انسانیت سے انا نیت تک کا سفر۔۔حافظہ عائشہ احمد

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوق بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ انسان نسیان سے نکلا ہے جس کے معنی بھولنے کے ہیں۔ جب انسان اپنی اوقات بھولتا ہے تو وہ انسانیت سے انانیت تک کا سفر آسانی سے طے کر لیتا ہے ۔ انسان کی پیدائش کا تذکرہ رب العزت قرآن پاک کی سورہ البقرہ میں اس طرح فرماتا ہے کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں ۔ فرشتے کیو نکہ جنات کو زمین پر فساد برپا کرتے ہوۓ دیکھ چکے تھے اس لیے  کہنے لگے کہ اے پروردگار کیا تو پھر ایک ایسی مخلوق پیدا فرماۓ گا جو زمین پر فساد برپا کرے گی۔ اللہ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے تو فرشتے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں۔ اللہ پاک فرشتوں کو زمین کی ہر جگہ سے مٹی لانے کا حکم دیتا ہے اور پھر تمام کو ملا کر خمیر تیار کرتا ہے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم تخلیق کرتا ہے اور وہ جنت کے دروازے کے پاس رکھ دیتا ہے ، پھر اللہ پاک اس میں روح پھونکتے ہیں اور وہ ایک مخلوق کی حیثیت سے فرشتوں کے درمیان موجود ہوتے ہیں ۔ اس مخلوق کو انسان، اشرف المخلوقات اور خلیفة اللہ کا لقب ملتا ہے۔ آدم علیہ السلام جنت میں تنہا زندگی کے دن گزارتے ہیں اور شدت سے ایک ساتھی کی کمی محسوس کرتے ہیں ۔ ایک روز سو کر اٹھتے ہیں تو حوا علیہ السلام کو قریشی پاتے ہیں ہنستے کھیلتے وقت گزرتا ہے کہ ایک ایسا عمل سر زد ہو جاتا ہے جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا اور آپ کو جنت سے زمین پر بھیج دیا جاتا ہے ۔ انسانیت کے سفر کو ایک نیاموڑ ملتا ہے اولاد کی پیدائش ہوتی ہے اور دنیا آباد ہونے لگتی ہے لیکن شیطان کا اللہ سے کیا گیا وعدہ اپنی جگہ ۔ وہ اولاد آدم کو بہکاتا ہےاور اسے قتل کا مرتکب بنا دیتا ہے یہاں سے انانیت کے سفر کی ابتدا ہوتی ہے بھائی بھائی کو قتل کرتا ہے اور اسکی لاش کو زمین کھود کر دفن کر دیتا ہے ۔دنیا چلتی رہتی ہے اور انسانیت اور انانیت مد مقا بل رہتے ہیں پھر اس عظیم ہستی کی دنیا میں تشریف آوری ہوتی ہے جس ہستی کے لیے  رب کائنات نے یہ دنیا تخلیق کی محمد مصطفی ﷺ ۔ مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں زندگی تنگ کر نے کی کو شش کی لیکن آپﷺ ہمیشہ ثابت قدم رہے اور ہر چیز کا مقابلہ اللہ پر یقین کے ساتھ کیا کہ وہ بہترین اجر دینے والا ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اس پاک ذات کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں آقاﷺ کا امتی بنا کر اس دنیا میں پیدا فرمایا اور ہمیں خلیفة اللہ کے ساتھ خلیفة الرسول ہونے کا اعزاز بھی عطا کیا۔ لیکن کیا ہم اس کے قابل ہیں؟ اگر دیکھا جاۓ تو ہم انسانیت کے کون سے درجے پر ہیں؟ کیا ہم صرف نام کے مسلمان ہیں یا اپنے عمل سے مسلمان کہلواۓ جا رہے ہیں ؟ ہم اصل میں انانیت کا شکار ہیں ۔ یہ انا ہی ہے کہ ہم آقاﷺ کے امت ہوتے ہوۓ بھی اس بات پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم سنت پر عمل کریں گے تو لوگ ہمیں ایکسٹریمسٹ کہیں گے۔ لوگ سوچیں گے کہ ہم انھیں دکھانے کے لۓ دین پر عمل پیرا ہیں ۔ یہ انانیت ہی ہے کہ ہم لوگوں کی پرواہ کر رہے ہیں جو ہمیں کچھ دینے کے قابل نہیں ۔ ہم منفی سوچ کے قائل ہو چکے ہیں ہم تیزی سے انا نیت کا سفر طے کر رہے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس کی کوئی منزل نہیں ۔ انانیت کے سفر کو ختم کر کے ہمیں انسانیت کے سفر کی طرف لوٹنا ہو گا تاکہ جو منزل ہماری منتظر ہے ہم اس تک کامیابی سے پہنچ سکیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply