ماہ ِمحرم الحرام کی نسبت سے بطور خاص۔رفعت علوی

(گزشتہ سال ماہِ محرم کے موقع پر لکھی تحریر)

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے!

ہوامیں خنکی تھی آج صبح ہی موسلادھار بارش ہو چکی تھی، مگر ماحول میں عقیدت کی گرمی تھی، ہلکی سی تپش تھی جو ہجوم میں شامل لوگوں کے چہروں سے نکل نکل کے ارگرد پھیل رہی تھی، لوگوں کے ہونٹ ہل رہے تھے اور دعائیں سرگوشیاں کر رہی تھیں، ابرو سجدے کر رہے تھے پیشانیوں سے عرق ندامت ٹپک رہا تھا اور آنکھیں وفورِ  شوق اور عقیدت میں ایک ہی طرف نگراں تھیں، فضاؤں میں بھنبناھٹ کی گونج تھی تبرکات کی دکانیں مرد خواتین کے ہجوم سے پٹی پڑی تھیں ،تسبحیں، جانمازیں، کھجوریں ہاتھوں ہاتھ بک رہی تھیں،مول تول ہو رہے تھے، اس وقت یہاں کوئی سیانا نہیں تھا سب ہی نے اپنی اپنی دانائی عجز و احترام کے شیرے میں ڈبو دی تھی۔

قلم میں لرزش مژگاں، قلم میں رشتہ جاں، قلم میں زمزمہ و رم، قلم میں شور فغاں،
قلم کی طاقت تیغ بےنیام بھی ہے اور اس کی دھار فاتح زمانہ بھی ہے،

ایسا لوگ کہتے ہیں میں نہیں کہتا، کسی کا اصرار ہے کہ رفعت کے قلم میں جادو ہے سحر ہے کسی کا خیال ہے میرے قلم میں طلسم بھی ہے حلم بھی ہے، کوئی کہتا ہے اس کی تحریر میں ناز بھی ہے وقار بھی ہے اذان صبح بھی اور کہکشاں بھی، رومانیت بھی ہے اور اسلامیات بھی۔۔۔
یہ سب قصے سہی۔۔۔ کہانیاں سہی۔۔۔لن ترانیاں سہی!
مگر آج جب میں کچھ لکھنے کی کوشش میں ہوں تو لفظ گونگے پڑ گئے ہیں، قلم بہرہ کیوں ہوگیا ہے میری کوئی بات نہیں سنتا، آج نہ تو جملے کھلکھلاتے ہیں نہ قلم سخنوروں کی طرح باتیں کرتا ہے اور نہ ہی فہم شناسی کے پھول کھلا رہا ہے بلکہ آج تو ستمگروں کی طرح ادائیں دکھا رہا ہے، دلبروں کی طرح آنکھیں مار رہا ہے،لغزشوں پہ لغزشیں کر رہا ہے، دعا لکھنا چاہتا ہوں دغا لکھ جاتاہوں غیب کو عیب سے ملا دیتا ہوں اور خدا کو جدا کر دیتا ہوں۔۔
یہ سب کیا ہے؟؟ یہ کس بات کا اعجاز ہے یہ، ہاتھ لرزیدہ لرزیدہ، میں بغیر کچھ لکھے قلم رکھ دیتا ہوں اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لیتا ہوں ایک جھپکی سی آتی ہے اور۔۔۔۔۔۔پھر عالم تمام حلقہء دام خیال تھا!

نہ ابر بہاراں نہ عکس نگاراں، نہ کسی کو کسی خال رخ یار کی فکر، نہ ہی کوئی چشم دلدار کے اشارے کا منتظر، یہاں من و تو مٹ چکا تھا بس ایک سیلاب بلا تھا، منجدھار تھا اور ہر شخص اپنی کشتی پار لگانے کی کوشش میں اپنے ناخداؤں سے آگے بڑھ بڑھ کر ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا مگر کوئی چھل کپٹ نہیں، آگے بڑھنے کی کوشش میں معصوم سیدھی سادی چالیں چلی جا رہی تھیں، وہ لوگ بھی جو زندگی میں محتاط روی اختیار رکھتے ہیں اور ایک ایک فیصلہ شطرنج کی چالوں کی طرح سوچ بچار سے کرتے ہیں یہاں بیگانہ خرد نظر آئے اور جنوں کی ساری لغزشوں کو لبیک کہہ کے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے اے دل وحشی تیرے جینے کی یہ ادا بھی کیا ہے۔۔

دیار نبی پھر دیار نبی ہے، میں آنکھوں سے روضہ حرم چوم لوں گا!
آؤ آؤ مدینے چلو۔۔
تاجدار حرمَ مدینے کے والی، یثرب کے والی شاہ مدینہ، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔
بچپن میں سنی سنائی ساری نعتیں اور قوالیاں میری یاداشت میں زندہ ہوگئیں۔۔

مسجد نبوی ۔۔
شیطان میرے کندھے پہ چڑھا بیٹھا غیض وغضب سے پیچ و تاب کھا رہا تھا، کبھی میرے کان میں سرگوشی کرتا ” کہ دیوانہ مت بن، تیری اوقات کیا ہے جو تو اندر داخل ہونے کی ہمت کر رہا ہے، ذرا اپنے اعمال دیکھ اور شاہ مدینہ کا جلال دیکھ،” جب میں نے اس کی بات پر کان نہیں دھرے تو پھر وہ میری خوشامد پر اتر آیا “اچھا دیکھ ایسا کر ابھی واپس چل دیکھ لے رش بہت ہے تو کمزور آدمی ہے تیرا دم اکھڑ جائے گا تو رات کو آجانا” مگر میں چکی کے پاٹ کے بیچ میں آچکا تھا مجھے آدمیوں کے اس سمندر کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھنا تھا اپنی مرضی کے بغیر اور شیطان کی خواہش کے بنا،

آخر ایک ریلہ آیا اور میں نے خود کو باب جبرائیل پہ کھڑے منجمد چہرے والے عبا پوش کے سامنے پایا، اس نے مجھے اندر جانے کا اشارہ  کیا، میں نے ایک گہری سانس لی اور چوندھیائی ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا، الٹے  ہاتھ کی دیواروں پر سونے کے پانی سے قرانی آیات، دعائیں اور کلمہ کھدا ہوا تھا جبکہ میرے سیدھے ہاتھ پر سنہری جالیوں سے ڈھکا ایک کمرہ تھا جس پر محمد ابوبکر اور عمر کے نام چمک رہے ہیں اور ان کے ساتھ چھوٹے بڑے سوراخ بنے ہوئے تھے لوگ دیوانہ وار جالیوں کی طرف لپک رہے تھے مگر سکیوریٹی آفیسرز کا اصرار تھا کہ جالی کو ہاتھ مت لگاؤ، دور سے فاتحہ پڑھو، دعا اور فاتحہ کے بعد میں آگے بڑھا اور نمازیں پڑھنے کے بجائے ادھر ادھر گھومنے لگا، ایک سمت روضہ الجنہ پر سبز روشنی تھی اور لوگ وہاں دو رکعت نفل پڑھنے کےاشتیاق میں بیٹھے منتظر تھے، دوسری طرف صحن میں کونے پر ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جو مسجد کی چمک دمک اور برآمدے کی شان وشوکت سے میل نہ کھاتا تھا، بعد  میں پتہ چلا اس جگہ پر رسول خدا کے زمانے میں اصحاب صفا بیٹھے رہا کرتے تھے۔

وقت بدلتا ہے۔۔!
کہاں یہ آنکھوں کو خیرہ کرتی چمک دمک اور کہاں وہ پرانا یثرب جہاں 14  سو سال پہلے اڑتی دھول، برستی دھوپ میں گارے اور مٹی سے ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی، میری آنکھیں تاریخ کے صفحات پلٹنے لگیں اسی مسجد کے آس پاس کہیں وہ چھوٹا سا حجرہ بھی تھا جہاں بنت محمد ﷺ ، ام حسین حضرت فاطمہ الزھرا اپنے لخت جگر کے ساتھ قیام کرتی تھیں،اسی مسجد کے کسی حصے میں رسول خدا دوران نماز اپنے ننھے سے نواسے حسین کو کاندھے پر بٹھاتے تھے یہیں کہیں وضو کرنے کی وہ جگہ بھی رہی ہوگی جہاں حسین رضی اللہ عنہ  نے اپنے سے بڑے صحابہ کرام کو وضو کرنے کا درست طریقہ اس طرح سکھایا تھا کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ ننھا نواسہء  نبی ان کی کوئی غلطی پکڑ راہا ہے، پر اب تو وہ سارا علاقہ مسجد نبوی کی توسیع کے دوران اسی مسجد کا حصہ بن چکا تھا
میں نے جنت البقیع کے قبرستان میں ان گمنام قبروں پہ بھی فاتحہ پڑھی تھی جہاں کہتے ہیں کہ فاطمہ زہرہ کی قبر بھی تھی، میں نے دمشق میں مسجد امیہ کے دالان میں وہ آہیں اور سسکیاں بھی سنیں تھیں جو معصوم اور لٹے پٹے قافلے کے بچ جانے والے حق پرست مظلمین کربلا کے دلوں سے نکلی ہوں گی، اس بچی کی ہچکیاں بھی میرے دل پر دستک دیتی تھیں جو شام غریباں سے زنداں تک کے سفر میں ایک پل بھی سوئی نہیں تھی۔

اسی مسجد امیہ کے ایک گوشے میں،مَیں  نے وہ چھوٹا سا کمرہ بھی دیکھا تھا جہاں مظلوم حضرت حسین کا سر مبارک لا کر رکھا گیا تھا اور تو اور میں تو وہ شخص تھا جس نے دمشق میں ہی باب صضیر کی سڑک پر دونوں طرف بنے دو قبرستانوں میں شہیدوں پر فاتحہ پڑھی تھی، جس میں ایک طرف کے قبرستان میں بلال حبشی سو رہے تھے اور ام سلمی آرام فرما رہی تھیں اور دوسری طرف کے قبرستان میں شہیدان کربلا کلمہ حق کے داعی ابدی نیند میں اس دن کے منتظر تھے جب سورج کی روشنی لپیٹ دی جائے گی جب چاند بجھ جائے گا، جب ستارے گر جائیں گے جب جانیں مردہ جسموں سے ملا دی جائیں گی جب اعمال نامے کھل جائیں گے اور جب سزا اور جزا کا فیصلہ ہو جائے گا۔وہیں “زینبیا” بھی تو تھا باب صغیر کے بالکل پہلو سےچمٹا ہوا جہاں عالیشان روضہ زینب پر زائرین ہجوم کرتے تھے دھاگے باندھتے تھے اور منت پوری ہونے پر روضہ پر سونے کی چادر چڑھا دیتے تھے اور دور کیوں جائیں ؟ میں نے تو قاہرہ کے بازار الخلیلی کے آس پاس مدتوں سے آباد اس مسجد الحسین میں بھی فاتحہ پڑھی تھی جہاں نواسہ ء رسول کا سر مبارک دفن ہے،
اب اور کیا لکھوں اس بارے میں کیونکہ کیسے ممکن ہے بیاں ہو مبتلائے کربلا، لاکھ مضموں باندھ لیجیئے، تشنگی رہ جائے گی!

ادھر کھجوروں کے درختوں اور فلک بوس بلڈنگوں کے پیچھے سورج غروب ہوا اُدھر فضا میں ایک نعرہ مستانہ بلند ہوا، موذن کی خوش الحان آواز سے مسجد کے دروبام دھمکنے لگے، یہ مغرب کی نماز کا بلاوا تھا میں نے دیکھا مدینے کہ گلیوں ،محلے اور سڑکوں سے گویا آدمی ابلنے لگے، لوگ جوق در جوق جذبہ شوق میں مسجد کی طرف یوں لپک رہے تھے گویا جو کچھ بھی عرض ہے طلب ہے مانگ ہے یہیں سے پوری ہونے والی ہے، میں بھی ایک صف میں ھاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور نماز کے نام پر بے سمجھے ٹکریں مارنے لگا، نماز ختم ہوئی اور میں جس طرح سیاہ کار مسجد نبوی ﷺ کےاندر گیا تھا اسی طرح خطا کار باہر نکل آیا، بادیدہ نم، تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا۔۔ یعنی کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت !

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ دیر بعد میں نے اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے دیکھا یثرب وہ شہر طیبہ جو نور الہدا ہے، جس کی ہر صبح شمس الضحی ہے اور جس کی ہر شام بدرالدجی ہے ۔جو دلداروں کا آستاں ہے۔اسی شہر کی شان آن بان مسجد نبوی دور سے نگینے میں ہیرے کی طرح چمک رہی تھی اندر مسجد میں اب بھی ہزاروں لوگ سجدے میں سر جھکائے پڑے تھے اور مسجد کے بلند و بالا مینار سرمئی فضا کے پیش منظر میں سر اٹھائے خدا کی کبرائی کا اعلان کر رہے تھے۔۔اللہ اکبر۔۔خدا سب سے بڑا ہے۔۔جو سب کچھ جانتا ہے، وہی خدا ہے!

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply