انٹرنیٹ کی بحالی اور کمیٹیوں کی تشکیل۔۔ایس معشوق احمد۔

ڈیڑھ سال قبل ہم دیار کشمیر کے رہنے والوں کو پندرہ بیس سال پیچھے دھکیل دیا گیا۔اس  تیز رفتار ترقی  کے دور میں ہمیں  انٹرنیٹ کی سہولیت سے محروم  کر دیا گیا۔ اتنا ہی نہیں  کال کرنے اور ایک  دوسرے کے ساتھ  فون پر رابطے میں رہنے پر  قدغنیں  لگا دی گئیں۔  باقی ممالک فائیو جی(5g) کے تجربے کررہے ہیں ہم فور جی (4g) کی شکل دیکھنے کو ترس رہے ہیں۔  بنا انٹرنیٹ کے ہمیں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ہم ہی جانتے ہیں۔ چھوٹے بڑے  ،بچے بزرگ ،طلباء اور تجارت پیشہ افراد تمام  مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔سب سے زیادہ نقصان طلباء کا ہورہا ہے۔  جن کے پاس تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے صرف آن لائن کلاسز ہی کا راستہ بچتا ہے کیونکہ کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔  جب سے خصوصی پوزیشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہمیں نہ صرف گھروں کے اندر محصور کر دیا گیا بلکہ  انٹرنیٹ سے بھی محروم کر دیا گیا۔ نہ یہ رہا نہ وہ رہا، رہے تو خراب حالات ، افراتفری، پریشانیاں اور پابندیاں۔ کبھی   ہم  خصوصی پوزیشن  پہ ماتم کرتے رہے تو کبھی انٹرنیٹ کی بحالی  کا انتظار،  لیکن دونوں ہم سے دور دور ہی رہے۔   ہر دو دو ماہ بعد اخباروں اور سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کرتی ہے کہ جلد ہی اچھی خبر سنے کو ملے گی ،کمیٹی بن گئی ہے جو صورتحال کا جائزہ لے گی۔کمٹیاں تو بہت بنیں لیکن پتا نہیں چل سکا کہ  یہ کمٹیاں حالات کا جائزہ لینے کے بعد کہاں جاتی ہیں اور ان کی رپورٹ میں ایسا کیا لکھا ہوتا ہے کہ دو ماہ اور  معاملہ سرد خانے میں پڑا رہنے دیا جاتا ہے۔اتنے بھی کشمیر میں کون سے بڑے بڑے ہیکر بیٹھے ہیں جو سارے سسٹم کو ہیک کرکے ملک کی سلامتی کو زک پہنچا سکتے ہیں ۔ ہمیں کیوں ٹو جی(2g) پر اکتفا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور   ہم فور جی کا انتظار اس محبوب کی طرح کر رہے ہیں جس نے آنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن ابھی تک    آیا نہیں ۔

جتنا وقت میسج لکھنے میں لگتا ہے اس سے زیادہ وقت اسے  ارسال  ہونے میں لگتا ہے۔اگر کوئی امیج یا وڈیو کسی کو بھیجنا ہو یا کسی کو کوئی ضروری ڈاکیومنٹ سینڈ کرنا ہو پھر تو دن بھر اسی کام میں صرف ہوتا ہے۔ایپلی  کیشن اپڈیٹ کرنی ہو تو پورا پورا دن اسی کام کے لیے وقف  کرنا پڑتا ہے۔فون اپڈیٹ پچھلے سال سے نہیں ہوئے۔اس تیز رفتار دنیا میں ہم سے بڑا صابر کوئی نہ ہوگا جو صبر کرتے کرتے ایک منٹ کا معمولی کام ایک دن میں کرتے ہیں۔خصوصی پوزیش ہم سے چھیننے کے بعد پہلے تو مکمل طور کال کرنا تک بند تھی ۔پھر چھ ماہ کی طویل اذیت کے بعد کال کرنے کی سہولیت میسر ہوئی لیکن انٹرنیٹ کی سہولیت سے محروم ہی رکھا گیا۔ اور  دو تین  ماہ ہوئے اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد ٹو جی کو کبھی بحال تو  کبھی بے حال رکھا گیا۔اب کافی وقت بیت جانے کے بعد بھی صرف خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اچھی خبر آئے گی فور جی انٹرنیٹ بحال ہونے کے حوالے سے۔یہ خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے کے بعد لوگوں میں ایک امید جاگاتی ہیں ،لیکن جلد ہی وہ امید  ٹوٹ  جاتی ہے جب ایک اور خبر چند دن بعد آتی ہے کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

اب ہمیں نہ انٹرنیٹ کے خواب آتے ہیں ،اور نہ ہی فور جی کی تمنا رہی۔وہ صبر اور ہمت بھی نہیں کہ  انتظار کر سکیں۔اب ہمارے ہونٹوں پر بس یہ شعر آتا ہے  جس کو ہم گنگنا رہے ہیں کہ __

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر

Advertisements
julia rana solicitors

نیٹ کے بغیر نیٹ کی تمنا کئے بغیر

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply