اتباعِ رسولﷺ۔۔۔۔ عاصم اللہ بخش

قرآن کے مطابق، جب اللہ تعالیٰ نے “عہد الست” کے موقع پر تمام انسانوں سے سوال کیا “کیا میں تمھارا رب نہیں؟ ” … تو سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا، “ہاں، کیوں نہیں”. کوئی ایک آواز بھی اس کی نفی میں  بلند نہ ہوئی، نفی تو درکنار … تشکیک کا بھی کوئی وجود نہیں تھا. گویا کسی شک یا ابہام کا کوئی شائبہ تک نہ تھا.

لیکن بات یہاں پر ختم نہ ہوئی …. انسان کے اس اقرار کو قبول تو کر لیا گیا لیکن کافی نہیں  سمجھا گیا …اگلے مرحلے میں اسے اس دنیا میں بھیجا گیا کہ وہ اپنی کہی اس بات کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرے. جیسا تیقن روز اول اس کے زبانی اقرار میں تھا وہ زندگی کے چیلنجز، پریشانیوں، ترغیبات اور جبلی رجحانات کے ہنگام اللہ کے احکامات پر عمل کر کے اس تیقن کا عملی ثبوت بھی فراہم کرے.

انسان ایک نازک اور آرام طلب مخلوق ہے. اسے مشقت کی راہ دشوار لگتی ہے. وہ کم سے کم کوشش سے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہتا ہے. یہی نہیں، انسان کی جبلت میں ہے کہ وہ کامیابی کا حریص ہے، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ کامیابی تک پہنچنے کے بھی وہ شارٹ کٹ ہی ڈھونڈتا ہے. وہ زبان سے سچائی کا اعتراف کر لیتا ہے، اسے سراہتا ہے، اس کے دفاع کے لیے قسمیں کھاتا ہے لیکن جہاں عمل یا قربانی سے ایسا کرنا پڑے وہیں کمزور پڑنے لگتا ہے. دوسری جانب اللہ تعالی نے انسان کے لیے عظمت اور کامیابی کا راستہ رکھا ہی جدوجہد اور عمل میں ہے. انسانی تاریخ میں جو لوگ بھی عظیم ٹھہرے، امر کہلائے ان سب کی زندگیاں جہد مسلسل، تکالیف اور قربانیوں سے عبارت ہیں. وہ پیغمبر ہوں، لیڈر ہوں یا روزمرہ زندگی سے متعلق کامیاب افراد ….. سب کی زندگی میں ان کا عمل ان کے قول کے ہم پلہ رہا. جو محض زبان کے غازی رہے وہ تاریخ کی دھول میں کھو کر بھولی بسری بات ہو گئے.

اللہ تعالی رحیم و کریم ہیں …. بلکہ الرحمان و الرحیم ہیں …. سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے، لیکن ان کے ہاں بھی “عمل ” رحمت کے ظہور کے لیے شرط اول ہے. عمل کی کمی بیشی رحمت سے دور ہو سکتی ہے، عمل کا سرے سے مفقود ہونا نہیں.

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات شفیع ہے …. ان کی شفاعت سے ہم جیسے عاصی جنت میں پہنچیں گے. لیکن یہاں بھی ایسا سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ محض زبان سے اظہار محبت اور بڑے بڑے دعوے کام بنا دیں گے. جو اصول خدا کے ہاں نہیں وہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں کیسے ہو سکتا ہے ؟ اور یہاں تو محبت کا سب سے پہلا اور سب سے معتبر اظہار ہی “اتباع رسول” یعنی کردار و عمل ہے. اللہ تعالٰی نے قرآن کی طرح سنت و سیرت رسول کو بھی محفوظ کر دیا کہ مومنین اپنی زندگیوں کو اس ہستی کے رنگ پر ڈھال سکیں جسے اللہ تعالی نے بہترین نمونہ قرار دیا.

اس بابت کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کا کوئی بھی دعوی ان کی سیرت کو اپنے عمل و کردار کے لیے مشعل راہ بنائے ممکن نہیں. اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر زبان سے کیے بلند و بانگ دعوے بڑھتے جائیں گے لیکن عمل گم ہو کر رہ جائے گا. رسم اذاں تو رہ جائے گی، روحِ بلالی اجنبی بن جائے گی. اور اللہ تعالی نے انسان کے لیے فلاح کی کسوٹی عمل کو بنایا ہے، محض زبانی قول و قرار کو نہیں.

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے والا بنا دے. آمین.

“اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم، وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، وبارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم”

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر   عاصم اللہ بخش صاحب کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply