ملک میں خواجہ سراوں کی تعداد کا تعین ہونا ضروری ہے

ملک میں خواجہ سراوں کی تعداد کا تعین ہونا ضروری ہے
طاہر یاسین طاہر
ہم جس معاشرے کے بندے ہیں یہ صنفی امتیازات کا گڑھ ہے۔وطن عزیز کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں عورتوں کو اس عہد میں بھی ووٹ کا حق حاصل نہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ عورتیں فیصلہ سازی کے کسی عمل میں شریک نہیں ہیں۔اگرچہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے پارلیمان کی مخصوص نشستیں بڑھا کر پارلیمان میں عورتوں کی قابل ذکر نمائندگی کو یقینی بنایا ،دو مرتبہ ایک عورت ملک کی وزیر اعظم رہیں اور پانچ سال تک قومی اسمبلی کی سپیکر بھی ایک عورت رہیں۔عورتوں کی ایک قابل ذکر تعداد سیاسی جماعتوں میں سرگرم بھی ہے ،مگراس سب کے باوجود صنفی امتیازات ہمارے معاشرے کا نمایاں پہلو ہے۔ایسے میں جہاں عورتیں اپنے حقوق کے لیے جد و جہد کرتی نظر آتی ہوں ،وہاں سے یہ آوازیں بلند ہونا شروع ہو جائیں کہ خواجہ سراوں کی قومی شناختی کارڈ میں علیحدہ شناخت ہو ،اور یہ کہ مردم شماری میں ،خواجہ سراوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہ ایک خوش آئند بات ہی تصور کی جائے گی۔ نہ صرف خوش آئند بلکہ معاشرتی و ریاستی بلوغت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بھی۔کیونکہ جب ریاست خواجہ سراوں کو اپنا رجسٹرڈ شہری تسلیم کر لے گی تو لا محالہ ریاست خواجہ سراوں کو بھی وہ حقوق دینے کی پابند ہو گی جو ریاست کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔خواجہ سراوں نے بھی اپنی شناخت اور اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے اپنی مختلف تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔
یاد رہے کہ میڈیا میں یہ رپورٹ ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مارچ میں ہونیوالی مردم شماری میں خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا جائے گاـ۔حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی سٹینڈنگ کونسل اور وفاقی نمائندہ حنا حفیظ اللہ اسحاق اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ڈائریکٹر نفیس احمد نے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں پیش کی۔ خواجہ سراؤں کو مردم شماری ميں شامل کرنے کی درخواست شيراز ذکا ايڈوکيٹ کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ ميں دائر کی گئی تھی جس کی سماعت پیر کو چیف جسٹس منصور علی شاہ نے کی۔درخواست گزار نے نشاندہی کی تھی کہ اب تک ہونے والی مردم شماری ميں کبھی خواجہ سراؤں کی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا اور اب یہ اندیشہ ہے کہ حکومت مارچ میں ہونیوالی مردم شماری میں خواجہ سراوں کو شامل نہیں کر رہی۔ ان کا بنیادی حق ہے کہ مردم شماری میں ان کی تعداد کا بھی تعین کیا جائے۔وزرات بہبود آبادی کے نمائندے اور حکومتی وکیل نے عدالت کوبتايا کہ نادرا کو اس ضمن ميں ہدايات جاری کر دی گئی ہيں۔عدالت کے استفسار پر حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ آئندہ مردم شماری میں خواجہ سراوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ حکومتی یقین دہانی پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے درخواست نمٹا دی۔
دریں اثنا خیبر پختونخوا کی خواجہ سرا برادری نے جنس سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات نہ ماننے پر پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ درخواست دائر کی تھی۔جس میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود مردم شماری فارم میں جنس کے کالم میں خواجہ سراؤں کو شامل نہیں کیا گیا ہے اس لیے مردم شماری کی حالیہ تیاری کو فوری طور پر روک دیا جائے۔یہ رٹ درخواست خواجہ سراؤں کی صوبائی تنظیم ٹرانس ایکشن کی طرف سے آئین کے آرٹیکل کی دفعہ 199 کے تحت دائر کی گئی ۔خیال رہے کہ گذشتہ دنوں لاہور ہائیکورٹ نے خواجہ سراؤں کو تدفین کے لیے قبرستان میں جگہ کی فراہمی سمیت دیگر بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے ۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست پر وفاقی حکومت، نادرا اور ادارے شماریات کو نوٹس جاری کیے تھے۔بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کے خلاف مقامی خواجہ سرا وقار علی نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور ایک درخواست کے ذریعے یہ استدعا کی تھی کہ دیگر شہریوں کی طرح ان کو بھی بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔سماعت کے دوران شیزار ذکا ایڈووکیٹ نے دلائل دیے اور نشاندہی کی کہ خواجہ سرا بنیادی حقوق سے محروم ہیں جس کی وجہ سےان کو زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ قبرستان میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو تدفین میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔وکیل کے مطابق خواجہ سراؤں کی آخری رسومات کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے کوئی حامی نہیں بھرتا۔وکیل نے افسوس کا اظہار کیا کہ خواجہ سراؤں سےغیر انسانی سلوک کے ساتھ انھیں تشدد کا نشانہ بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ خبریں اور عدالتی فیصلے نیز خواجہ سراوں کا اپنے حقوق کے لیے از خود متحرک ہونا خوش آئند بات ہے۔ہمیں اچھے دنوں کی امید کے ساتھ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ خواجہ سراوں کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق ان کی نہ صرف شماریات کے مسائل حل کیے جائیں گے بلکہ ان کی جنس کے حوالے سے بھی نادرا عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھے گا۔ یہاں اس امر کا ذکر لازمی تصور کیا جاتا ہے کہ ہمارے سماج میں خواجہ سراوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے حوالے سے کئی سماجی مسائل درپیش ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک قومی اخبار کے دینی صفحے پہ خواجہ سراوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں “دینی نمائندے “کا جواب یہ تھا کہ بڑی عمر کا خواجہ سرا اگر فوت ہو جائے تو اسے قریب رشتہ دار کے سوا کوئی اور غسل نہیں دے سکتا۔ ان کے اس جواب پر ملک کے ایک ممتاز کالم نگار اور دانش ور نے گرفت بھی کی تھی۔یہ وہ ذہنی و سماجی رویہ ہے جس نے خواجہ سراوں کو محض مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ بلکہ انھیں تو مختلف فنکشنز میں تفریح طبع کے سامان کے طور جانا جاتا ہے۔یہ بات بڑی دل سوز ہے کہ خواجہ سراوں کو ایک ایسے ملک میں جو اسلام کے نام پر بنا، وہاں دفن ہونے کے لیے بھی کئی رکاوٹیں عبور کرنا پڑتی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ریاست خواجہ سراوں کو بھی پاکستانی شہری تسلیم کرتے ہوئے انھیں وہ تمام بنیادی حقوق دے گی جو ہر پاکستانی شہری کا حق ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply