بساط تیار ہے۔۔محمد فیصل

ملک کی سیاست اس وقت ایک عجیب موڑ پر آکھڑی ہوئی ہے۔ ایک جانب سینٹ الیکشن کی تیاریاں ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت کے خلاف مارچ میں لانگ مارچ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور فیصلہ ہواہے کہ یہ مارچ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت کا مارچ نہ ہوجائے۔ صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کنفیوژ نظر آرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں ضمنی الیکشن میں کامیابی کاجشن منارہی ہے ۔۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ نے وفاقی حکومت کو  چلتا کردینے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو پھر اِن بے معنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے آپ کیا حاصل کرلیں گے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اندرون خانہ پیپلز پارٹی کچھ اور سوچ رہی ہے اور طاقت کے اصل مرکز سے وہ اپنے لیے کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے اس لیے اسے اب وفاقی حکومت کی رخصتی سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے اور خاص طور پر وہ کسی ایسے طریقہ کار کی طرف نہیں جانا چاہتی کہ جس کے نتیجے میں سارا نظام ہی زمین بوس ہوجائے۔

پیپلز پارٹی کی اصل نظریں سینیٹ کے انتخابات خصوصاً اسلام آباد کی نشست پر ہیں ، جہاں اس نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی یہ نشست ملک کی آئندہ کی سیاست کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی اگر یہاں وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تو پیپلز پارٹی ان ہاؤس تبدیلی کے لیے یکسو ہوجائے گی۔

شنید ہے کہ وفاقی دارالحکومت کی اس نشست کے حصول کے لیے آصف علی زرداری انتہائی متحرک ہیں اور وہ اپنی مفاہمانہ سیاست کا جادو چلاکر تحریک انصاف کو ایک بڑا سرپرائز دینا چاہتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ اسلام آباد کی سینٹ کی یہ نشست کس قدر اہم ہے اسی لیے گزشتہ کئی ماہ سے پس منظر میں رہنے والےجہانگیر ترین بھی منظرِ  عام پر آگئے ہیں اوران کے جہاز نے بھی اپنے “جادوئی پھیرے “لگانا شروع کردیے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تین مارچ کو زرداری صاحب کی مفاہمت کا جادو چلتا ہے یا جہانگیر ترین کے فضائی چکر اپنا کام دکھاتےہیں۔

سینٹ الیکشن کے حوالے  سے سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس کا فیصلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اگر عدالت عظمیٰ کی جانب سے شو آف ہینڈ کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو پھر غالب امکان یہی ہے کہ تمام جماعتیں اپنی نشستوں کے تناسب سینیٹ کے ارکان منتخب کروالیں گی تاہم اگر سیکرٹ بیلٹ کا طریقہ کار برقرار رہا تو پھر بڑے بڑے سرپرائز بھی سامنے آسکتے ہیں ۔

سینٹ الیکشن کے حوالے سے پی ٹی آئی اس وقت مخمصے کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب پر پارٹی کے اندر سے ہی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ خاص طور پر سندھ سے جن امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ انتہائی حیرت انگیز ہے۔ فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو کوٹکٹ ملنے پر ارکان اسمبلی ناراض ہیں۔ لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کو شکست دینے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عبدالشکور شاد نے کھل کر فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کی ہے۔

واقفانِ  حال بتاتے ہیں کہ پارٹی کے کئی ارکان سندھ اسمبلی بھی یہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ وہ فیصل واوڈا کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن عمران خان نے اس صورتحال میں بھی فیصل واوڈا کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی کی قیادت اس بات کو یکسر نظر انداز کررہی ہے کہ فیصل واوڈا پر اس وقت نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اپنی شہریت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے پر وہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اخلاقی تقاضا تو یہی تھا کہ پی ٹی آئی سندھ سے فیصل واوڈا کی جگہ کسی دوسرے امیدوار کا انتخاب کرتی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ کےامیدوار مشاہد اللہ خان انتقال کرگئے ہیں جبکہ دوسرےامیدوار پرویز رشید کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پارٹی کی طرف سے کون سے امیدوار سامنے آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو ان الیکشنز سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی نظریں 26 مارچ کے لانگ مارچ کی کامیابی پر ہیں لیکن اس لانگ مارچ کی راہ میں سینیٹ الیکشن کے نتائج حائل ہیں۔اگر پی ڈی ایم کےامیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ایوان بالا  ت  پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو اپوزیشن کا شاہراہ دستور تک مارچ التوا کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ پھر حکومت کی تبدیلی کا گیم پارلیمنٹ میں شروع ہوجائے گا اور عبدالحفیظ شیخ کی شکست وزیر اعظم عمران خان کو کوئی بڑا فیصلہ کرنے پر بھی مجبور کرسکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

3 مارچ اب زیادہ دور نہیں۔ بساط تیار ہے۔مہرے بٹھادیئے گئے ہیں۔اب کون کیا چال چلتا ہے اس کا انتظار مجھے بھی ہے اور یقیناً آپ کو بھی ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply