• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خدا،اسلام،پاکستان اور اُردو سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔۔اسد مفتی

خدا،اسلام،پاکستان اور اُردو سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے۔۔اسد مفتی

اس سے پہلے کہ میں اپنی بات شروع کروں،یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب تک پاکستان کے چھوٹے صوبوں اور بڑے صوبے یعنی پنجاب کے درمیان ایسا رشتہ پیدا نہیں کرتے،ایسے تعلقات پیدا نہیں کرتے کہ جس سے کسی کو ایسا احساس نہ ہوکہ وہ کسی مجبوری کے تحت اکٹھا رہ رہا ہے،اور پاکستان سے ان کی وابستگی ایسی چیزنہیں جو زبردستی ان پر ٹھونسی گئی ہے،تو پاکستان پُرسکون نہیں رہ سکتا۔نہ ہم چین سے رہ سکتے ہیں،اور نہ اس خطہ میں امن و امان پیدا ہوسکتا ہے،اور نہ ہی ہم داخلی طور پر خوشگوار تعلقات استوار کرسکتے ہیں،جب تک ہم اپنے گھر کے حالات درست نہیں کرتے اس وقت تک ہمیں واضح کامیابی نہیں مل سکتی۔
آج یہ بات”نعرہء حق”بن گئی ہے کہ پنجاب کو “ظالم”کہا جائے،استحصالی صوبہ کہا جائے،اور اس کے خلاف ایک “بلاول”پیدا کیا جائے جو پاکستان کو “پنجابستان”کہہ کر اپنے کسی جذبے کی تسکین کا سامان مہیا کرے۔
سچ ہے،پنجاب ظالم نے ظلم کیا ہے،اس کی شناخت گم ہوئی،مگر یہ برف کی سِل بنا رہا،اس کی ثقافت کو بے چہرگی کا شکار کیا گیا،تو اس نے لمبی تان کر سونے میں عافیت جانی۔پنجاب ظالم ہے کہ سندھیوں کے پاس سرکاری و غیر سرکاری سطح پر زبان ثقافت کی ترقی و ترویج کے لیے رسائل و اخبارات ہیں،سرحد کے پاس اپنے نصاب ہیں،اپنی شناخت کے لیے اپنی زبان کی سلامتی کے لیے کتب و رسائل اور اخبارات موجود ہیں،بلوچستان کے لوگ اپنی تہذیبی اور لسانی تشکیلات کے لیے ہر سطح پر کام کررہے ہیں۔
پنجاب “ظالم”ہے کہ اس نے اپنی زبان کو کھو دیا۔تہذیب گم کردی،ثقافتی بے چہرگی کو قبول کرلیا۔اور پھر بھی ٹھنڈ ا ٹھار ہے۔
پنجاب اور پنجابی کا اس سلسلہ میں اٹھا ہر قدم اسے غدار ثابت کرنے کے لیے کافی ہے،پنجاب “ظالم”ہے کہ اس نے کسی بھی غیر منتب اقتدار کو قبول نہیں کیا۔
پنجاب ظالم ہے کہ ون یونٹ کے پورے عرصہ میں اسے اپنی آبادی اور آمدنی کے تناسب سے ترقیاتی رقوم میں کم حصہ ملتا رہا،یہاں تک کہ دوسرے علاقوں کی ترقی کے لیے اس کے وسائل استعمال کیے گئے۔پنجاب ظالم ہے کہ۔۔۔
یہی اس غریب اور بے چہرہ پنجاب کا اصلی گناہ ہے جسے پاکستان پیپلز پارٹی ان دنوں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے،بلاول بھٹو جیسے لوگ اب انتہا پسندی کی بات کرتے ہیں،اور جس کی ایک سزا یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس کے کم از کم تین ٹکڑے سرائیکی پوٹھوہاری اور پنجابی کے نام پر کردیے جائیں اور بقول شاعر
اُن کے جوہر بھی کُھلے،اپنی حقیقت بھی کُھلی۔۔
پنجاب پر مسلسل یلغار کے سبب پی پی پی کے بلاول بھٹو تو کیا بہت سے بزعم خود”ترقی پسند پنجابی”بیرون پنجاب سے لگنے والے ہر جھوٹے سچے الزام کا اسی طرح ساتھ دینے لگے ہیں جس طرح کہا جاتا ہے کہ پنجابی لہر آنے والے حملہ آور کی پذیرائی کر لیے تیار ہوتے اور اس کے ساتھ ہولیتے۔۔جھوٹ اور سچ نتارنے کی توفیق خدا نے ان پنجابیوں کو عنائیت نہیں کی،مگر پھر بھی بڑے فراغ دل،لبرل اور ترقی پسند کہلاتے ہیں۔ایک وہ پنجابی جو کل تک پنجاب کے ہربُرے فعل میں برابر کے شریک تھے،بلکہ ان بڑے افعال کی ترغیب دینے اور ان پر عمل درآمد کروانے میں پیش پیش تھے۔۔آج یہ پنجابی اس احساسِ جرم میں حصے دار بننے کے بجائے گناہوں کا سارا پشتارا مرکزی پنجاب کے مفید اضلاع کے سر پر ڈال کر بری الزمہ ہونا چاہتے ہیں۔ااور اپنے پنجابی ہونے سے بھی انکاری ہیں۔
یہی پنجابی بزعم خود دوسرے صوبوں کے ترقی پسند سیاسی گروہوں سے مل کر یہ بھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں تین قومیتیں ہیں۔
پوٹھوہاری جس سے فوج آتی ہے اور پشتونی علاقے سے آنے والی فوج سے مل کر اٹوٹ اکائی بنتی ہے۔(اسی طرح فوج کا اپنا ایک صوبہ بن جائے گا)اسرائیلی علاقہ جہاں سے مرکزی پنجاب کو ہمیشہ جاگیردار اور قیادت میسر آئی یا تھوپی گئی،اور مرکزی پنجاب جہاں سے بیوروکریسی نے جنم لیا،اگر پوٹھوہار الگ قوم یا قومیت ہے اور پشتون اور ہندکو بولنے والے تو خیر ہیں ہی پنجاب سے باہر تو پھر ان کی فوج کے گناہوں کا بوجھ مرکزی پنجاب پر ڈالنے کا کوئی جواز یا اخلاقی جواز کس کے پاس ہے؟
اگر سرائیکی قومیت،پنجابی قومیت سے الگ ہے تو خضر حیات ٹوانہ سے لیکر موجودہ عثمان بزدار کی سیاسی قیادت کے جرائم مرکزی پنجاب کے کھاتے میں ڈالنے کااخلاقی جوازکیا ہے،اور یہ بات ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوئی کہ مرکزی پنجاب کی بے چہرہ اور بے نام اکثریت نے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے اسلام اور علاقائیت کے سبھی نعروں کو مسترد کردیا تھا،
یہ پنجابی بولنے والے مرکزی پنجاب کا کردار تھا،جس نے صدیوں پرانی مستند سیاسی ترکیبات میں رخنہ ڈال دیا اور پاکستان کے اندر گنتی کے خاندانوں کے سیاسی قلعے میں ایک ایسا شگاف ڈال دیا جس سے تمام قلعدار پریشان ہوگئے،میرے حساب سے سرائیکی اورپوٹھوہار کی تقسیم سے حالات بدلنے کے بجائے پنجاب میں بھی یوگو سلاویہ جیسی داغ بیل ضرور ڈال دی جائے گی۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جہاں وسائل نہ ہوں وہاں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں،اور یہ کہ الجھنیں اور دشواریاں اقتسادیات کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔میرے حساب سے پاکستان عوام کی گردنوں پر سوار جاگیردار پیرانِ تسمہء پا کی تار پھینکیں یہ معاملات اپن موت آپ مرجائیں گے۔
اصل مسئلہ پنجاب کو اس کی غلامی سے نکالنا ہے،اگر کسی قوم سے اس کی زبان چھین لی جائے تو وہ غلام بن جاتی ہے،اور غلام کو جو بھی گالی دی جائے وہ الحمداور شکر خیال کرکے تسلیم کر لیتا ہے۔غلام کو گالی ہی نہیں دیتا،اپنے منہ پر طمانچے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتا، غلام پنجاب کا پاکستان بننے کے بعد کوئی ترجمان اور پُرسان ِ حال پیدا نہیں ہوا جس کی وجہ سے بلاول جیسے بے سُرے لوگوں نے راگ الاپنے شروع کردیے ہیں،جن کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں،اس سیاسی مشاعرے میں وہ پنجاب پیپلز پارٹی کے وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں،جن کو پنجابی میں ماہ و سال کے نام بھی نہیں آتے۔
ایسی صورت حال میں پنجابی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطالبہ اور پنجاب و پنجابی کی الجھی ہوئی بے چہرہ شناخت کو نمایاں کرنے کی جائز خواہشوں اور کوششوں کا پی پی پی پی اور ایم کیو ایم(سبھی گروپ)کا منفی ردِ عمل کیا کچھ ظاہر نہیں کرتا۔
کل تک پنجابی کو اُردو کی ماں ماننے والے اب اس کے تین ٹکڑے کرکے اسے بے گوروکفن چھوڑنے کی بات کررہے ہیں،کیا پنجاب کو اس کے بُرے بھلے کارناموں کی جس میں پنجابی شاعروں،ادیبوں،دانشوروں اور صحافیوں کی طرف سے اُردو کے لیے بے بہا خدمات بھی شامل ہیں،)یہ سزا ملنی چاہیے۔
سوال بہت اہم ہے،اور اس کا جواب بھی اتنی ہی اہمیت اور سنجیدگی و باریکی سے تلاش کرنا پڑے گا،میں بھی سوچتا ہوں،آپ بھی سوچیے۔۔
آگے جبیں ِ شوق تجھے اختیار ہے
یہ ِدیر ہے،یہ کعبہ ہے یہ کوئے یار ہے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply