بات احمد پور حادثے کی

بات احمد پور حادثے کی
عارفہ رانا
بات تقریباً 2008 کی ہے جب میں مائیکرو فنانس بنک میں کام کرتی تھی اور میرا ٹرانسفر احمد پور شرقیہ ہو گیا تھا۔ برانچ چونکہ نئی تھی اس لیے ایریا وزٹ کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے اس علاقے کی معاشی اور معاشرتی حالات کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہے۔آج جب احمد پور شرقیہ کے حادثے کے بعد اس لالچ اور غربت کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے تو میں نے سوچا کہ اپنا تجربہ اور خیالات شئیر کر دوں۔
پہلی بات تو اس علاقے کے معاشی حالات کے بارے اس علاقے کے زیادہ تو لوگ اپنی زمیں کے مالک نہیں ہیں ان کا انحصار ٹھیکوں/مستاجری کی زمین پر ہوتا ہے، یا پھر وہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں جس میں لوگوں کے کھیتوں کی دیہاڑی پر گوڈی یا دیکھ بھال شامل ہے یا پھر آموں کے باغوں کی دیکھ بھال۔جس سے ان کا روز مرہ کا خرچا چلتا ہے۔ اگر اس علاقے میں کسی کی اپنی زمین ہے بھی تو 2 یا 3 بیگھہ ہوتی ہے اگر کوئی زیادہ ہی خوشحال ہے تو اس کی زمین 2 ایکڑ تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی گزر بسر جانوروں کی خریدو فروخت پر منحصر ہوتی ہے۔ خواتین کڑھائی کا کام کرتی ہیں (جو مہنگی مہنگی برانڈز وہاں سے انتہائی سستے ریٹ پر بنواتی ہیں) یا پھر جانورں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
اب اس بات کا جواب کہ ان لوگوں کے پاس موٹر سائکل کہاں سے آتے ہیں اگر وہ لوگ اتنے غریب ہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جناب وہاں پر سب سے سستی سواری موٹر سائیکل ہی ہے ۔ اور وہ لوگ اس سے ہر طرح کا کام لیتےہیں کبھی اس کے پیچھے پٹھوں والی ریڑھی باندھی گئی ہوتی ہے اور کبھی پچھلے ٹائر کے رم پر ٹیوب ویل کا پٹہ چڑھا کر اس کو چلانے کا کام لیتے ہیں۔ اور یہی موٹر سائیکل ان کے لیے کسی کیری سےلے کر ایمبو لینس کا کام کرتا ہے ۔ بلکہ کچھ لوگ مین روڈ یا قریبی قصبہ یا شہرسے گاؤں تک اس کے ذریعے پک اینڈ ڈراپ سروس چلا کر پیسے بھی کماتے ہیں ۔ یعنی ایک طرح سے یہ ذریعہ معاش بھی بن جاتا ہے۔ احمد پور شرقیہ ، بھاولپور، نور پور اور مسافر خانہ میں ایسے شو روم موجود ہیں جو شخصی ضمانت پر موٹر سائیکل سال بھر کی قسطوں پر دے دیتے ہیں۔ اس لیے جو ماہانہ قسطیں افورڈ کر سکتا ہے وہ لینے میں ایک لمحہ نہیں لگاتا کیونکہ جٹ( سرائیکی علاقے مییں کھیتی باڑی سے منسلک لوگوں کو جٹ کہا جاتا ہے، اس سے مراد جٹ ذات نہیں ہے) کو پتہ ہے کہ وہ اس سے کیسے کیسے فائیدہ لے سکتا ہے۔۔۔۔
اب بات ہو جاۓ حادثہ کی بلکہ سانحہ کی۔ اس کے پیچھے بڑی حد تک غربت بھی کار فرما ہے اور یہی غربت لالچ کی وجہ بنی۔ وہ لوگ جو کپڑے دھونے کے لیے 2 ماہ تک کھالے کے پانی کے چلنے کا انتظار کرتے ہوں وہ ایسے ضائع ہوتا پیٹرول کیسے جانے دے سکتے ہیں۔ (ساتھ کے ساتھ سڑک پر جانے والوں نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے چاہے اور اس چکر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے)۔ یہ لوگ روز کا روز کماتے ہیں اور کھا لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 2 ڈالر سے بھی کم روزانہ کماتے ہیں، جن کے بچے راہ گزرتے کپاس سے بھرے ٹرالر سےگری کپاس چن کر اس کو کسی دوکان پر بیچ کرسمجھتے ہیں کہ وہ ان چند روپوں سے بہت امیر ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ کسی کہ کھیت کا کام صرف اس لیے بھی کر دیتے ہیں کہ ان کو ایک دن کی سبزی پکانے کو مل جاتی ہے۔ان نے اب بھی یہی سوچا ہو گا کہ چنڈ لیٹر پیٹرول اکٹھا کرنے سے شائد وہ چند روپے کما لیں گے۔ ان کا یہ ایکٹ ایک وقت کی روٹی کے لیے یا اچھی عید گزارنے کے لیے تھا۔یہ روٹی کا لالچ تھا جو ان کو وہاں تک لے آیا اور ایسا لالچ اس کو ہی ہو سکتا ہے جس کے گھر میں غربت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے شک کچھ لوگوں کے بقول تمام لاشیں سنبھالی جا چکی ہیں۔ لوگ علاج کے لیے ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کی سب سے امیر ریاست کی غربت کی قلعی کھل چکی ہے۔ سہولیات کا فقدان اور حکمرانوں(چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہوں) کی عدم توجہی صاف نظر آرہی ہے۔

Facebook Comments

عارفہ رانا
پیشے سے وکیل، شوق سے آر جے (ریڈیو پاکستان)،اتفاقیہ لکھاری، فطرت ہر چیز کے بارے جاننا، عادت مثبت رویہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply