جی بی میں دو کتابوں کا اضافہ

انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے گلگت بلتستان کے حوالے سے کئی مستند کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخ، ثقافت، رسم و رواج، انساب، اقوام و قبائل، خوبصورت سیاحتی مقامات، تاریخی مقامات اور دیگر موضوعات پر کتب کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ گلگت بلتستان کے لیے خوش آئند ہے۔ بشیر اللہ مصطفوی صاحب ہمارے محترم دوستوں میں سے ہیں۔ کتاب و قلم کے دھنی انسان ہیں۔ ان کی دو کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ ان کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر ان کی دیگر کتابوں کے مسودے پڑے ہوتے ہیں۔ وہ سفر و حضر میں تصنیف و تحقیق کا کام خشوع و خضوع کے ساتھ کرتے پائے گئے ہیں۔ بشیر اللہ صاحب محقق ہونے کے ساتھ مترجم بھی ہیں۔ وزیر محمد اشرف خان گلگت بلتستان میں علی گڑھ یونیورسٹی کے پہلے فاضل ہیں۔ انھوں نے علی گڑھ سے بی اے اور ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی تھی اور گولڈ میڈلسٹ تھے۔ اشرف صاحب نے 1962ء میں گلگت بلتستان کی نسلیاتی، ثقافتی، تاریخی، مذہبی و سیاسی جائزے پر مبنی ایک مختصر مگر جامع کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام انھوں نے دی ہنٹر لینڈ آف ایشیا رکھا۔ یہ کتاب گلگت بلتستان کے مقامی مصنفین میں سے لکھی گئی پہلی انگریزی کتاب ہے۔ اس سے پہلے کسی مقامی مصنف نے انگریزی میں کوئی کتاب نہیں لکھی ہے۔ بشیراللہ مصطفوی نے اس کتاب کا سلیس ترجمہ کیا ہے۔ انگریزی کتاب بھی مارکیٹ سے ناپید ہے۔ بشیراللہ مصطفوی اصل کتاب بھی بہت جلد منظر عام پر لانے والے ہیں۔ مترجم نے ترجمہ شدہ کتاب کا نام ایشیا کی دور افتادہ سرزمین رکھا ہے جو واقعتًا جچتا ہے۔ مصنف نے کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ میں دیامر ڈویژن اور گلگت ڈویژن کے متعلق تفصیلات ہیں جب کہ دوسرے حصے میں بلتستان ڈویژن پر معلومات شامل ہیں اور آخری حصے میں حواشی و حوالے اور کچھ اہم تفصیلات و اضافے ہیں۔ اس کتاب میں گلگت بلتستان کے تاریخی ذرائع، اولین یورپی سیاح، سیاحتی صحت افزا مقامات، قدیم ریسٹ ہاؤسز، قدرتی جھیلیں، چشمے آبشاریں، درے، گلیشئر، عظیم چوٹیاں، دریا، مذاہب، زبانیں، رسوم و رواج، علاقائی کھیل، ثقافت، تاریخی عمارتیں، یادگاریں اور اسی قبیل کی دیگر اہم تفصیلات موجود ہیں۔ یہ کتاب 194 صفحات پر مشتمل ہے۔ سرورق بھی جاذبِ نظر ہے۔ یہ کتاب گلگت بلتستان کے تمام ادبی و تحقیقی کتابوں پر مشتمل کتب خانوں میں دستیاب ہے۔ کتاب میں دی گئی معلومات مستند ہیں۔ جہاں کہیں ابہام ہوا، مترجم نے حواشی و حوالوں میں اس کی وضاحت کی ہے۔ کتاب کی تقریظ ڈپٹی کمشنر استور طارق حسین نے لکھی ہے اور اظہارِ تشکر کے عنوان سے وزیرزاددہ انجینئر محمد تاجور خان (جو اشرف خان مرحوم کے بیٹے ہیں) نے ایک مختصر تحریر لکھی ہے۔ عرضِ مترجم کے عنوان سے مترجم نے بھی ایک اچھی تحریر قلم بند کی ہے۔
بشیر اللہ مصطفوی کی دوسری کتاب قبائلِ استور کے شجرہ انساب (جلد اول) بھی میرے سامنے ہے۔ یہ کتاب بھی اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے۔ ویسے بھی انساب پر گلگت بلتستان میں بہت کم کام ہوا ہے۔ دیگر چند مولفین نے بھی انساب پر کام کیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ انھوں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ان دیگر مولفین نے تحقیق و تصنیف جیسے اہم کاموں میں بھی جانبداری اور تعصب سے کام لیا ہے مگر بشیراللہ مصطفوی نے جانبداری اور تعصب کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دیا۔ پہلی جلد میں قبائلِ استور کا ذکر کیا ہے، اور اس میں علاقوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ اس پہلی جلد میں استور کی وادی گوریکوٹ، نوگام، پکورا، گدئی، بوبند، داس خریم، چِلم، منی مرگ اور قمری کو شامل کیا ہے اور ان علاقوں میں موجود تمام قبائل کے شجرہ انساب کو بلا کم و کاست ذکر کیا ہے۔ باقی علاقوں کے قبائل کا ذکر دوسری اور تیسری جلد میں آرہا ہے جو بہت جلد زیورِ طبع سے آراستہ ہوں گی۔ مصنف نے شجرہ انساب کے بیان میں قیاسی امور سے کام نہیں لیا بلکہ 1916ء میں تیار کیے گئے بندوبستی ریکارڈ سے خوب استفادہ کیا ہے۔ اس میں تجدید و تصحیح کی ہے۔اس کے علاوہ مولف نے انساب کے لیے ان تمام علاقوں میں موجود قبائل کے پڑھے لکھے احباب، اور بزرگ خواتین و حضرات سے بنفسِ نفیس انٹرویو کیا ہے اور پشت در پشت کی درست معلومات جمع کی ہیں اور انتہائی سلیقے سے ان تمام قبائل کے انساب کو موجود ہ پیڑھی تک نقل کیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق شجرہ انساب پر گلگت بلتستان میں اتنی طویل اور پہلی مفصل کاوش ہے۔ تاریخ نگاری میں شجرہ انساب کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔
علم الانساب کے حوالے سے اسلامی تعلیمات میں بہت تفصیلات موجود ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تعلموا انسابکم و تصلوا ارحامکم۔ انساب کی حفاظت کا حکم ہوا ہے۔ اسی حکم کو مدِنظر رکھتے ہوئے بشیراللہ مصطفوی نے یہ کام عرق ریزی سے کیا ہے ۔ اللہ ان کو اجرِ عظیم دے۔ یہ کتاب کل بارہ مفصل ابواب اور 342 صفحات پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان ہائی کورٹ (چیف کورٹ) کے چیف جسٹس صاحب خان اور عظیم محقق جناب شیر باز علی برچہ نے کتاب پر تقاریظ لکھی ہیں۔کتاب کے آغاز میں حمدِ باری تعالیٰ جناب جمشید خان دکھی اور نعتِ نبیِ ا کرم ﷺ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی مندرج ہیں۔ خود مولف نے کتاب کے آغاز میں انساب پر مشتمل ایک مختصر تحریر بھی لکھی ہے اور پیش گفتار کے عنوان سے مولف نے تمام معاونین کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ یہ کتاب نارتھ بکس مدینہ سپر مارکیٹ گلگت سے شائع کی گئی ہے۔ نارتھ بکس کے مالک محمد علی نے بھی عرضِ ناشر کے عنوان سے ایک مختصر تحریر لکھی ہے۔
بہر صورت میں نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا اور بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ کل گلگت بلتستان کے حوالے سے ہونی والی تحقیقات کے لیے یہ کتابیں مراجع و مصادر کے طور پر کام آئیں گی۔ خدا بشیراللہ مصطفوی کو تحقیق و تصنیف کا کام مزید یکسوئی سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply