جمہورستان کی موروثیت۔۔ذیشان نور خلجی

آؤ بچو سنو کہانی
ایک تھا راجا ایک تھی رانی
لیکن یہ وہ کہانی نہیں ہے جس میں راجا اور رانی ہوتی ہے بلکہ یہ وہ کہانی ہے جس میں راجا ہوتا ہے پھر اس کا بیٹا ہوتا ہے۔ پھر اس کے بیٹے کا بیٹا ہوتا ہے اور یوں سلسلہ چل نکلتا ہے۔
یہ کہانی کچھ یوں بھی ہے کہ ایک دفعہ ایک احمق قریبی گاؤں میں تعزیت کے لئے گیا۔ فاتحہ خوانی کے بعد اجازت چاہی اور کچھ یوں گویا ہوا۔ ” بس جیسے اللہ کی مرضی، جو آیا ہے اس نے جانا تو ہے۔ آج آپ کا کوئی چلا گیا ہے۔ کل پھر کوئی آپ کا چلا جائے گا۔ پرسوں پھر کوئی آپ کا مر جائے گا۔”
تو اس کہانی میں بھی پلڑا صرف ایک طرف ہی جھکے گا اور وہ بھی احمقوں کی وجہ سے۔
تو آئیے بچو ! کہانی سنتے ہیں اور اندازہ لگاتے ہیں کہ دراصل احمق کون ہے۔

دور سمندر پار ایک ملک آباد تھا، نام جس کا جمہورستان تھا۔ سنانے والے بڑے فخر سے سنایا کرتے تھے کہ یہ دیس جمہوریت کا چیمپئن ہے اور ملک برطانیہ میں رائج موجودہ جمہوریت بھی دراصل اسی ملک کی دین ہے۔

بچو! کہنے کو تو جمہورستان میں جمہوریت رائج تھی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ہر وقت جمہوریت خطرے میں رہتی تھی۔ اور سب سے زیادہ خطرہ بھی اسے برسر اقتدار حکومت سے ہوا کرتا تھا جو کہ خود جمہوریت کے طفیل ایوان اقتدار تک پہنچتی تھی۔
دراصل ہوتا کچھ یوں تھا کہ کل کے حکمران اور آج کی اپوزیشن کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا تھا کہ موجودہ حکومت سے جمہوریت کو خطرہ ہے۔ لہذا پھر جمہوری روایات کو برقرار رکھنے کے لئے ایوان اقتدار پر لشکر کشی کی جاتی تھی حتیٰ کہ خود سپاہ سالار بھی اس عظیم مقصد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہ کرتے تھے اور عموماً یہ قربانی وزیراعظم کی معزولی کی صورت میں سامنے آتی تھی۔
لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ یہاں کے سیاست دان کوئی آمریت پسند تھے اور جمہوریت کے مخالف تھے۔ جمہوریت تو انہیں بڑی پسند تھی بلکہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور جمہوریت سے انہیں اتنا پیار تھا کہ اس کی بقاء کی خاطر اپنی اولادوں کو بھی اس آگ و خون کے دریا میں جھونکنے سے گریز نہ کرتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے عظیم سیاست دانوں نے اپنی تین تین نسلیں جمہوریت کی بھینٹ چڑھا دیں، ان کے لاشے اٹھائے، اسی سبب ان کے گھر بار، مال و متاع سب کچھ ہی لٹ گیا۔

لیکن بچو ! کچھ عاقبت نااندیش، احسان فراموش ایسے بھی تھے جو جمہورستان میں مذہب کی طرح رائج قابل احترام جمہوریت کے لئے عظیم قربانیاں دینے والے سیاست دانوں اور ان کے بچوں کو موروثیت کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ان مجہول العقل لوگوں کا خیال تھا کہ معروف سیاست دان اور کئی بار کے منتخب وزیراعظم بانکے میاں اپنے بعد اپنے کسی ایسے حواری کو صدارت کی کرسی پر بٹھائیں کہ جس کے پاس سالوں کی ریاضت اور تجربہ ہو۔ آخر ان کو اتنے بڑے بڑے سورمے نظر کیوں نہیں آتے، جو اپنی جواں جہاں ، نرم و نازک بیٹی کو امارت سونپ دی ہے۔

اب ان شوہدوں کو کون سمجھائے کہ جسے وہ تخت طاؤس سمجھ رہے ہیں وہ تو دہکتی آگ کے انگارے ہیں۔ یہاں تو جوانیاں زندان میں چوہوں کا بچا ہوا کھانا کھانے میں گزر جایا کرتی ہیں۔
بچو ! جمہورستان کے بے وقوفوں کو یہ گلہ تھا کہ ادھر تم اور ادھر ہم کے بعد پھر تین تین نسلیں ‘ ادھر ہم ‘ کا پاس رکھنے میں کٹ مرتی ہیں۔ کسی کو بیٹی میں باپ دکھتا ہے تو کسی کو بیٹی میں ماں دکھنے لگتی ہے۔ اب ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ جب یہاں ایک طرم خاں ایسا بھی ہے جو اپنے ہینڈسم دکھنے کے سبب خان اعظم بن بیٹھا ہے جو گلی ڈنڈے کی بدولت عوام کے دلوں اور سروں پر ناچ اور راج ایک ساتھ کر رہا ہے۔ تو پھر بیٹی میں ماں کا عکس دکھنا تو واقعی بہت بڑی خوبی ہے۔ اور ماں بھی ایسی کہ جس کے دور حکومت میں ملک کے طول و عرض میں دودھ اور شہد کی نہریں ایک ساتھ بہا دی گئیں۔ یہ الگ بات کہ وہ نہریں ابھی کھودی نہیں جا سکیں اس لئے ڈھونڈے نہیں ملتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچو ! شاید آپ الجھ گئے ہیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ احمق کون ہے۔
احمق وہ ہے جو سیاست دانوں کی ان عظیم قربانیوں کو موروثیت سے تشبیہہ دیتا ہے۔ حالانکہ اس بے وقوف کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ موروثیت نہیں بلکہ تین تین نسلوں کی خدمات ہیں۔
دراصل جس دیس کے گلیوں بازاروں میں اولیاء اللہ کا فیض بٹتا ہے اور پھر ان کی وفات کے بعد یہ سارا فیض اگلی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ پھر اس ملک کے باسیوں کو ان گدی نشین اولادوں سے برابر فیض ملتا بھی رہتا ہے تو جس دیس میں روحانیت نسل در نسل چل سکتی ہے، وہاں جمہوریت نسل در نسل چلنے میں بھلا کیا ہرج ہے۔
لہذا بچو ! یہاں صرف کہانی سنانے والا ہی بے وقوف ہے، باقی سب سیانے ہیں۔

Facebook Comments