سویڈن میں مسلمان کو تورات جلانے سے روک دیا گیا /منصور ندیم

رواں و گزشتہ ہفتے سویڈن و ڈنمارک میں راسموس پالوڈن کی طرف سے قرآن کی منظّم بےحرمتی اور قرآن جلانے  پراحتجاج ہُوئے اور جس طرح سویڈن و ڈنمارک حکومتوں نے آزادی ءاظہارِ رائے کے نام پر انہیں کُھلی چھوٹ دی، بالکل اسی طرح ایک مصری عرب نژاد 34 سالہ شخص نے سویڈن سے اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے تورات جلانے کی اجازت مانگ کر اپنے حق آزادی اظہار کا حق مانگا۔ بالکل اسی طرح راسموس پالوڈن نے جمعے کے روز ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں جیسے مسلمانوں کی مقدس کتاب کو جلایا تھا، کیونکہ سویڈن اور ڈنمارک دونوں ملکوں کے حکام کی طرف سے پالوڈن کے قرآن جلانے کے عمل کو آزادی اظہار کے حق نے جواز فراہم کیا تھا، اور انہیں وہ احتجاج ان ممالک نے اپنے آزادی اظہار کے قوانین کے تحت دیا تھا۔

لیکن بالکل ایسے ہی حق آزادی اظہار کے لئے کوئی دو ہفتے پہلے ایک عرب نژاد 34 سالہ مصری نوجوان نے جب سویڈن حکومت سے اسٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر اسرائیلیوں کی مذہبی کتاب تورات جلانے کی اجازت مانگی تو سویڈن حکام نے اسے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا، لیکن صرف ایک ہفتے بعد دائیں بازو کے انتہا پسند راسموس پالوڈان نے سویڈن حکومت سے مسلمانوں کے خلاف احتجاج کی اجازت ملنے کے بعد سویڈن کے دارالحکومت میں ترک سفارت خانے کے باہر قرآن پاک کو نذر آتش کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ سویڈن نے یہ اقدام اسرائیل کی کسی دباؤ یا کسی فیصلے کے تحت نہیں بلکہ سویڈن حکام نے یہ اجازت دوہرے معیار کی بنیاد پر نہیں دی۔

بہرحال بارہا مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو اظہار رائے کے نام پر جلانے کے واقعات کے باوجود سویڈن میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ایک مسلمان کی جانب سے ایسی ہی ایک مقدس کتاب تورات کی بے حرمتی کرنے سے بخود روکا ہے، حالانکہ اجازت لینے والے 34 سالہ عرب نژاد کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ اجازت لے گا، اور وہ ایسا مقدس کتاب جلانے کے لئے نہیں بلکہ دنیا کو احساس دلانے کے لئے یہ کررہا ہے۔ کیونکہ وہ دنیا کو سویڈن و ڈنمارک کے دوہرے اظہار رائے کے معیار کو دکھانا چاہتا ہے۔ یہ بات ایک مقامی ایک سویڈش اخبار نے بھی شائع کی ہے کہ “وہ عرب نژاد 34 سالہ شخص جس نے سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے تورات کو جلانے کے لیے درخواست دی تھی، اس نے وسطی سٹاک ہوم کے سرجیل اسکوائر میں بھی بائبل جلانے کی درخواست دی تھی، اس کا کہنا ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے وہ جانتا تھا کہ صحیفوں کو جلانا جائز نہیں ہے، لیکن میں غصے میں ہوں، اور اس پر بحث کرنا چاہتا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام صحیفوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی جائے۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ اگر عیسائی دائیں بازو والے شدت پسندوں کو مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کی بے حرمتی کی اجازت مل سکتی ہے، تو ایسا ہی عمل تورات و انجیل بلکہ کسی بھی دوسرے مذہب کی کتاب کی بے حرمتی کے لئے ناقابل قبول کیوں ہے؟ کیا یہ ان ممالک کے دوہرے حق اظہار رائے کا غماز نہیں ہے؟
حالانکہ میرا موقف تو کسی کی بھی مذہبی کتاب کے لئے ایسا سوچتا ایک ناقابل برداشت عمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : یہ سلسلہ گزشتہ تین برس سے گاہے گاہے اٹھتا ہے ،جس میں ناورے، ڈنمارک، سویڈن اور ہالینڈ شامل رہے ہیں، ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے مہاجرين مخالف پارٹی ‘ہارڈ لائن‘ کے رہنما راسموس پالوڈن مسلمانوں کے خلاف فساد کھڑا کرتا ہے، یہ ڈنمارک کی انتہا پسند نظریات رکھنے والی جماعت “اسٹریم کرس” یعنی (سخت گیر) کے سربراہ پالوڈن کو دو سال قبل کے اوائل میں بھی متعدد جرائم بشمول نسل پرستی کی وجہ سے ایک ماہ قید میں رکھا گیا تھا،اور اپنی جماعت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اسلام مخالف ویڈیوز شائع کرنے کا الزام ہے۔ پالوڈن پر گزشتہ برسوں میں فساد پیدا کرنے کی وجہ سے دو سال کے ليے سويڈن ميں داخلے پر پابندی عائد ںی تھی، مگر وہ اس کے باوجود کبھی سویڈن کبھی ناروے میں دائیں بازو کے شدت پسندوں کو متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ ہمیشہ باقاعدہ طے شدہ پروگرامز کے مقامی شدت پسند دائیں بازو کی تنظیم کے کارکنوں کو مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو جلانے کے پروگرام آرگنائز کرتے ہیں، اس کے علاوہ سویڈن کے مقامی اسلام مخالف گروہ “اسٹاپ اسلامائزیشن آف ناروے” بھی ہے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply