• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یکم مئی اور آج کی سرمایہ دار دنیا ۔۔مشتاق علی شان

یکم مئی اور آج کی سرمایہ دار دنیا ۔۔مشتاق علی شان

محنت کار انسانوں کی طبقاتی جدوجہد کے میدانوں کے بڑے معرکوں میں سے ایک یکم مئی 1886کو گزرے ایک سو پینتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔شکاگو کے محنت کش کارخانوں اور کارگاہوں سے منظم ہو کر غیر انسانی اوقاتِ کار، حالاتِ کار اور اجرتوں میں اضافے جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے نکلے تھے لیکن امریکی سرمایہ داروں نے اس تحریک کو بزور کچلتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ سرمایہ داری نظام نے گزشتہ طبقاتی نظاموں کی وحشت اور سفاکی نہ صرف ورثے میں پائی ہے بلکہ اسے مزید منظم کیا ہے اور کرے گی ۔ دنیا کے چپے چپے کو کھلی منڈی میں تبدیل کرنے والے اس نظام نے اس کے لیے کتنا خون براہِ راست بہایا اور بہا رہا ہے یہ عالم آشکار حقیقت ہے اور اس کے خلاف مزاحمت اور محنت کار انسانوں کی جدوجہد تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے ۔
اس مردم خور نظام کے ” انصاف “ میں یکم مئی کی تحریک کے راہنماؤں آگست سپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشرز، جارج اینجلز، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن ، آسکرنیب اور دیگرنے پھانسیوں اور طویل قیدکی سزائیں پائیں ۔1889میں پیرس میں منعقدہونے والی محنت کشوں کی انقلابی کمیونسٹ تنظیم ”دوسری انٹر نیشنل“ نے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا اور 1890سے اسے دنیا بھر میں منانے کا آغاز ہوا۔ یوں یہ دن سرمائے کی بالادستی کے خلاف محنت کی عظمت کی تاریخی جنگ کا ایک ایسا استعارہ بن کر ابھرا جس سے آج بھی دنیا بھر میں فرد کے ہاتھوں فرد کے استحصال کا شکار کروڑوں محنت کش جبر سے دائمی نجات کا وجدان پاتے ہیں ۔
ان ایک سو پینتیس سال میں دنیا نے بہت کچھ دیکھا اور دیکھ رہی ہے ۔ یکم مئی کے معرکے کی تین دھائیوں بعدکامریڈ لینن کی بالشویک پارٹی کی قیادت میں روس کا عظیم اکتوبر انقلاب انسانی تاریخ میں محنت کشوں کی سب سے بڑی انقلابی جست کی صورت نمودار ہوا ، اس کے بعد چین کے ہاریوں ، محنت کاروں کا لانگ مارچ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے طبقاتی تحرک کی صورت نمودار ہوتے ہوئے سرخ سویرے پر منتج ہوا ۔ ایشیا سے مشرقی یورپ ،جنوبی امریکا اور افریقہ تک میں انقلابات نے سرمایہ داری ، سامراجیت ،نسل پرستی پر کاری ضربیں لگائیں۔ اور ثابت کیا کہ سوشلزم ہی اصل ترقی کی بنیاد ہے ۔اور پھریوں بھی ہوا کہ ترمیم پسندی ، انحرافات اور سامراجی ریشہ دوانیوں نے جہاں دنیا بھر میں محنت کشوں کے سب سے مضبوط قلعے سوویت یونین کو تحلیل کی طرف دھکیل دیا وہاں کامریڈ انورہوژا کے بقول ترمیم پسندی نے دیوارِ چین میں بھی شگاف ڈال دیے ۔ لیکن آج سوشلسٹ کیوبا اور سوشلسٹ کوریا جیسے ممالک ہمیں یہ درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ردِ انقلابی ادوار میں بھی اپنے آدرشوں پر قائم رہا جا سکتا ہے ۔
آج یکم مئی کا تہوار ایک عالمی وبا کووڈ19کے جلو میں شاید دنیا بھر کے محنت کش اس شایانِ شان طریقے سے نہ منا سکیں جو ان کی انقلابی روایت سے مخصوص ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام جو اس عالمی وبا سے نمٹنے میں بری طرح ناکام ہو ا ہے آج اپنے استحصال کی وجہ سے دنیا کو جہنم بنانے کی توجیح کرتے ہوئے اسی وبا کا سہارا لے رہا ہے ۔سرمائے کے اندھے ارتکاز نے ہم جیسوں سماجوں کے ساتھ جو کچھ کیا اور کر رہا ہے اس کے تناظر میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو کہ آبادی کا 29 اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔یہ نہ صرف تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے بلکہ اسے دو وقت کی روٹی کے حصول میں بھی سنگین دشواریوں کا سامنا ہے۔لیکن ہم جیسے سماجوں کو جانے دیجئے کہ خود سرمایہ داری کے مرکزی ممالک میں اس مردم خور نظام نے انسانوں کی کیا حالت کر دی ہے اور کیسے اس نظام کی نااہلی اور ناکامی پر اس کے نمائندہ ادارے پردے ڈالنے کی بھونڈی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
مثال کے طور پر جنوری میں بروسیلز میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انتہائی غربت و ہیومن رائٹس اولیوئیر ڈی سخوتر کی آن لائن پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی رپورٹ کی بموجب یورپی یونین میں 92 ملین سے زائد افراد غربت کا شکار ہیں اور یورپی یونین میں ہر 5 میں سے ایک شخص یا مجموعی آبادی کا 21.1فیصدغریب ہونے اور اس کے نتیجے میں سماجی اخراج کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔ ان اعداد و شمار کے حساب سے یہ تعداد 92.4 ملین افراد بنتی ہے۔ اس میں 19.4 ملین بچے اور 20.4 ملین مزدور بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ورلڈ بینک کی رپورٹ میں پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا جا چکا ہے سال 2021 تک دنیا میں15کروڑ افراد انتہائی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں گے، جن کی روزانہ آمدن 1.9 ڈالر یا تقریباً 311 پاکستانی روپے ہوگی۔دنیا پر اپنی تباہ کن پالیسیاں مسلط کرنے والے عالمی سامراجی اداروں میں سے ایک ورلڈبینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس بھی سرمایہ داری کے ہر کیے دھرے کو اس وبا کے سر ڈالتے ہوئے فرما چکے ہیں کہ ”وبا اور عالمی کساد بازاری کے باعث دنیا کی 1.4 فیصد آبادی انتہائی غربت تک پہنچ سکتی ہے۔“ فلیگ شپ رپورٹ میں ورلڈ بینک کا یہ لطیفہ بھی کم نہیں تھا جس میں کہا گیا کہ اگر یہ وبا نہ آتی تو عالمی انتہائی غربت کی شرح 7.9 فیصد تک گرنے کی توقع کی جارہی تھی۔ تاہم اب یہ شرح 9.4 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔
مارکس نے ٹھیک کہا تھا کہ سرمایہ داری کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اس لیے ہم دیکھتے ہیں کے دنیا میں 40 فیصد سے زائد غریب افراد تنازعات سے متاثرہ علاقوں کے باسی ہیں ۔ اور ورلڈبینک کی رپورٹ کے مصنفین کے بموجب وبا کی وجہ سے ان علاقوں میں ”غربت کے ہاٹ سپاٹ’“بن سکتے ہیں جہاں پہلے ہی معاشی بحران اور تنازعات موجود ہیں۔اب ان سے کوئی پوچھے کہ یہ بحرانات کس کے پیدا کردہ ہیں اور یہ تنازعات کس کی اختراع ہیں ؟۔وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے نوآبادیاتی نظام سے جدید نوآبادیاتی نظام اوراب مابعد جدید نوآبادیاتی نظام کا شکار یہ خطے اس تباہی سے کیوں دوچار ہوئے اور ہو رہے ہیں ؟۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک جانب ورلڈ بینک کے صدر کہتے ہیں کہ کووڈ 19 کی وجہ سے 2030 تک غربت مٹانے کا ہدف پورا ہونے کے بجائے پہنچ سے مزید دور ہوجائے گا، جب تک کہ فوری اور اہم اقدامات نہیں کیے جاتے۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے بقول طویل عرصے سے جاری معاشی ترقی اور روزگار میں اضافے کے باوجود اس صورتحال کا سامنے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں سماجی امداد یکساں تقسیم نہیں ہو رہی۔ لگے ہاتھوں وہ اسے سماجی انصاف کی شکست قراردیتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کے یہ گل میخ معلوم نہیں ” سماجی انصاف“ کس چڑیا کو سمجھتے ہیں ۔ دراصل ان کے نزدیک سماجی انصاف اس نظام کی بقا ہے جو فرد کے ہاتھوں فرد کے استحصال پر قائم ہے لیکن دنیا کی عظیم اکثریت جو محنت کار انسانوں پر مشتمل ہے اس کے لیے سماجی انصاف ذرائعِ پیداوار کی مشترکہ ملکیت سے مشروط ہے ۔یہ نظام ِ زرگری بارہا ثابت کر چکا ہے کہ اس نے دنیا کے مٹھی بھر سے بھی کم سرمایہ داروں کی دولت کے لیے لوٹ کھسوٹ کی ہوس نے کرہ ارض کو ایک دوزخ بنا دیا ہے جہاں یہ بڑے پیمانے پربے روزگاری ، بھوک ، غربت ،بیماری ، مہنگائی،جسم فروشی اور انارکی کو جنم دے کر اسے بد سے بدتر بنا رہا ہے ۔
مرض الموت میں مبتلا سرمایہ داری کووڈ 19سمیت کسی بھی وبا یا قدرتی آفت سے نبرد آزما ہونے میں بھی رکاوٹ ہے ۔یہ اسے بھی اپنے ہولناک جرائم کی پردہ داری اور اس سے بھی منافع کمانے کے جنون میں مبتلا ہے ۔یہ دنیا کو بہتری کی بجائے مزید تباہی اور ہلاکت کی طرف لے جاتے ہوئے اس وقت سماجی ترقی اور انسانوں کی زندگیوں میں بہتری اور تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور یوں یہ ایک رجعتی ،انسان دشمن نظام ہے۔ اس کے مقابلے میں محنت کش طبقے کے پاس کارل مارکس ، فریڈرک اینگلز ،ولادیمر لینن اور جوزف اسٹالین جیسے انقلابی اساتذہ کی تعلیمات ہیں ۔ان کے پاس بیسویں صدی کے عظیم انقلابات کا ورثہ ہے ، ان کے پاس سائنٹفک سوشلزم کی شکل میں،پرولتاری طبقے کی عبوری آمریت کی شکل میں ایک ایسا ترقی پسند اور انسان دوست نظریہ اور نظام ہے جو ذرائع پیداور اور آلاتِ پیداوار کی مشترکہ سماجی ملکیت کو یقینی بناتے ہوئے ،ذاتی ملکیت اور طبقات کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام موجود وسائل کو سماج کے اجتماعی فلاح کے لیے بروئے کارلانے ، سماج کو مساوی اور آزاد بھائی چارے کی بنیادوں پر منظم کرنے کی حقیقی قوت رکھتا ہے۔
آج یکم مئی کے جانبازوں کا وارث سوشلسٹ کیوبا جیسا ایک ننھا جزیرہ اسی سائنٹفک سوشلزم کے بل بوتے پر کووڈ 19جیسی وبا کے مقابل اپنے بغل میں موجود سامراجیت کے سرخیل امریکی شہنائیت پر اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے دنیا بھر کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ سوشلزم سے کمیونزم تک کا سفر ہی ہے جو اس کرہ ارض کو انسانوں کے لیے واقعی رہنے کی ایک مناسب جگہ بنا سکتا ہے ۔یہ ہر قسم کے استحصال اور سماجی بدصورتی کو ختم کر سکتا ہے ۔یہ ہر وبا اور قدرتی آفت سے نبرد آزما ہو نے کی فطری صلاحیت رکھتا ہے ۔ سو آج یکم مئی کا پیغام ایک غیر طبقاتی سماج کے قیام کی جدوجہد کو تیز تر کرنے کے عزم کا پیغام ہے ۔کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اسی عزم کے ساتھ اپنے انقلابی اساتذہ اور انقلابی ورثے سے وجدان پاتے ہوئے یکم مئی کے جانبازوں کی یاد کو تابناک بناتے ہوئے اپنے تاریخی فریضے کی جانب پیشرفت کر رہی ہے۔

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply