لونڈی کیوں نہیں؟۔۔۔ذیشان نور خلجی

جنسی سرگرمیاں ہمیشہ سے میرے لیے طمانیت کا باعث رہی ہیں۔
اور سچ یہ ہے کہ کسی بھی صحت مند مرد اور عورت کے لئے ان میں سکون کا ایک جہاں آباد ہوتا ہے لیکن ہمارا عمومی رویہ کچھ اس نہج پہ آگیا ہے کہ ایسے سچ ہم سے ہضم نہیں ہوتے۔
ایسی منافقت پہ کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن ہمارا یہ موضوع نہیں۔ اس پہ پھر کبھی بات ہوگی اور کھل کے ہوگی، کہ جب اللہ پاک قرآن میں کچھ بات کہتے نہیں شرماتا تو ہم میں ایسی بے تکی شرم کہاں سے آگئی۔

تھوڑا عرصہ قبل ایک مخصوص فرقے کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ،جہاں صاحبِ منبر کے بہت سے مریدین و معتقدین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
مولوی صاحب فرمانے لگے کہ میں لوگوں کو ضرور قرآن پاک کی وہ آیات جس میں عورت کی طہارت سے متعلق ذکر ہے پڑھ کر سناتا، لیکن چونکہ ہماری بہو بیٹیاں بھی جمعے کے موقع پہ موجود ہیں اس لئے میں نہیں سنا سکتا۔

مجھے ان کی اسٹیٹمنٹ پہ کوئی اعتراض نہیں بس ایک بات طے نہیں ہورہی کہ مجھے اپنا منہ پیٹنا چاہیے کہ سر۔

خیر۔۔ ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف،

آج لوگوں کی اکثریت قرآن میں موجود لونڈی کے متعلق احکامات کو لے کر بہت تذبذب کا شکار ہے۔اور افسوس کی بات ہے کہ علماء کی قابل ذکر تعداد بھی اس معاملے میں خاموش ہے یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔کئی علماء صرف اس بات پہ ہی اکتفا کر لیتے ہیں کہ یہ لونڈیاں چونکہ اُس دور میں دستیاب تھیں تو یہ تمام احکامات اُس وقت کی ضرورت کے تابع تھے۔
اب اگر بات اس تناظر میں ہو کہ چونکہ اب اس پہ عمل کرنے کو کوئی سامان میسر نہیں تو بھی بات کو تھوڑا سا قبول کر لیا جاتا ہے۔لیکن اس کے رد میں بھی میرے پاس دو مختلف الانداز موقف ہیں۔
پہلا موقف جو کہ عمومی معاشرتی اور مسلکی رویے، ڈانگ مارنے کے انداز میں اور غیر علمی لہجے میں کہا جائے گا، کہ اور تو کئی ایسے مسائل اہلِ مذہب نے بڑی خندہ پیشانی سے چھیڑے ہوئے ہیں جن کا عملی زندگی میں کوئی وجود ہی نہیں۔
بلکہ آج ہمارے فرقوں کی عمارات ہی ان لاینحل اور لا یعنی مسئلوں پہ کھڑی کی گئی ہیں۔
اور یہ ایسی کتابی موشگافیاں ہیں کہ اگر یہ سلجھ بھی جائیں تو بھی ایک مسلمان کی زندگی میں پیش آنے والے کسی ایک مسئلے کو بھی حل نہیں کرسکتیں، تو ایسے میں ایک واضح قرآنی حکم پہ بات کرنے سے اجتناب کیوں؟
واضح رہے ایسے اعتراضات کی زد میں علماء حق نہیں آتے۔ دوسرا موقف جو کہ علمی انداز سے پیش کیا جائے گا، کہ قرآن پاک ایک الہامی کتاب ہے۔ اس کی آیات آفاقیت اور جامعیت سے لبریز ہیں۔ اس کے احکامات جیسا کہ آج سے ہزار سال پہلے قابل عمل تھے،
بالکل ایسے ہی آج سے ہزار سال بعد بھی قابل عمل ہونگے۔
تو لونڈی کے موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں قرآن پاک سے دو آیات کا حوالہ دوں گا۔

وَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِى الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا ہ
اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو یا جو لونڈی تمہاری ملکیت میں ہو وہی سہی، یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے
(سورۃ النساء آیت نمبر 3)

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَآئِكُمْ ۚ اِنْ يَّكُـوْنُـوْا فُـقَـرَآءَ يُغْنِهِـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ وَاسِـعٌ عَلِيْـمٌ ہ
اور جو تم میں مجرد ( بے نکاح )ہوں اور جو تمہارے غلام اور لونڈیاں نیک ہوں سب کے نکاح کرا دو، اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ کشائش والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
(سورۃ النور آیت نمبر 32)

Advertisements
julia rana solicitors

میری ذاتی رائے ہے کہ سورۃ النور بہت کمال کی سورت ہے اور جنسی میلان رکھنے والوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے، یعنی سبھی صحت مند مردوں اور عورتوں کے لیے اس میں بہت خوبصورت احکامات ہیں۔
سورت النور میں لونڈیوں کے بارے میں یہ حکم کہ ان کے نکاح کرو بہت واضح اور عام فہم ہے۔ اور اللہ لونڈی کے مالک کو اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
اب ہم سورت النسا کی طرف آتے ہیں۔
یہاں یہ بات واضح کردوں کہ میرا یہ بیانیہ مخصوص حالات کی بجائے سراسر عام حالات کو مدنظر رکھ کے ہوگا،
اور میری پوری کوشش ہو گی کہ اسے اتنے عام فہم انداز میں بیان کیا جائے کہ عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بالخصوص اہلِ کتاب عیسائی اور یہودی بھی اس سے کچھ اخذ کرسکیں۔
تو آئیے، بہت سادہ سے انداز میں بات شروع کرتے ہیں۔
ہم لوگ اپنے گھروں میں کام والی لڑکی (میڈ) رکھتے ہیں۔ یاد رہے یہ لڑکی ہماری زر خرید غلام نہیں بلکہ صرف ماہانہ تنخواہ دار ملازمہ ہے۔
ہمارا اس کے ساتھ رویہ کیسا غیر تہذیبی ہوتا ہے۔
ہماری اترن اس کا پہناوا ہوتا ہے۔
ہمارا بچا ہوا کھانا اسے کھانے کے لیے دیا جاتا ہے۔
عید اور کرسمس جیسے تہواروں کے موقع پہ بھی اسے چھٹی نہیں ملتی۔
اس کے علاوہ ہمارے لعن طعن اسے برداشت کرنا پڑتے ہیں، اور گمان ہے کہ ہماری ہوس بھری نظریں بھی۔
حالانکہ وہ اکیسویں صدی کے جمہوری دور میں ایک آزاد فرد کی حیثیت سے زندہ ہے لیکن پھر بھی اسے ایک تیسرے درجے پہ اور انسانیت سے گرے ہوئے مقام پہ رکھا جاتا ہے۔
واضح رہے یہاں ہم عمومی رویے کی بات کررہے ہیں، ایلیٹ کلاس پہ کیچڑ اچھالنا مقصد نہیں۔
اب فرض کریں کہ آپ کو آپشن دیا جاتا ہے کہ آپ چاہیں تو اسے نکاح میں لا سکتے ہیں اور پھر بیویوں والے تمام حقوق اسے دینا ہوں گے تو کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں،
لیکن بالفرض آپ اسے حق زوجیت دے بھی دیں تو یہ اس لڑکی کے لیے تو بہت عزت اور شرف کا باعث ہوگا اور وہ معاشرے میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل ہوگی۔
اب ہم قرآنی لفظ لونڈی کی طرف آتے ہیں۔
آج کل بہت سے لوگ لونڈی اور رنڈی میں فرق روا نہیں کر پاتے۔
رنڈی وہ ہے جو صرف اپنا جسم پیسے لے کے بیچتی ہے اور تھوڑے مخصوص وقت کے علاوہ وہ جسمانی لحاظ سے آپ کی پابند نہیں ہوتی۔
جب کہ لونڈی وہ ہے جس کی تمام شخصیت پیسے کے عوض خرید لی جاتی ہے وہ تمام زندگی یا جس وقت تک اسے آگے نہ بیچ دیا جائے وہ آپ کی ہر لحاظ سے جسمانی طور پہ بھی اور ذہنی طور پہ بھی پابند ہے۔عام الفاظ میں آپ اس کے آقا اور ناخدا ہوتے ہیں اور وہ آپ کی باندی (بندی) ہوتی ہے۔
اب پھر واپس گھر کی طرف آتے ہیں۔
آج جب ہم ایک کام کرنے والی خاتون سے جو کہ معاشرے کی ایک آزاد فرد ہے غیر انسانی رویہ روا رکھتے نہیں چوکتے۔اور اندرون سندھ جہاں دولت کا ارتکاز چند ایک ہاتھوں میں ہے اور کوئی چوہدری ہے، کوئی ملک ہے ،کوئی شاہ ہے،
اور باقی بستی والے سب مزارع اور رعایا۔
اور وہ جاگیردار جس لڑکی کو چاہے اٹھا کے لے جاتا ہے اور جنسی ہوس کا نشانہ بناتا ہے حالانکہ اس کے مزارع اس کے زر خرید نہیں ہوتے۔
تو پھر چودہ سو سال قبل کیسا ماحول ہو گا،
جب دولت کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ تھی۔ قبائلی نظام تھا،کوئی انسانی حقوق کی تنظیمیں نہیں تھیں کوئی فیمینزم کا شور وغل نہیں تھا۔
جو غلام تھے، وہ نسل در نسل غلام چلے آرہے تھے
اور جو سردار تھے وہ بھی نسل در نسل۔
تب مالک اپنی لونڈی کا ناخدا ہوا کرتا تھا۔
وہ اسے جیسے چاہتا استعمال کیا کرتا۔
اسے اپنی عیاشی کا سامان بناتا خود بھی جنسی ہوس کا نشانہ بناتا، اور اپنے دوستوں کو بھی پیش کرتا۔ سچ بات کہیں تو وہ ایک مشین یا روبوٹ کی طرح ہوتی کہ جس کی اپنی کوئی منشاء و مرضی نہ تھی ۔جسے جب دل چاہے اور جس کا دل چاہے استعمال کرلے۔
کوٹھے میں بیٹھی رنڈی یا طوائف سے بھی گئی گزری حیثیت تھی اس کی۔کیونکہ رنڈی کم ازکم اپنے معاشرتی و معاشی معاملات میں خود مختار ہوتی ہے۔
اور قرآن پاک تو انسانی حقوق کا علمبردار ہے اور بالخصوص عورتوں کے حقوق پہ تو اس کا مقدمہ بالکل واضح ہے۔
پس اللہ نے اس زرخرید عورت کو جو کہ پِسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتی تھی سورت نور کی آیت کی رو سے اسے انسانی حقوق دئیے اور مزید عزت سورت نساء میں بیویوں والے اعلٰی حقوق دے کے عطا کر دی۔
کہ اگر مالک لونڈی کے ساتھ تعلقات بنانا چاہتا ہے تو اسے بیوی والے حقوق دے اور اس کی جنی گئی اولاد بھی پھر مالک کی نسبت سے ہوگی۔ اور پھر وہ دوسروں کے لئے حرام ہوگی۔
تو جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام پیسے سے عورت کو خرید کے استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے وہ بالکل غلط سمجھتے ہیں۔
بلکہ اسلام ایسی عورتوں کو جو کہ زر خرید ہوں
ہمیں تاکید کرتا ہے کہ ان کے نکاح کرا دو،
اور اگر تم خود ان سے تعلقات بنانا چاہتے ہو تو پھر انھیں مکمل حقوق دو۔
وہ تو ہمیں پابند کررہا ہے، باندھ رہا ہے لونڈی کے ساتھ۔ جیسے عام عورتوں سے نکاح کے بندھن میں ہمیں باندھ دیا جاتا ہے۔
“نکاح کا بندھن” اسی فہم سے ہی پیدا کی گئی اصطلاح ہے کہ آپ اس عورت کے ساتھ پابند کر دیے گئے اور پھر اس کے حقوق ہم پہ فرض ہوجاتے ہیں۔
ایسے ہی لونڈی سے تعلقات استوار کرنے کے بعد اس کے حقوق بھی ہم پہ فرض ہو جاتے ہیں۔اور ثابت ہوتا ہے کہ قرآن لونڈی سے تعلقات کی اجازت دے کر لونڈی جو کہ زر خرید عورت ہے کو ایک عزت دار زندگی بخشتا ہے اور اسے انسانیت کے رتبے پہ فائز کرتا ہے۔۔۔
اور قرآن کے بیانیے کے مطابق رنڈی اور لونڈی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ منکوحہ اور رنڈی میں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply