آنکھ کھلتے ہی کیا کرنا ہے؟۔۔عارف انیس

ویل، سائنس یہ بتاتی ہے کہ تقریباً 88٪ لوگ ایک ہی کام کرتے ہیں. وہ آنکھ کھلتے ہی اپنا سمارٹ فون ہاتھ میں پکڑتے ہیں. اپنی ای میل، واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام چیک کرتے ہیں اور انتہائی واہیات طریقے سے اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں. ہوسکتا ہے آپ بھی ان 88٪ میں شامل ہوں. میں بھی کئی سال تک شامل رہا ہوں اور اب بہت مشکل، بہت مشقت سے اس جتھے سے باہر نکلا ہوں.

اٹھتے ہی فون کو جپھا مار لینا، جدید باندر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے. اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے   کہ صبح اٹھتے ہی دماغ “ری ایکٹو موڈ” میں آجانا ہے. یہ ہوچکا ہے، کمنٹس کرو. یہاں سالگِرہ مبارک کا پیغام دینا ہے، ادھر فوتگی کی تعزیت کرو، وہاں دو چار دل یا گالیاں چھوڑ دو، فلاں کا مزاج درست کرنا ہے. آپ اب صرف ری ایکٹ کر رہے ہیں. ایک خوبصورت دن کی ایسی تیسی کا تیر بہدف نسخہ تیار ہے. سوال یہ نہیں کہ یہ سب کرنا ایک بے کار بات ہے، اصل معاملہ یہ ہے   کہ یہ آنکھ کھلتے ہی زندہ ہونے کا احساس اور ثبوت لیے بغیر یہ سب کچھ کرنا دماغ اور حسیات کو ایک کڑاہی میں تلنے کے مترادف ہے جس کا ذائقہ دن ختم ہونے تک ساتھ رہے گا.

مگر ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اگر سمارٹ فون کو اٹھتے ہی گلے سے نہ لگایا جائے تو اور کیا، کیا جاسکتا ہے؟ جواب سن کر شاید آپ کی ہنسی نکل جائے. یہی کہ آپ کون ہیں؟ زندگی سے کیا چاہتے ہیں؟ آج کے دن کون سے کام واقعی ضروری ہیں( اگر اس سوال کا جواب بھی فون سے ہی لینا ہے تو مرض تقریباً لاعلاج ہوچکا ہے اور فوری علاج کی ضرورت ہے )، موسم کیسا ہے؟ دھوپ کو کیسے محسوس کیا جاسکتا ہے؟ آپ کے آس پاس کسی خوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ آپ کے ارد گرد کون کون سے پیارے کون کون سے رنگ پہنے موجود ہیں؟ ان کو غور سے دیکھنا ہے، ان کے لہجے کا جلترنگ سننا ہے، ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا ہے، ان کی آنکھوں میں جھانکنا ہے اور وہاں موجود حیرانی سے ملنا ہے، دیکھنا ہے کہ ان کی مسکراہٹ آنکھوں کے گوشوں تک کیسے پھیلتی ہے، اور ان کے ہاتھوں کو تھامنا ہے اور ان کے ماتھے پر یا حسب توفیق ان کے ہونٹوں پر بوسہ دینا ہے. اور پھر یہ سب کچھ ہونے کا احساس اور اس کے اقرار کے ساتھ رب کی شکر گزاری کی بارش میں بھیگنے کا تجربہ لازم ہے کہ سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ ایک ایسا دن ہر شخص پر آتا ہے، جب ہر چیز موجود ہوتی ہے، مگر کچھ ادھر، اُدھر ہوجاتا ہے، جس سے سب اوپر نیچے ہوجاتا ہے.

یہی نہیں، بلکہ چائے کے کپ سے امڈتی بھاپ کو محسوس کرنا ہے، روٹی کے نوالے کو منہ میں ڈالتے ہوئے اس کے ذائقے کو، کڑک پن کو محسوس کرنا ہے، اس کی سوندھی خوشبو کو سونگھنا ہے، اس لمحے میں موجود رہنا ہے جب غذا آپ کے منہ میں ریزہ ہوتی ہوئی آپ کے گلے سے نیچے اترتی ہے، جب ایک نعمت کسی محبت کرنے والے کے کرم سے آپ کی توانائی، آپ کے جسم کا حصہ بننے جارہی ہے. بس یوں سمجھیں سلو موشن میں زندگی کے ایک ایک فریم پر نظر رکھنی ہے، اس کا حصہ بننا ہے، اس کے رنگ، خوشبو، مہک، ذائقے کو چننا ہے، ورنہ جب تک آپ دس ای میلیں، پندرہ میسجز، بارہ پوسٹیں دیکھیں گے، جب تک آپ کے آس پاس سے یہ ساری زندگی گزر چکی ہوگی اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا!!!

ہاں ،دن بھی باقی ہے، کاموں کی فہرست بھی ہے، اور فون بھی آپ کے پاس ہے. اسے اپنی مرضی سے آن کر کے دیکھیں، اس کی مرضی سے آن یا آف مت ہوں. یقین کیجئے آپ کے سارے کاموں کی گٹھڑی ادھر ہی ہے اور آپ کے ادھر، اُدھر ہونے سے بھی دنیا کو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا. ہاں، شاید آپ کی زندگی میں جتنی زندگی ہے، اگر اسے نہ جی پایا گیا تو شاید آپ کو فرق پڑ سکتا ہے. گو بہت سوں کو شاید نہیں بھی پڑے گا.
آج زرا کر کے دیکھیں اور بتائیں کیسا لگا؟
یہی ہونا زندگی ہے اور بہت ساری زندگیوں میں ہونا نہیں ہوتا.

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی کے ہر فریم میں جی کر دیکھیں، سانس لے کر دیکھیں، محسوس کرکے دیکھیں، حیاتی ایک خوب صورت بلا ہے. زندگی خوب صورت ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply