سیاست کیا ہے ؟

سیاست کیا ہے ؟
محمد حمزہ حامی
سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ملکی تدبیر و انتظام۔ یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں جنہیں Polis کہا جاتا تھا اور Polis کے معاملات کو Politike کہا جاتا تھا ۔ ارسطو نے Politike کے عنوان سے سیاست پر ایک کتاب لکھی جسے انگریزی میں Politics کہا گیا اور یوں Polis کے معاملات چلانے والے Politicion کہلائے۔اردو میں ریاست کے علم کو سیاست کہا جاتا ہے ۔نبی پاکﷺ کی سیاسی زندگی ہمارے لئے ایک اسوہ اور مثال ہے ۔نبی پاکﷺ کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی ۔مشہور مورخ علامہ ابن خلدون نے تو انہیں مزاج کے اعتبار سے بھی ایک نہایت غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے ۔ اہل عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت و مرکزیت سے آشنا نہ ہوئے بلکہ ہمیشہ قبائل اور گرہووں میں بٹے رہے۔ پوری قوم جنگجو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی۔ اتحاد،تنظیم،شعور ،قومیت اور حکم و اطاعت جیسی چیزیں جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں ان کے اندر یکسر مفقود تھیں ۔لیکن نبی پاکﷺ نے 23 سال کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم یک جان ہو گئی۔ یہ قوم صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ ہو گئی اور پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا ۔

نبی پاکﷺ کی سیاست اور تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک نہیں دکھائی ۔حضورﷺ کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپﷺ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ آپﷺ کو اس دوران حریفوں اور حلیفوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے ، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں ، عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف اقدامات کرنے پڑے ، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوکرنی پڑی ، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے ، قبائل کے وفود سے مختلف معاملے طے کرنے پڑے لیکن آپﷺ نے کبھی کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا ، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہنے کے بعد انکار نہیں کیا ، معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ لیکن اگر ہم موجودہ سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ تمام چیزیں جن کا درس حضورﷺ کی زندگی سے ملتا ہے بالکل دم توڑتی نظر آتی ہیں موجودہ سیاست کا حلیہ یکسر بدل چکا ہے ۔اب اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں ۔ اب اگر کوئی شخص اپنی کسی ذاتی غرض کیلئے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے ، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے وہی اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ اس کے یہ کام فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں ۔سیاست کے لئے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے، وہی لوگ ابھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔

حضورﷺ ہمیشہ لوگوں میں مل جل کر رہتے تھے مگر اب اہل سیاست کا حال یہ ہے کہ جب وہ نکلتے ہیں تو ان کے قافلوں میں ہزاروں لوگ اور کئی کئی گاڑیوں کے پروٹو کول ہوتے ہیں ، جہاں یہ اترتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں ، ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں اور جلسوں میں ان کی شان میں جھوٹ اور انتہائی مبالغہ آرائی پر مشتمل قصیدے پڑے جاتے ہیں ،جب یہ مزید ترقی کر جاتے ہیں تو ان کیلئے قصر و ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں ، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں ، ان کیلئے بری ، بحری اور ہوائی سواریوں کے خاص انتظامات کیے جاتے ہیں ،جب کبھی یہ سڑکوں پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو ان کی گزر گاہیں گھنٹوں پہلے عوام کے لئے بند کر دی جاتی ہیں ۔دور حاضر میں ان چیزوں کے بغیر کسی صاحب سیاست کا تصور نہ دوسرے لوگ کرتے ہیں اور نہ کوئی صاحب سیاست ان لوازمات سے خود کو الگ تصور کرتا ہے ۔ سیاست اس قدر ٹھاٹ باٹ سے آشنا کبھی نہیں تھی جس قدر یہ اب ٹھاٹ باٹ کی عادی ہو چکی ہے۔

اب اہل سیاست کا کام ریاست کے معاملات چلانا نہیں ہے اور نہ ہی اس طرف کوئی توجہ ہے اب سیاست اقتدار اور کرسی کیلئے ایک دوڑ ہے ،اب اہل سیاست کا کام صرف دشنام طرازی ،ایک دوسرے کی ذاتیات پر انگلیاں اٹھانا ، ایک دوسرے کی عزت کو اچھالنا ، مخالف جماعتوں کے کارکنان کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارنا ، قانون کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھنا ، گالی گلوچ کرنا ، جھوٹے وعدے کرنا، فریب دے کر ووٹ بٹورنا اورمنصب کا ناجائز استعمال کرنا ہے ۔یہ خرافات کئی دہائیوں سے ہماری سیاست کا اہم ترین حصہ ہیں بلکہ اس کے بغیر سیاست کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ آئے روز مچھلی بازار بنی ہوتی ہے جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے اہل سیاست، پڑھے لکھے اور دانشور نہیں بلکہ جہلاء کا ایک ٹولہ جمع ہے جو باہم لڑائی جھگڑے میں مصروف ہے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کر رہا ہے اور قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر یہ کہا جائے کہ سیاست کی دو اقسام ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ایک وہ سیاست جو حضورﷺ کی زندگی میں ملتی ہے، ایک یہ سیاست جو دور حاضر میں وطن عزیز میں رائج ہے۔وہ حکمت کی سیاست تھی اور یہ لے اور دے کی سیاست ہے ۔ یہاں جو جتناامیر، کرپٹ،چور، ظالم ، جابر ، دغا بازاور مکر و فریب جانتا ہے وہ اتنا ہی محترم اور منجھا ہوا سیاستدان ہے ۔اس وقت صرف ایک اللہ کی عبادت ہوتی تھی مگر اب کرسی اور پیسے کی پوجا ہوتی ہے ۔اب سیاست کو دین سے بالکل جدا کر دیا گیا ہے حالانکہ دین سیاست سے قطعا جدا نہیں ہے ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور یہ چنگیزی صفات آج ہر شخص میں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔ قتل و غارت موجودہ سیاست کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ اصل رخ ہے جو چنگیزی صفات و رنگ کی نشاندہی کرتا ہے ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply