دادا جی اور شہتوت کی چادر۔۔محمد ہاشم

ہمارا گاؤں بسین گلگت شہر سے متصل ہونے کی وجہ سے گلگت شہر میں رہنے والوں اور گلگت بازار کے غیر مقامی کاروباری حضرات کے لئے ویک اینڈ پکنک پوائنٹ کا مقام رکھتا ہے۔
یہیں کے کارگاہ نالے کی خوبصورتی جنت نظیر اور اسکا شفاف پانی کسی امرت سے کم نہیں جہاں اب بھی رومیوں میں سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

اسی حسین گاؤں بسین میں پرانے گلگت غذر روڈ جو کہ موجودہ ہسپتال روڈ ہے ،پر گھر کے ساتھ ایک قطعہ قدیم قبرستان ہوا کرتا ہے جس کی تمام قبریں دہائیوں پہلے کھنڈر بن چکی ہیں۔ ان قبروں کے گرد شہتوت کے دیوہیکل درخت تھے جن پر گرمیوں میں شہتوت لدے ہوتے تھے۔ بڑے ہوتے ہوئے جب دیکھا کہ کوئی بھی ان درختوں سے شہتوت نہیں کھا رہا۔ پوچھنے پر کسی “بڑے” نے بتایا کہ چونکہ ان درختوں کی جڑیں قبروں میں سے گزر رہی ہیں تو اس کے پھل پر مردوں کے اجسام کا اثر ہوتا ہے ا ور ان کا رس ہوتا ہے۔ ہم بھی یہ مان کر رہ گئے۔

دادا جی مرحوم کی ایک عادت تھی کہ جب بھی شہتوت کا سیزن  آتا، بازار سے ایک بڑی لٹھے کی سفید چادر خرید لاتے تھے اور ہم روزانہ اسی چادر میں شہتوت جھاڑ کے تھالیاں بھر بھر لاتے تھے اور سہ پہر دادا  جی کے ساتھ بیٹھ کے ٹھنڈے شہد جیسے رس بھرے شہتوت کے مزے لیتے تھے۔

گلگت شہر سے غیر مقامی کاروباری حضرات جن میں اکثر پٹھان ہوتے تھے، شہتوت کھانے  کے لیے بسین کا رخ کرتے تھے تو ہم سڑک پر یہیں چادر اور تھالی لے کر انکا انتظار کرتے تھے۔ اس انتظار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ شہتوت کھانے کے بعد چادر اور تھالی کے ساتھ   کچھ پیسے بھی تھما دیتے تھے جو کہ ہمارے پچپن کی کُل کمائی ہوتی تھی۔ ان کے دئیے ہوئے پانچ یا دس روپے سے ہم خوب مزے لے کر شیرنی والی مٹھائیاں کھاتے تھے یا کرکٹ بال کے لئے ٹیپ لے آتے کیونکہ تب دو ہی مشغلے تھے، کھا پی کے سارا دن کرکٹ کھیلنا۔

شہتوت کھانے کے لئے آنے والے ان قبروں والے درختوں سے ہی استفادہ کرتے کیونکہ یہیں درخت ہم سے بچے رہتے تھے اور یہیں سے ان کو پکے شہتوت ملتے تھے۔ باقیوں کا ہم پکنے سے پہلے ہی حشر نشر کر دیتے تھے۔ جمعے کی نماز کے بعد چادر اور تھالی تیار کر کے قبروں کے پاس کھڑے ہوتے اور اپنے “من  و سلویٰ ” کا انتظار کرتے   اور جب وہ حضرات ان قبروں والے درختوں سے شہتوت اتار کر مزے لے لے کر کھاتے تو ہم دور دور سے دیکھتے اور آپس میں ہنستے کہ دیکھو کیسے مزے سے مُردوں کا رس کھا رہے۔ہمیں ساتھ کھانے کو کہتے تو ہم بہانے سے ٹالتے کہ ہم تو ابھی کھا کے بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف ہم یہ احتیاط بھی کرتے کہ کہیں انکو پتہ نہ چلے کہ یہ “مردوں کا رس” کھا رہے ورنہ انکا آنا بند ہو جائے گا اور ساتھ ہی ہمارا فنڈ بھی۔

دادا جی دراصل یہ چادر ہم سے زیادہ انہی مسافروں کے لئے لا کر رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنا اگایا پھل کسی مہمان کو کھلانا افضل ترین صدقات میں سے ہے اور ہمیں ان مسافروں کو چادر تھالی دیتے دیکھ کر دادا جی ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کو ہمارے “کاروباری آمدن” کا علم نہیں تھا اور نہ ہی ہم نے کبھی لگنے دیا۔ ایک اور کام ہمارے لئے لازمی ہوتا تھا کہ سفید چادر کو ہمیشہ صاف رکھنے کے لئے بار بار دھونا پڑتا تھا۔ دادا جی سے ‘سفید’ چادر کی شکایت کی تو معلوم ہوا کہ دادا جی سفید چادر کا چناؤ جان بوجھ کے کرتے تھے اور فلسفہ یہ تھا کہ کھانے کے لئے استعمال ہونے والی چادر سفید ہو تو داغ نظر آتے ہیں اور چاروناچار دھونا پڑتا ہے ورنہ ملیشا یا کسی گہرے رنگ کی چادر ہو تو ہم مہینوں نہ دھوئیں۔ لیکن ہماری چادر دھونے کی وجہ صفائی سے زیادہ یہ تھی کہ کہیں ہمارے “گاہک” گندی چادر دیکھ کر بد دل نہ ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دن کسی نے دادا جی کو شکایت لگائی کہ لڑکے چادر لے کر جو کھڑے ہوتے ہیں، در اصل وہ ان مسافروں سے پیسے لیتے ہیں۔ اس دن ہماری ٹھیک درگت ہوئی اور کہا کہ ایسے پیسے لینے سے صدقہ اور ثواب نہیں ہوتا اور اگر کوئی دے بھی تو منع کردیں۔ مسافروں کو بھی خاص طور پر آکر دادا جی نے تاکید کی کہ پیسے نہیں دینے یہ آپکا حق ہے آپ کھائیں اور یہ چادر تھالی بھی آپ ہی کے لئے ہیں۔ لیکن ہم تھے کہ نظریں جمائے رکھتے اور مسافر بھی اتنے سخی تھے کہ پانچ دس کا نوٹ تھما کے ہی جاتے۔ اور ہاں، ہم خود سے ہرگز نہیں مانگتے تھے اور کبھی کبھار بغیر کسی انکم کے بھی صبر شکر کرتے تھے۔
جب زرا بڑے ہونے لگے تو سمجھ آیا کہ مردوں کے رس والی کہانی بس کہانی ہی ہے اور قبروں کے مردے تو ہمارے دادا جی کے دور سے بھی پہلے خاک ہو چکے ہیں۔ تب پتہ چلا کہ ہمارا مردوں کے رس والا وہم دراصل وہ مسافر بھی جانتے تھے اور جان بوجھ کر نہیں بتاتے اور نہ ہی سمجھاتے کہ کہیں ان کا حصہ بھی ہم آس پاس موجود دوسرے درختوں کی طرح پکنے سے پہلے ہی صاف نہ کردیں۔ پھر کیا تھا، ان قبروں کے شہتوت سے ہمیشہ لدے رہتے درختوں کو بھی جھاڑنا شروع کیا اور مسافروں کا حصہ بھی ہم کھانے لگے۔ یوں مسافروں کی آمد بھی بتدریج کم ہونے لگی اور ساتھ ہی ہمارا مفتہ بھی بند ہوتا گیا۔ مسافروں کی آمد کی حسین روایت آہستہ آہستہ ٹوٹ گئی لیکن دادا جی نے چادر والی روایت مرتے دم تک برقرار رکھی۔ ان کے گزرنے کے بعد نہ وہ لدے درخت رہے، نہ وہ سفید چادر رہی اور نہ ہی پھلدار درختوں میں وہ برکت رہی۔ مسافروں کا شہتوت کھانے خاص ان مردوں والے درختوں تک آنا بند ہوگیا۔ چادر اب بھی اکا دکا مرتبہ آتی ہے لیکن نیت، مقصد اور ضرورت وہ نہیں جو دادا جی مرحوم رکھتے تھے۔
اب نہ وہ حسین اور خالص روایات رہی، نہ ہی وہ خوب سیرت اور بے لوث لوگ رہے، سب کچھ مادہ پرستی اور جدیدیت کی نظر ہوگیا۔
۔اللہ تعالیٰ دادا جی کی نیت اور سیرت کو قبول فرمائے اور کامل مغفرت فرمائے۔
امین۔

Facebook Comments