِ سیاہ دیکھا لیکن کیا کبھی ہم نے اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی؟پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر بھی میڈیا سےبات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے صرف اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا، مجھے یہ تک نہیں معلوم کہ ریفرنس میں میرے خلاف کیا مخصوص الزامات لگائے گئے تھے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر میاں صاحب کو یہ تک معلوم نہیں کہ انھیں واقعی کیوں نکالا گیا، یا نا اہل قرار دیا گیا، اور یہ کہ انھیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ پاناما کیس میں ان پر کیا مخصوص الزامات ہیں تو یہ میاں صاحب کی سادگی یا تجاہل عارفانہ تو ہو سکتا ہے،لیکن حقیقت پسندی نہیں۔سچ بات تو یہی ہے کہ نہ تو لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی ہے اور نہ ہی معیشت نے ترقی کی ہے۔حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے چیزوں کو سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے۔فی الواقع میاں صاحب نے کوئی ڈیل نہ کی ہو گی مگر وہ اپنے کیس کے حوالے سے دلیل کو بھی بروئے کار نہیں لا رہے، جس کے باعث شبہات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہیں کہ ان کی نا اہلی میں عدالت کی جانبداری اور اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا ر فرما ہے۔ جس ترقی کا وہ رونا روتے ہیں اگر وہ صرف ان کی ذات کے ساتھ مشروط ہے تو بجائے خود سیاسی نظام اور کابینہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ حکومتیں کسی ایک شخص کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ سیاسی جماعتیں جب حکومت بناتی ہیں تو ان کے پاس ملک چلانے کی ایک پوری پالیسی اور منصوبہ بندی ہوتی ہے اور اس منصوبہ بندی پر عمل کرنے کے لیے ریاست کے ادارے موجود ہوتے ہیں۔میاں صاحب اور ان کی سیاسی جماعت،پیش آمدہ سیاسی بحران کا جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرے اور عدالتوں پر چڑھائی کرنے یا عدالتوں کو دبائو میں لانے کے بجائے واقعی  دلیل کو برائے کار لائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply