جولی کا فسانہ(2)۔۔سعید چیمہ

شام کا وقت ہونے کی وجہ سے رش قدرے زیادہ تھا لیکن اس کے باوجود بھی تانگہ آدھے گھنٹے میں مطلوبہ پتے پر یعنی شاہدرہ  پہنچ گیا، صدیق نے تانگے سے اترتے ہی پندرہ روپے تانگے والے کو تھمائے اور نوکروں نے توڑے دوبارہ اپنے سروں پر اٹھا لیے،  صدیق نے ایک تھڑے پر بیٹھے ہوئے دو نوجوانوں سے مکان نمبر پوچھا، ان میں سے ایک نوجوان، جس کی عمر بمشکل پندرہ سولہ برس ہو گی، نے ہاتھ کے اشارے سے بتاتے ہوئے کہا کہ دائیں طرف مڑنے والی گلی کی بائیں جانب آخری نکڑ پر آپ کو مطلوبہ مکان نمبر مل جائے گا، صدیق اور اس کے ملازمین تھوڑا سا چل کر دائیں طرف مڑنے والی گلی میں داخل ہوئے اور آخری مکان، جس کا نمبر 148 تھا، پر پہنچ گیا، دروازے پر صدیق نے دستک دی مگر جواب ندارد، دوسری دستک کے چند لمحوں بعد ایک نوکر ہانپتا ہوا دروازے پر نمودار ہوا اور نووار افراد  پر طائرانہ نگاہ ڈالی ۔۔

صدیق نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں دارا پور سے آیا ہوں اور خدا بخش کا بیٹا ہوں اور ان کے رشتے دار محمد دین سے ملنے آیا ہوں، نوکر اللہ دتے نے کہا کہ صاحب اس وقت گھر پر نہیں ہیں مگر بیگم صاحبہ گھر پر ہی ہیں، آپ ادھر ہی انتظار فرمائیں میں ان کو آپ کی آمد کی اطلاع دیتا ہوں،  تھوڑی دیر بعد اللہ دتہ واپس آیا اور مہمانوں کو اندر لے گیا، صدیق اور اس کے ملازموں کو گھر کے دائیں طرف بنائی گئی بیٹھک میں بٹھایا گیا، نوکروں نے سوغاتی توڑے بیٹھک میں بائیں جانب خالی جگہ دیکھ کر رکھ دئیے،  چند لمحوں بعد بیگم صاحبہ، جن کا نام نسرین بیگم تھا، بیٹھک میں داخل ہوئیں، رسمی علیک سلیک  بیگم صاحبہ نے چائے کا پوچھا، نوکروں نے لسی کی فرمائش کی جب کہ صدیق نے چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیا،  نسرین بیگم نے نوکر کو آواز دے کر  لسی اور چائے کا حکم دیا۔۔

بیگم صاحبہ کو صدیق اور  اس کے خاندان کے متعلق زیادہ علم نہ تھا بس اپنے شوہر سے اتنا سن رکھا تھا کہ ان کے کچھ  رشتہ دار گاؤں میں رہتے ہیں، صدیق نے مختصراً اپنے اور اپنے خاندان کا تعارف کرایا، جواب میں بیگم صاحبہ نے بھی بتایا کہ وہ اور محمد دین اس گھر میں اکیلے رہتے ہیں اور ان کی کوئی اولا د نہیں ہے،  جب کہ محمد دین کے دوسرے بھائی جین مندر کے پاس رہتے ہیں،۔۔

اتنی دیر میں نوکر ایک ٹرے میں چائے کا کپ اور لسی کے دوگلاس رکھے بیٹھک میں داخل ہوا،  چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے صدیق نے اپنا مدعا واضح کیا کہ وہ لاہور کیوں آیا ہے،  بیگم صاحبہ نے صدیق کی بات بغور سنتے ہوئے کہا کہ محمد دین آ جائیں تو رات کے کھانے پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔۔

اس کے بعد بیگم صاحبہ اپنے  کمرے میں چلی گئیں اور صدیق نوکروں سمیت چارپائیوں پر دراز ہو گیا، ٹرین کے سفر نے شاید تینوں کو تھکا دیا تھا جو لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلے گئے، اندھیرا چھا چکا تھا جب محمد دین کمرے میں داخل ہو کر صدیق کو جگانے لگا، دونوں ایک دوسرے سے پہلی مرتبہ مل رہے تھے، شاید اس لیے بھی گرم جوشی زیادہ تھی۔۔

آپ لوگ جلدی سے  ہاتھ منہ دھو کر فریش ہو جائیں کیوں کہ کھانا بالکل تیار ہے، نوکروں کا کھانا بیٹھک میں پہنچا دیا گیاجب کہ کھانے کے لیے صدیق بالائی منزل پر چلا  گیا، کھانا کھاتے ہوئے محمد دین گویا ہوا کہ صدیق پُتر نسرین نے مجھے بتایا ہے کہ تو کیوں لاہور آیا ہے، یقین کر اس کام کے لیے تجھے لاہور آنے کی ضرورت  ہی نہ تھی، بس اگر تیرا ابا خط بھی لکھ دیتا تو پھر بھی کام نمٹ جاتا، پر خیر جو تو آ گیا ہے تو اچھا ہوا، اسی بہانے تجھ سے ملاقات بھی ہو گئی، میری رائے تو یہ ہے کہ چپ کر کے سیاست میں داخلہ لے لے، آخر تو گاؤں کے چودھری کا بیٹا ہے اور کیا خبر کہ کل کو تو الیکشن بھی لڑ لے۔۔

بیگم صاحبہ نے بھی اپنے شوہر کی ہاں میں ہاں ملائی،  محمد دین نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ادھر پاس ہی گورنمنٹ کالج ہے، کل میں تیرے ساتھ چلوں گا اور تیرا داخلہ فارم جمع کروا دیں گے، رات کے کھانے کے بعد آرام کی غرض سے صدیق دوبارہ بیٹھک میں آ گیا جب کہ محمد دین اور بیگم صاحبہ بالائی منزل پر ہی رہے۔۔

یہاں ہم تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے فقط اتنا بیان کرنے پر اکتفا کریں گے کہ داخلہ فارم جمع کروانے سے لے کر ایڈمیشن ملنے تک صدیق اپنے نوکروں سمیت محمد دین کے گھر پر ہی مہمان رہا،  ایڈمیشن پراسس مکمل ہونے کے بعد صدیق گاؤں واپس لوٹ آیا کیوں کہ کلاسز بیس دن بعد شروع ہونا تھیں،  انیسویں دن صدیق نے لاہور کے لیے رختِ سفر باندھا، سامان میں دیسی گھی سمیت مختلف دیسی خواراکیں رکھی گئیں تا کہ پردیس میں اس کی صحت روبہ زوال نہ ہو، اب کی اسٹیشن پر صدیق کو الوداع کہنے کے لیے خدا بخش اور کنیز فاطمہ دونوں آئے،  کنیز فاطمہ کمال ضبط سے اپنے آنسو روکے ہوئے تھی، شاید اس لیے کہ اس کا بیٹا پریشان نہ ہو،  ٹرین آئی، رکی اور صدیق کو لے کر چلی گئی،  اور اس کے ماں باپ ڈوبے دلوں کے ساتھ دوبارہ گاؤں لوٹ آئے۔۔

چار گھنٹے بعد ٹرین لاہور پہنچی تو صدیق نے قلیوں کی مدد سے اپنا سامان ایک ٹانگے پر رکھا اور کوچوان کو حکم دیا کہ گورنمنٹ کالج کے آس پاس کسی اچھے ہاسٹل میں لے چلے، تقریباً پچیس منٹ بعد ٹانگہ ایک ہاسٹل کے باہر رکا اور صدیق ہاسٹل چیک کرنے کے لیے اند ر چلا گیا، ہاسٹل بہتر تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ اس کی حویلی کا مقابلہ کر سکتا، مگر مرتا کیا نہ کرتا، ہاسٹل میں رہنا آخر مجبوری تھی، صدیق نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا اور سامان اٹھا کر ہاسٹل کے ایک کمرے میں شفٹ ہو گیا، ہاسٹل میں یہ اس کی پہلی رات تھی اس لیے وہ چین کی نیند نہ سو سکا۔

اگلے دن وہ صبح جلدی اٹھ گیا کیوں کہ آٹھ بجے اس کی پہلی کلاس تھی،  ہاتھ منہ دھوکر ناشتہ کیا اور نئے کپڑے پہن کر گورنمنٹ کالج کی طرف چل دیا جہاں کبھی مولوی محمد حسین آزاد ایسے استاذ ہوا کرتے تھے،  جب وہ کلاس میں داخل ہوا تو پہلے سے کچھ طلبا کرسیوں پر براجمان تھے جن میں کچھ لڑکیاں بھی شامل تھیں جو ابھی محوِ گفتگو تھیں کہ کلاس شروع ہونے میں ابھی دس منٹ رہتے تھے،  ان دس منٹوں کے دوران کچھ اور طلبا بھی کلاس میں داخل ہوئے اور آٹھ بج کر پانچ منٹ پر استاد بھی کلاس میں وارد ہو گئے۔

چوں کہ آج سبھی کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا اس لیے استاد  نے پہلے اپنا تعارف کروایا اور پھر طلبا بھی خود  کو متعارف کرواتے رہے اور یہ شغل بقیہ تین کلاسوں میں بھی جاری رہا،  کلاسز ختم ہونے کے بعد صدیق اپنے ہاسٹل واپس چلا آیا کیوں کہ وہ قدرے بے چین تھا، اس بے چینی کی وجہ وہی تھی جو آپ سمجھ رہے ہیں یعنی اس کی ایک کلاس فیلو جس کا نام سکینہ بی بی تھا، سکینہ کا قد قدرے لانبا، رنگ سانولا، چہرہ گول، آنکھیں بڑی بڑی، ابرو کمانوں کی طرح، گال چوڑے، ناک  تھوڑا سا چھوٹا مگر ناگوار معلوم نہیں ہوتا تھا،   صدیق نے پہلی نظر  سکینہ کو دیکھا  تو اس کے چہرے میں ہی کھو گیا ،جیسے کوئی مسافر صحرا کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے،  سکینہ اگر خوبصورت تھی تو صدیق کے بھی نین نقش اچھے تھے، صدیق اگر اسے پانچ چھ بار دیکھتا تھا تو  وہ بھی دو تین بار چشم چار کر لیتی تھی، آگ اگر ادھر لگی تھی تو شعلے ادھر بھی بھڑک رہے تھے، دونوں کے نینوں کی لڑائی کچھ عرصہ چلتی رہی جو بعد میں محبت کا اقرار نامہ بن گئی۔۔

صدیق نے سکینہ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتایا اور سکینہ نے بھی، لیکن سکینہ نے جو کچھ بتایا وہ صدیق کو حواس باختہ کر دینے کو کافی تھا،  ایک تو سکینہ متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور دوسرا یہ کہ اس کے باپ نے بد چلنی کا الزام لگا کر اس کی ماں کو طلاق دے دی تھی،  جب وہ ابھی چھ ماہ کی تھی، اب وہ اور اس کی ماں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں اور گھر کا نان و نفقہ دونوں ماں بیٹی لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے پورا کرتی تھیں، مگر محبت کے آگے تو ایسی باتیں ہیچ ہوتی ہیں،  صدیق ہر حال میں سکینہ سے شادی کا فیصلہ کر چکا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ دونوں کو ابھی تعلیم مکمل کرنا تھی۔

چار سال بعد جب صدیق تعلیم مکمل کر کے گھر واپس لوٹا تو اس نے والدین کو اپنی پسند کے بارے میں بتایا، جس کو اس کے والدین نے یکمشت  مسترد کر دیا، پہلی وجہ یہ کہ لڑکی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری یہ کہ لڑکی کی  ماں کا چلن برا نہ سہی لیکن اس پر الزام بہرحال ضرور لگ چکا تھا،  لیکن محبوب اور محب تو دونوں ہی کسی اور دنیا میں رہتے ہیں، والدین کی لاکھ مخالفت کے باوجود بھی صدیق سکینہ کو بیاہ لایا، خدا بخش کو لگتا تھا کہ اس شادی کی وجہ سے اس کی علاقے میں بہت بدنامی ہوئی ہے، اس کی ناک کٹ گئی ہے، اسی ٹینشن نے پھر ایک دن خدا بخش کی جان لے لی، اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ سفرِ آخرت پر چل دیا۔

کچھ عرصے بعد صدیق کی ماں کو بھی سرطان کی بیماری لاحق ہو گئی اور وہ بھی اپنے خاوند کے پاس عالمِ بالا  پہنچ  گئی،  اب حویلی میں فقط صدیق اور سکینہ رہتے تھے یا بقیہ نوکر تھے، شادی کے آٹھ سال تک ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی، نویں سال ان کو اللہ نے بیٹا دیا جس کا نام زین رکھا گیا، زین چہرے مہرے سے تو لڑکی لگتا تھا مگر وہ تھا لڑکا،  وہ نو سال کا تھا جب یہ ظاہر ہونا شروع ہوا کہ زین لڑکی ہے نہ لڑکا، بلکہ وہ تو خواجہ سرا ہے۔۔

اب صدیق کے سامنے تین راستے تھے،  یا تو صدیق کو اپنے ساتھ ہی رکھے اور اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے یا پھر اسے قتل کر دے یا اس کو خواجہ سراؤں کے اڈے پر چھوڑ آئے، وہ زین کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا تھا کیوں کہ خواجہ سرا کا باپ ہونا جرم تھا، ہے اور رہے گا، وہ اسے قتل بھی نہیں کر سکتا تھا، آخر وہ اتنا سنگ دل بھی نہیں تھا، اس نے پھر تیسرا رستہ چننے کا فیصلہ کیا،  اور ایک رات وہ زین کو  گاڑی میں بٹھا کر خواجہ سراؤں کے اڈے پر چھوڑنے چلا گیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر کی دُم: جولی کا افسانہ شروع ہو گیا ہے جو اگلی تحریر میں جوبن پر ہو گا

Facebook Comments