عورت برائے فروخت۔۔عارف خٹک

ہمارا المیہ یہ ہے کہ دنیا میں مذہب اسلام میں نئی نئی تشریحات پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں کی گئیں ہیں،اس پر آج بھی اسلامی دنیا ہم پر خندہ زن ہے۔
اپنی ثقافت، قبائلی سوچ اور ذاتی نظریات کو جس طرح سے ہم نے مذہب کیساتھ نتھی کرنا شروع کردیا ہے، باخدا سوشل میڈیا پر ہمارا عام مذہبی بندہ مذاق کا نشانہ بن رہا ہے۔

اسی  طرح ہمارے دیسی لبرل، دیسی فیمینسٹوں کی مثال بھی اس کوّے جیسی ہے جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں، اپنی چال بھی بھول گیا ہے۔

دیسی لبرل اور مذہبی انتہاء پسند میں تو اب کوئی اتنا فرق رہا ہی نہیں کہ دونوں اپنے بیانیے کےلئے ایک دوسرے کا گلا کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے، لے دے کر ایک فیمینسٹ رہ گئے تھے جن کو ہم تھوڑی بہت پڑھی لکھی مخلوق سمجھ رہے تھے ،مگر ہر سال آٹھ مارچ کو وہ بھی ہماری خوش فہمیوں کا قتل عام کئے جارہے ہیں۔ میری دو جاننے والیوں نے تو یہاں تک مقدمہ لڑا کہ عورت کی ٹانگوں کے بیچ جو “غیرت” ہے اس کا استعمال اب سرعام ہونا چاہیے۔ جس سے چاہے ہم بستری کریں کہ ان کا پیدائشی حق ہے۔ حالیہ مارچ میں ایک اور مردانہ و زنانہ مخلوق بھی سامنے آگئی ہے جو کہتے ہیں کہ دو مردوں کے درمیان سیکس کرنا جائز ہے یہ قانون فطرت ہے۔ ہزاروں سال  پہلے معاشرتی قوانین جو انسانی بہبود کیلئے بنائے گئے ہیں چہ معنی دارد؟۔

باخدا اگر جان لاک کو معلوم ہوجائے کہ لبرل ازم کا مطلب پاکستانی لبرل کے ہاں یہی رائج ہے تو   وہ دوبارہ زندہ ہونا چاہے گا اور اپنے ہی نظریات سے رجوع فرمائےگا۔ فیمینزم کی ماں مادام Mary Wollstonecraft میری والسٹن کرافٹ کو معلوم ہوجائے کہ فیمینزم کا جو نعرہ اس نے خواتین حقوق کیلئے اٹھارہویں صدی عیسوی میں لگایا تھا کہ صنعتی انقلاب میں سب سے زیادہ استحصال عورت کا ہورہا تھا، اور آج بھی اس سے زیادہ استحصال کارپوریٹ کلچر میں اسی عورت کا ہورہا ہے۔ آج پاکستان کے خودساختہ مارکسسٹوں نے اس غریب دانشور عورت کے عورت دوست نظریات کو ہم جنس پرستی ،اور فری سیکس سوسائٹی کا استعارہ بنا دیا ہے،تو شرمندہ ہوکر کہیں گی کہ پاکستانیوں کا ڈی این اے ہی ٹیڑھا ہے۔

الحمداللہ ہم مسلمان ،بالخصوص پاکستانی دنیا کی واحد قوم ہیں جو مذہب، لبرل ازم اور ترقی پسند نظریات کو انتہاؤں پر لاکھڑا کرکے ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے رہتے ہیں۔ یہ بات قطعی حیرت انگیز نہیں ہے کہ اب ہمارا مولوی “صوفہ” کو یہودی ایجاد کہہ کر اسلام کو زندہ رکھ رہا ہے، اور اسی اسلام میں عورت کی تکریم کی بات کررہا ہے۔ لبرل شراب کی بوتل لہرا کر مرنے مارنے پر تلا ہوا ہے، اور فیمینسٹ چوکوں پر شلواریں لٹکا کر عورت حقوق کے نام پر اپنی ذہنی کج روی کو حقوق کا نام دیکر سرِ بازار رقصاں ہیں۔ جبکہ ہماری بیچاری اور بے بس عورت ایک طرف سراسیمہ کھڑی ہراساں نظروں سے ان بھیڑیوں کے غول کو تک رہی ہے، جو ان کے حقوق کے نام پر الٹا ان کو بھنبھوڑے جارہے ہیں۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں عورت کو آزادی حاصل ہے اور وہ وہاں مزے سے زندگی انجوائے کررہی ہے، تو آپ بلاشبہ احمقوں کی  جنت میں رہتے ہیں۔ عورت آج بھی وہاں بطور پراڈکٹ استعمال ہورہی ہے ۔عورت آج بھی وہاں برائے فروخت ہے ۔ دور مت جائیں امریکہ جیسے ملک میں ایک مسخرے کو صدر بنانا قابل قبول ہے مگر ہیلری کلنٹن وہاں بھی برداشت نہیں ہے۔ اسرائیل جیسے ملک میں عورت ذات کو صدر بنانا ممنوع ہے کہ، عرب اسرائیل لڑائی کا آغاز ایک عورت کی “ناقص العقل حرکت” سے ہوا تھا۔
یورپ کی کسی لڑکی کے ہاتھ پر اپنی مہینے بھر کی تنخواہ رکھ دیں اور اس سے کہیں کہ، گھر رہو کوئی کام نہ کرو باخدا جو وہ ساری زندگی اُف بھی کرجائے۔مگر وہاں تین وقت کی روٹی کیلئے وہ سرگرداں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر بحث لمبی ہوجائیگی میرا مقصد یہ ہی تھا کہ  عورتوں کو  آپ کی سیکس فری سوسائٹی کی ضرورت نہیں ہے، نہ ان کو طلاق یافتہ کروا کر معاشرے میں خونی بھیڑیوں کے سامنے اکیلا چھوڑنے کی ضرورت ہے، بلکہ میری خواتین کو جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا، گھریلو تشدد کی نفی، عزت نفس، تعلیم اور شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ انقلاب ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر گرما گرم بحث، سڑکوں پر ناچنے اور مسجد کے منبر پر بیٹھ کر کف اڑانے سے نہیں آئیگا۔ بلکہ اپنی بیٹیوں کو شعور اور حقوق دینے سے آئیگا۔ آغاز اپنے گھر سے کرلیں۔ بس ایک ذرا ہمت کی ضرورت ہے !
آزمائش شرط ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک