نہلے پہ دہلا۔۔عارف خٹک

“میرے پیسوں کے  لالچ میں شادی کی ہے تم نے میرے ساتھ، جھوٹے ہو فراڈ دھوکے باز ہو”۔ وہ ہذیان بکتی جارہی تھی۔ “تیرے جیسے بے غیرت اور گھٹیا انسان اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں، جو چہرے پر شرافت کا نقاب لگاکر ہم جیسی ورکنگ وومنز کو پھنسا کر ان کے پیسوں پر پلنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔”
وہ سرجھکائے گہری سوچوں میں گم تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کو کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اپنے بچوں کا سوچ رہا تھا۔ اس کے خوبصورت اور گول مٹول بچے جو شاید ابھی بھی اپنی ان پڑھ ماں کیساتھ کھیل رہے ہوں اور چھوٹی سی گول مٹول تین سالہ بچی ہر دو منٹ بعد بستر پر پڑی ماں سے یہ پوچھ رہی ہو  گی۔ “پاپا کب آئیں گے۔ مجھے پاپا نے میک اپ دِلانا ہے”۔

“تیری اوقات گاؤں کی کسی جاہل عورت سے شادی کرنے کی ہی  تھی۔ مجھ سے جھوٹ بول کر دوسری شادی کی۔ تم یہی سوچ رہے تھے ناں کہ اکیلی عورت ذات ہے لاکھوں کی تنخواہ لیتی ہے، مجھے بھی پالتی رہے گی، اور میری  نکمی جاہل  بیوی کو بھی پالتی رہے گی۔ ہے ناں؟”
اُس کو اِس کی خاموشی کھل رہی تھی۔

اس کو آج شدت سے اپنی پہلی بیمار بیوی یاد آرہی تھی۔ جس سے چوری چھپے چالیس سال کی عمر میں “محبت کا اسیر” ہوکر اس کتیا سے شادی کی تھی۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کے بچوں کا کیا ہوگا۔ لوگ کیا کہیں گے۔ وہ تو اتنا پاگل ہوچکا تھا کہ اپنی دوسری بیوی سے بھی مسلسل جھوٹ بولتا رہا۔ کتنی خوبصورتی سے اس گھٹیا عورت نے مظلومیت کا رونا رو کر اس کو جذباتی کرکے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرڈالا تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید یہ امیر کبیر بندہ ہے۔ اُس نے بھی لالچ میں آکر  ہی  شادی کی۔

“بتاؤ مجھے، اس لئے شادی کی تھی مجھ سے کہ میں پینٹ شرٹ پہنتی ہوں۔ میری ایک کلاس ہے اور تمھارے اندر کا مرد جو احساس کمتری کا مارا ہوا ہے، اس کو ایسی عورت چاہیے تھی۔ بولو۔۔۔ جواب دو”۔

اس کو آج اپنی پہلی محبت میکی یاد آئی جس سے فلورنس یونیورسٹی میں ایک پل بھی الگ ہونے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ البانین مسلمان لڑکی کتنا  روئی تھی کہ مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جاؤ۔ میں تیرے ساتھ پاکستان جاؤں گی۔ میں پردہ کروں گی۔ گھر پر بیٹھوں گی، بس مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ مگر 2 جنوری 2006 کو وہ چپکے سے اٹلی چھوڑ کر پاکستان آگیا۔

“بتاؤ مجھے کس لئے مجھ سے شادی کی تھی؟۔ یوں بازار کے دلال کی طرح سر جھکا کر کیوں سن رہے ہو؟۔ اس لئے مجھ سے شادی کی تھی کہ تم میرے پیسوں پر عیاشیاں کروگے اور اپنے بے غیرت خاندان والوں کو پالوگے۔ اللہ کرے تیری بیٹی، تیرے بچے مرجائیں ۔ اللہ کرے ان سب کے جنازے ایک ساتھ اٹھیں ۔ اللہ کرے تم پاگل ہوجاؤ۔ میں نے غلطی کی تم سے شادی کرکے۔ میں تو سمجھی تھی کہ شاید تم میرے ساتھ رہوگے اپنے بدذات گھر والوں کو چھوڑوگے مگر تم نے تو مجھے پھینک دیا”۔

وہ تصور میں اپنے معصوم بچوں کو افسردہ دیکھتا رہا۔ وہ اپنے بچوں کا آئیڈیل تھا۔ جب اس کی دوسری شادی کا بڑے  بیٹے بارہ سالہ نوین کو پتہ چلا تو اس نے شکایتی نظروں سے بس  باپ کو دیکھا مگر گلے پھر بھی لگا۔ منہ سے ایک لفظ تک نہیں بولا۔

“لالچی انسان اس لئے میرے پاس آئے ہو کہ میرے باپ نے مجھے میرے دس لاکھ واپس کردیے ہیں۔ تم نے میرے اکاونٹ میں تیس لاکھ دیکھے ہیں کسی طریقے سے وہ ہڑپ کرنا  چاہ رہے ہو ناں؟”۔

وہ مسلسل سر جھکائے ہوئے تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر بیپ کی آواز سنائی دی۔ اس نے موبائل کھولا۔ بینک کی طرف سے ایک ای میل تھی کہ “آپ کےا کاونٹ میں آپ کی تنخواہ مبلغ چار لاکھ روپے ٹرانسفر کر دی گئی ہے”۔ اس نے آہستگی سے بنک ایپ کھولی۔ کچھ دیر سوچتا رہا اور پہلی بار سر اٹھا کر اپنی دوسری بیوی کو دیکھنے لگا۔

وہ کھلے گلے کی شرٹ جس میں اس کا کلیویج صاف  نظر آرہا تھا۔  سکن ٹائٹ جینز پہنی ہوئی اور لال لپ اسٹک سے ہونٹ لتھڑے ہوئے تھے اس وقت وہ سڑک کنارے کھڑی ایک سستی کال گرل کی طرح لگ رہی تھی۔ جو گاہک کو لبھا کر قیمت طے کرنے کیلئے بیتاب ہو “تیری  آدھی تنخواہ پر میرا حق ہے۔ میں لیکر رہوں گی۔ تم میرا حق کھلا رہے ہو ان کتوں کو۔ تم قرآن کو نہیں مانتے۔ جانور سے بھی بدتر ہو۔ ۔”

اس نے کپکپاتی انگلیوں سے موبائل  سکرین کو ٹچ کیا اور ساری تنخواہ پہلی بیوی کے  اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا چار فٹ آفت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔

“کیا کہا میں دلال ہوں،بےغیرت  اور  لالچی ہوں؟”۔ وہ بے حد پُرسکون تھا۔ “تیرے  جیسی عورت کے لئے میرے پاس ایک ہی چیز ہے ذلالت اور میری نفرت۔ فی الحال اسی پر گزارہ کرو”۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ تیزی سے فلیٹ کا دروازہ کھول کر گویا جہنم سے باہر نکل آیا۔ جیب سے فون نکالا۔ “سیمی ڈارلنگ ریڈی ہو؟۔ میں بس دس منٹ میں آیا۔ کل سے مسلسل تیرا سوچ رہا ہوں۔ پوری رات نیند ہی نہیں آئی۔ ابھی اس  گھٹیا عورت  نے دماغ کی چولیں ہلادی  ہیں۔ میں بس دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں  آج تجھے ایرٹریئم میں کوئی گھٹیا مووی دکھاتا ہوں”۔

Facebook Comments