اوم پوری

ایک ذاتی دکھ کا لمحہ
داؤد ظفر ندیم
اوم پوری مر گیا، بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک عام سی خبر تھی کہ بہت سے لوگ مرتے ہیں کیا فرق پڑتا ہے مگر بعض پاکستانی اسے ایک پاکستان دوست بھارتی سمجھتے تھے ان کے نزدیک برصغیر میں امن، دوستی اور مکالمے پر یقین رکھنے والے کم ہو رہے ہیں اوم پوری کے مرنے سے ایک اور امن دوست چلا گیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک انسان کو زبردستی جغرافیائی سرحدوں میں قید کیا گیا ہے سرمائے کی کوئی سرحد نہیں۔ سرمایہ پوری دنیا میں جائز اور ناجائز گردش کرتا رہتا ہے۔ سرمایہ داروں، ذہین لوگوں اور چالاک لوگوں کے لئے پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی گر غریب افرادی قوت کو مذہب، حب الوطنی اور سیاست کے ذریعے مخصوص سرحدوں کا پابند بنایا جاتا ہے ایسے میں اوم پوری جیسے لوگ ہیں جو سرحدوں سے بالاتر امن کی بات کرتے ہیں اور پوری دنیا کے امن پسندوں کو اس کی موت سے دھچکا لگتا ہے۔ موجودہ دور کے کچھ لوگ اسے موجودہ فلموں کے ایک یریکٹر ایکٹر کے طور پر جانتے ہیں جو بھارت کی ہندی فلموں کے علاوہ پاکستان کے اردو فلموں اور ہالی وڈ کی انگریزی فلموں اور ہندی اور انگریزی ڈراموں میں کام کرتا رہا تھا بعض اسے ہندی فلموں کے ولن کی حیثیث سے جانتے ہیں جس نے ماضی میں بعض ہندی فلموں میں ولن کے جاندار رول ادا کئے۔ اور بعض اسے ایک مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی جانتے ہیں چاچی چارسو بیس میں کملا ہاسن کے ساتھ کئے جانے والا مزاحیہ کردار کو کون بھول سکتا ہے۔ کوئی کھوجی لوگ اس بات سے بھی واقف ہوں گے جو اس نےا یک ڈرامہ فلم چارلی ولسن وار میں جنرل ضیا کا کردار ادا کیا تھا

مگر میرے جیسے لوگوں کے لئے یہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہم لوگ جنہوں نے اسی کے وسط میں شعور کی آنکھ کھولی تھی ہمارے لئے اوم پوری کچھ بڑھ کر تھا۔ ہمارے لئے وہ نصیر الدین شاہ، سمیتا پٹیل، شبانہ اعظمی کی کہکشاں کا ایک ستارہ تھا جس نے آرٹ فلموں اور متوازی سینما میں کام کرکے ہمارے دلوں کو موہ لیا تھا۔
نوجوانی میں جب متوازی سینما اور آرٹ فلموں کے بارے معلومات ہوئیں تو سب سے پہلے شیام بینیگال کے بارے پتہ چلا۔ میں نے نیا نیا ایف ایس سی کا امتحان دیا تھا اور غلام عباس کے افسانے کتبہ اور اوور کوٹ کا سحر طاری تھا جب یہ پتہ چلا کہ شیام بینیگال نے غلام عباس کے ایک افسانے آنندی پر منڈی کے نام سے فلم بنائی ہے یہ آرٹ فلموں سے واقفیت کی ابتدا تھی تب پتہ چلا کہ نصیر الدین شاہ، اوم پوری، فاروق شیخ، شبانہ اعظمی، سمیتا پٹیل اور دپتی نول بھی کمال کے اداکار ہیں
یہاں سے وجے ٹنڈولکر جیسے مصنف سے واقفیت ہوئی اور یوں آکروش جیسی فلم تک پہنچا، ایک انسانی المیہ یوں فلمایا جا سکتا ہے ایک سکتہ سا ہوگیا۔ وجے ٹندولکر تو اصل زندگی کے المیئے کو ڈرامے یا فلم کے سکرپٹ میں ڈھالنے کا ماہر تھا اور اوم پوری اس کو اصل زندگی کے تاثر کے ساتھ پیش کرنے کا ملکہ رکھتا تھا
پھر وجے ٹنڈولکر اور گووند نہلانی کی ایک اور فلم ارد ستیہ میں اوم پوری نے کمال کردیا۔ پھر پریم چند کی لکھی ہوئی کہانی پر سدگاتی جیسی فلم جو ٹیلی ویژن کے لئے بنی تھی مرچ مسالہ، دھاروی، جانے بھی دو یارو، اور بہت سی آرٹ فلمیں جن کو محض یادداشت کے سہارے فوری طور پر لکھنا ممکن نہیں۔
ان فلموں میں اوم پوری نے کوئی اداکاری نہیں کی بلکہ حقیقی زندگی کےکردار کو ادا کیا ان فلموں میں اوم پوری جب بولتا تھا تو ۔ اس کے چہرے کے تاثرات حقیقی زندگی کے تاثرات تھے ۔ ان فلموں میں وہ خاص ہونے کے باوجود کبھی بھی کسی کو خاص نہیں لگا۔ اس کی ہنسی عام آدمیوں جیسی تھی۔ اوم پوری کا کمال یہی تھا کہ اس نے آر ٹ فلموں میں نہ ہی جذباتی کردار ادا کیا نہ ہی کامیڈی کرکے لوگوں کو ہنسایا بلکہ ایک خاص بے بسی اور عام بندے کو محدودیت کا پیش کیا۔ جس کا برصغیر میں ہر عام بندے کو سامنا تھا، کہیں اشرافیہ کے ہاتھوں نسلی، لسانی، سماجی حوالے سے ذلت اور کہیں بااثر افراد کی وجہ سے اختیار ہوتے ہوئے بے بس ہونے کا احساس۔۔ اس لئے وہ مقبول تھا۔ آرٹ فلموں میں اداکاری کرتے دیکھ کر کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ کوئی اداکار ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے اپنا جاننے والا کوئی آدمی ہے جو اپنی ہی دُھن میں بولتا جارہا اس کے الفاظ سادہ ہونے کے باوجود دل میں اترجاتے تھے۔ وہ ایک غیر معمولی آدمی تھا۔ معاشرے میں ایک ایسا آدمی جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے حصے کی شمع روشن کی تھی۔ بڑا آدمی ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر اس سے مل کر اپنے آپ کو کبھی بھی چھوٹا نہ سمجھیں۔ اوم پوری ایک بڑا آدمی تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لئے اوم پوری کی موت ہماری نسل کے لئے محض اتنی سادہ بات نہیں بلکہ یہ ذاتی دکھ کا ایک لمحہ ہے جسے دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا اتنا آسان نہیں

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply