کیپٹلزم اور اسلام۔۔محمد اشفاق

کیپیٹلزم کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنانے والے اور اس کی مخالفت کرنے والے، دونوں اسے ایک معاشی نظام سمجھ کر رد یا قبول کرتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا اور ایسا سمجھنے والوں کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں۔
کیپیٹلزم مذہب ہے، اور اس وقت تک دنیا کا کامیاب ترین مذہب۔ مولانا مودودی سے معذرت کے ساتھ۔۔
“کیپیٹلزم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے”
اس کا اپنا خدا ہے، جس کے ماننے والے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کی اپنی مقدس کتابیں ہیں، جن پر لوگ الہامی کتابوں سے زیادہ ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے اپنے پیغمبر ہیں، جو یکے بعد دیگرے آتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ اس کے اپنے عقائد ہیں، جن کا ماننا اب تو ان پر بھی واجب ہے جو سرے سے اسے مانتے ہی نہیں۔ اس کی اپنی اخلاقی و سماجی اقدار ہیں۔ مذہب اور کیا ہوتا ہے؟
تقیہ اس مذہب کا سب سے کارگر ہتھیار ہے۔ اور اس کی کامیابی کا راز بھی۔
کیپیٹلزم مذہب ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، کم از کم آج تک اس نے ایسا نہیں کیا۔ کیپیٹلزم کے خدا کو شرک پر کوئی اعتراض نہیں، جب تک کہ آپ اپنی ترجیح اول اسے رکھیں۔ اس کے بعد بھلے آپ خدائے وحدہ لا شریک کو مانیں یا سینکڑوں، ہزاروں کو خدا بنا لیں۔ یہ بہت پریکٹکل اپروچ ہے، کیونکہ۔۔
” آپ کی ترجیح اوّل ہی آپ کا خدا ہوتا ہے”
لیکن یہ ایک لبرل اور روشن خیال خدا ہے۔ اس لئے اگر آپ اسے ترجیح دوم ہی سمجھ لیں تو یہ اس پر بھی اکتفا کر لیتا ہے۔ یہ اس کی کامیابی کا دوسرا بڑا راز ہے۔ وقت اس کی سائیڈ پر ہے، اور یہ جانتا ہے کہ دوسرے کو پہلے کی جگہ لیتے، زیادہ دیر نہیں لگتی۔
کیپٹلزم کا خدا آپ سے عبادات کا مطالبہ نہیں کرتا۔ اس میں آپ کی ہر سانس اس کی عبادت ہے۔ وہ آپ سے آخرت کیلئے کچھ نہیں مانگتا۔ کیپیٹلزم میں آخرت کبھی نہیں آئےگی۔ البتہ دنیا میں اگر آپ اس کے بنائے ہوئے اور بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرتے رہیں تو آپ کامیاب ہیں۔ اس کامیابی میں چونکہ بہت سے عوامل ملوث ہوتے ہیں تو یہ کسی کو کم ملتی ہے، کسی کو زیادہ۔ لیکن آپ صدق دل اور خلوص نیت سے عمل جاری رکھیں تو کم از کم سروائیو کر سکتے ہیں۔ سروائیول کی یہ گارنٹی دیتا ہے۔
سروائیول کی گارنٹی ہی درکار بھی ہوتی ہے، بیشتر پیروکاروں کو۔ چونکہ کیپٹلزم میں آخرت نہیں ہے تو اس کا انکار کرنے والوں پر عذاب دنیا ہی میں نازل ہوتے ہیں۔ اور ضرور ہوتے ہیں۔
کیپٹلزم کے خدا کو ظاہری ہئیت یا رنگ روپ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آپ اس پر بھلے ملکہ الزبتھ چھاپ دیں، گاندھی یا قائد اعظم، اسے فرق نہیں پڑتا۔ ایز لانگ ایز یہ آپ کی جیب میں موجود رہے یا آپ اسے اپنی جیب میں رکھنے کو مچلتے رہیں۔ پیسہ کیپیٹلزم کا خدا ہے۔ آپ اس کے بناء ایک دن تو گزار کر دکھائیں۔
اور اس کے حصول کی خاطر آپ کو اس کے بنائے ہوئے اور بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا پڑتا ہے۔ ہر مذہب میں ایسا ہی ہوتا ہے ناں؟
لیکن مذہب صرف چند بنیادی اصولوں کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ اس میں سماجی رویوں پہ بھی کچھ راہنما اصول وضع کئے جاتے ہیں۔ یہ اقدار ہوتی ہیں، جنہیں جغرافیہ اور ماحول کی مناسبت سے معمولی ردوبدل کے ساتھ ہر جگہ اپنا لیا جاتا ہے۔ کیپٹلزم کے اصولوں پر ہی نہیں، اس کی اقدار پر بھی تقریباً ساری دنیا ایمان لے آئی ہے۔ جو تھوڑی بہت مزاحمت پائی جاتی ہے، وہ شمالی کوریا اور کیوبا کے علاوہ صرف مسلم ممالک میں۔
اسلامی دنیا کا رویہ یہ ہے کہ ہم نے کیپٹلزم کے اصولوں اور ضابطوں کو تو سو فیصد اپنا لیا ہے لیکن اس کی اقدار کی مسلسل مزاحمت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کہیں یہ بہت زیادہ ہے، کہیں بہت کم۔

یہ مزاحمت فطری اور جائز ہے۔ اور یہ ہونا ہی تھی۔ مجھے اوریا مقبول جان نہ سمجھا جائے، اپنی توہین میں برداشت نہیں کرتا۔ لیکن میری سو فیصد دیانتدارانہ رائے ہے کہ کیپٹلزم کو خطرہ صرف اسلام سے ہے۔ باوجود اس کے کہ اسلام کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ صرف کچھ اصول و ضوابط ہیں۔
وجہ ایسا سمجھنے کی یہ ہے کہ اسلام، کیپٹلزم کے صرف معاشی نہیں، اخلاقی و سماجی اصولوں کی بھی نفی کرتا ہے۔ میں جو تھوڑا بہت سرمایہ دارانہ نظام کو اور تھوڑا بہت اپنے دین کو سمجھا ہوں اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام از اگینسٹ ایوری تھنگ کیپٹلزم سٹینڈز فار۔
میں اپنی راۓ ہرگز آپ پر مسلط نہیں کر رہا۔ جسٹ ہئیر می آؤٹ۔

کیپٹلزم جتنا نان ڈیمانڈنگ، انکلوزو اور پروگریسو ہے۔ ہمارا اللہ اتنا ہی ڈیمانڈنگ اور پوزیسو ہے۔ اور بجا ہے، اس کا حق ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے جڑے ہوئے معاشی و سماجی اصولوں کے اندر یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ آپ کی ترجیح اول رہ پائے۔ یہ نکتہ میں ادھورا چھوڑ رہا، یہ اس قابل ہے کہ آپ اس پر خود غور فرمائیں۔ اپنے آپ پر غور فرمائیں۔ اپنے مذہبی طبقے پر غور فرمائیں۔ اللہ آپ کو کہاں کہاں ترجیح اول دکھائی دیتا ہے اور کہاں معاذ اللہ دوم، سوم، چہارم یا ۔۔
ہم تو اپنے خدا سے دعاؤں میں بھی کیپٹلزم کا خدا مانگتے ہیں۔ کون ہے جو یہ کہتا ہے کہ یااللہ! میری سفر کی مشکلات آسان فرما دے۔ ہم کہتے یا اللہ! تیس لاکھ دے دے، ہنڈا لینی ہے۔ ہم اپنی بیٹی کیلئے اس سے عافیت و آسودگی بھرا مستقبل نہیں، جہیز کیلئے بیس لاکھ مانگتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ڈیپ ڈاؤن ان آور ہارٹس، ہم نے پیسے کو مشکل کشاء، حاجت روا مان لیا ہے۔ اور یہ کیپٹلزم کی کامیابی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہوئی؟؟؟
یہ بات مسلمان سمجھیں یا نہ سمجھیں، کیپٹلزم بہت پہلے سمجھ گیا تھا۔ اسلام کے معاشی و سماجی وژن پر سب سے کاری ضرب اس نے یہ لگائی کہ ہمارے مودودی اور قطب جیسے لوگوں ہی نے فرما دیا کہ اسلام میں ملکیت اور منافع کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ ان کے سامنے کمیونزم کو ہؤا بنا کر کھڑا کیا گیا۔ ان لوگوں نے اس سے دین کو بچانے کیلئے اسے کیپٹلزم کی جھولی میں ڈال دیا۔
جن اسلاف کی مثالیں دے کر ہمیں اس قبیح اصول پر قائل کیا گیا، یہ وہ ہستیاں تھیں جو ایک ہی دن میں اپنی برسوں کی جمع پونجی خیرات کر کے ہاتھ جھاڑ لیا کرتی تھیں۔
” آپ نے حضرت عثمان غنی کی مثال دے کر ملک ریاضوں کا راستہ صاف کر دیا”
اور سمجھا کہ ہم نے دین کو اشتراکیت سے بچا لیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سودی نظام میں اسلامی بنکاری کی تھگلی لگانا بھی ایسا ہی تجربہ ہے۔ کیپٹلزم میں اتنی لچک ہے کہ وہ اپنی قباء میں ایسی ٹاٹ کی پیوندکاری کی پروا ہی نہیں کرتا۔ کچھ ہی عرصے میں ٹاٹ پر قبا کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔ اسلامی بنکاری تو خیر ایجاد ہی ہاورڈز میں ہوئی۔
ملکیت اور منافع کی حد قلعے کا دروازہ تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کیلئے کھول دیا گیا۔ اب جو یلغار جاری ہے اس میں ویلنٹائن ڈے یا ویمنز مارچ کی مخالفت کر کے مودودی یا قطب کے جانشیں سمجھتے ہیں، ہم بڑا تیر مار رہے ہیں۔

ہم پہ دوسرا سب سے کاری وار بھی ملاؤں کے ذریعے کروایا گیا۔ مسلح جہاد کے نام پر لاکھوں کی تعداد میں پاگل کتے ہم پر چڑھا دیے گئے۔ یہ خود بھی مرتے رہے، ہمیں بھی مرواتے رہے۔ ان کی ہر جہادی تحریک کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ مزید تگڑے ہوئے۔ عالم اسلام مزید کمزور ہوا۔ ہمارے نصف درجن ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اور مسلم معاشروں میں ایسا ردعمل پروان چڑھا، جو اب سرے سے فکری مزاحمت کا بھی قائل نہیں رہا۔ اگین، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

تو کیا اب پسپائی ہمارا مقدر بن چکی؟
اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے۔ بس اپنے دل و دماغ میں یہ بات راسخ کر لیں، کہ جس نظام میں ہم جی رہے، یہ رحمانی نہیں شیطانی نظام ہے۔
اس وقت دنیا میں اتنے وسائل موجود ہیں جو ہماری موجودہ سے شاید دگنی آبادی کی کفالت کیلئے بھی کافی ہوں۔ ہمیں غلط طور پر باور کرایا جا رہا ہے، کہ وسائل کی قلت ہے۔ یہ نظام ہے جو قلت پیدا کرتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
امریکا میں ضائع ہونے والی خوراک افریقہ کے قحط زدگان کیلئے کافی ہے۔ مگر یہ انہیں ملے گی نہیں۔ یہ پانچ چھ ملین بے گھر امریکیوں کو تو مل سکتی ہے، اس میں کیا دشواری ہے؟ صرف یہ کہ ایسا اس نظام کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ دئیر از نو فری لنچ ان کیپٹلزم۔
بل گیٹس جو اربوں ڈالرز پولیو کے دنیا سے خاتمے کیلئے خرچ کر رہا، ان میں اب تک آٹھ دس ملین بے گھر امریکی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ مگر چیریٹی کے نتیجے میں بھی ایک نئی اکانومی کھڑی کرنا مقصود ہوتا ہے۔ دئیر از نو چیریٹی ان کیپیٹلزم۔

صرف دو باتیں جان اور سمجھ لیں۔ اور ان پر غور فرماتے رہا کریں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد استحصال ہے۔ اس استحصال کو بچت کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ پہلا دھوکہ ہے۔
بچت کی ضد خرچ قرار دے دی گئی ہے۔ یہ دوسرا دھوکہ ہے۔ بچت کی ضد پیداوار ہے۔
سرمایہ کاری اور پیداوار ایک ہی چیز ہیں۔ یہ تیسرا دھوکہ ہے۔
سرمایہ کاری منافع کیلئے کی جاتی ہے۔ پیداوار وسائل میں اضافے کیلئے۔
صرف آپ کی سوچ اور نیت بدلتی ہے تو نتائج بدل جاتے ہیں۔ کوئی وجہ ہے کہ اللہ نے اعمال کا دارومدار نیت پر رکھا ہے۔
کوئی بھی نظام خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ چھوٹی چھوٹی پیہم اور متواتر ضربیں اس میں دراڑیں ڈال دیتی ہیں۔ کوشش کریں کہ اپنی اپنی انفرادی سطح پر یہ چھوٹی چھوٹی پیہم ضربیں لگاتے رہا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اجتماعی طور پر بھی اب ہمارے پاس موقع ہے۔ اس وقت کیپٹلزم ٹرانزیشنل فیز سے گذر رہا ہے۔ نیولبرل ازم بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ فی الحال کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ یہ نظام میں نقب لگانے کا، شگاف ڈالنے کا موقع ہے۔
ڈیجیٹل کرنسیز دوسرا موقع ہیں۔ فی الحال ڈیجیٹل کرنسیز کو ڈالرز میں ماپا جا رہا ہے۔ وہ وقت آنے والا ہے، جب ڈالر ڈیجیٹل کرنسیز میں ماپا جائے گا۔
پیسہ اپنے عام مفہوم میں ہزاروں برس سے جس طرح استعمال ہو رہا ہے، ڈیجیٹل کرنسیز کی پیداوار، منتقلی اور ان میں لین دین اس سے بالکل مختلف ہوگا۔ لائیک نیور بیفور۔
کرنسی کی تبدیلی آدھے معاشی نظام کی تبدیلی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے سسٹم کو مساویانہ بنانے کیلئے ہیک کیا جا سکتا ہے۔ اس میں سخاوت اور عدل کے بگز ڈالے جا سکتے ہیں۔
کیا نوجوان مسلم ماہرین معاشیات اس جانب توجہ دیں گے؟
کیا نوجوان مسلم ماہرین معاشیات نامی کوئی مخلوق پائی بھی جاتی ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply